معروف دانشور مولانا وحیدالدین سائنسی توجیحات کے حوالے سے انسانی مزاج اور رویوں کا تجزیہ کرتے ہیں توحالات و واقعات ایک وڈیو فلم کی صورت انسان کی آنکھوں کے روبرو معروضی حقائق کی تصویری جھلکیوں کا انبار لگ جاتا ہے ۔ راز حیات میں لکھتے ہیں مادہ کی آخری اکائی ایٹم ہے ،جس طرح سماج کی آخری اکائی فرد ہوتا ہے ۔اگر ہم ایٹم کو توڑنے میں کامیاب ہوجائیں تو ہم اس کو فنا نہیں کرتے بلکہ اس کو ایک نئی اور زیادہ بڑی قوت میں تبدیل کر دیتے ہیں جس کانام جوہری توانائی (Atomic energy)ہے۔مادہ منجمد توانائی ہے اور توانائی منتشر مادہ ۔مادہ اپنی ابتدائی شکل میں جتنی قوت رکھتا ہے ،اس کے مقابلہ میں اس وقت اس کی قوت بہت بڑھ جاتی ہے جب کہ اس کے ایٹموں کو توڑ کرجوہری توانائی میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ معمولی مادی قوت اور جوہری قوت میں کیا فرق ہے اس کا اندازہ اس سے کیجئے کہ دو ٹن کوئلہ ایک ریل گاڑی کو ستر میل تک لے جاتا ہے اور نوگیلن کروسین ایک موٹر کو پانچ سو میل دوڑانے کے کافی ہوتا ہے ۔اس کے مقابلہ میں بارہ پائونڈ یورینیم جب جوہری توانائی میں تبدیل کردیا جائے تو وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ ایک توانائی راکٹ کو دو لاکھ چالیسواں ہزار میل سفر طے کراسکے۔ ایسا ہی معاملہ اس سماجی اکائی کا ہے جسے انسان کہتے ہیں ۔انسان جب ٹوٹتا ہے تو وہ بے پناہ حد تک وسیع ہوجاتا ہے ۔جس طرح مادہ ٹوٹنے سے فنا نہیں ہوتا بلکہ اپنی قوت بڑھا لیتا ہے، اسی طرح انسان کی ہستی جب شکست سے دو چار ہوتی ہے تووہ ختم نہیں ہوتی بلکہ نئی شدید تر طاقت حاصل کرلیتی ہے ۔
انسان پر شکست کاحادثہ گزرنا اس کے تمام اندرونی تاروں کو چھیڑنے کے ہم معنی ہے ۔اس کے بعد اس کے تمام احساسات جاگ اٹھتے ہیں ۔اس کی چھپی ہوئی طاقتیں اپنی ناکامی کی تلافی کے لئے حرکت میں آجاتی ہیں ۔اس کے عزم اور ارادے کو مہمیز لگتی ہے ،اس کے اندر ہاری ہوئی بازی کو دوبارہ جیتنے کا وہ بے پناہ جذبہ پیدا ہوتا ہے جو سیل رواں کی طرح آگے بڑھتا ہے ۔اس کوروکنا کسی کے بس میں نہیں ہوتا ،حتی کہ پتھریلی چٹانوں کے بس میں بھی نہیں۔مادہ کے اندر ایٹمی انفجار(Atomic explosion) اس کو بہت طاقتور بنادیتا ہے ۔اسی طرح انسانی شخصیت کے اندر بھی بے پناہ امکانات چھپے ہوتے ہیں ۔یہ امکانات اس وقت بروئے کار آتے ہیں جب کہ انسانی شخصیت کسی انفجار سے دوچار ہوجائے ،اس پر کوئی ایسا حادثہ گزرے جو اس کی شخصیت کو پھاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کردے ۔جو اس کے تاروں کو چھیڑ کر اس کے ساز حیات کو بجادے۔ ملک کی صورت حال ایک انسان کی ایسی ہی کیفیت کی وجہ سے انتشار کا شکار ہے ۔حقیقت حال یہ ہے کہ اس سے پہلے حکمران جماعت شکست و ریخت کے عمل سے گزری اس کی قوت حیات کی ضرب کسی بھی طاقت کی مدد سے اس جماعت کو زیر کرچکی تو اپنے سارے بدلے ایک شدت کے ساتھ لینے کے جنون میں مبتلا ہوکر لینے میں لگ گئی ۔اسے ملکی معیشت کے ڈوبنے، لوگوں کی زندگی بدحال ہونے اور ملک کی ترقی کا پہیہ جام ہوجانے کی کوئی فکر نہیں جبکہ اس کے مقابل قوت جسے اپنی شکست کا یقین نہیں آرہا وہ اپنے دور حکومت کے ختم ہوجانے کے غم و اندوہ میں ایک اندھی طاقت کا روپ دھار چکی ہے اسے اپنے ملک کے اداروں کی بے توقیری کی کوئی پروا نہیں اپنے لوگوں کی بھوک ۔افلاس اور جہالت کے قعر میں گر کر مرنے کا کوئی احساس نہیں اسے فقط زمام اقتدار کی ضرورت ہے وہ عوام کے لہو کے بدلے میں ملے یا ملک دشمن عناصر کی پشت پناہی سے حاصل ہو۔آج ملکی کرنسی زوال کی جس تحت الثری تک پہنچی ہوئی ہے تاریخ کے کسی دورمیں اس بدحالی سے نہیں گزری تھی ۔حکومت ہو یا حزب مخالف دونوں اپنی اپنی قوت کے جنون میں مبتلا ہیں ۔ایک حکومت کے بچانے کے لئے آئین وقانون کی دھجیاں بکھیر رہا ہے اور جو اپنی اسمبلیاں خود توڑنے کے مرتکب ہوئے اپنے زخموں کو چاٹنے سے فرصت نہیں پارہے ان کے ایک ایک عمل سے پچھتاوا آشکار ہے لیکن حکومت ہر غیر آئینی عمل کے ذریعے اقتدار پر قابض رہنے پر مصر ہے ،دونوں کی تان کہاں ٹوٹتی ہے کسی کو خبر نہیں فرد جو سماج کی آخری اکائی ہے یہ مادے کی آخری اکائی ایٹم بن کر اپنے بکھرے ہوئے وجود کے ساتھ معاشرے کوکوئی ناقابل تسخیر قوت نہیں بناسکتا یہ اپنی بھلائی اور فلاح کے فارمولے پر عمل کرکے ایک دوسرے کو برابر جینے کا حق دیکر زندگی کو سہل بناسکتا ہے ۔سیاستکاروں کے دل میں جب تک اقتدار کی محبت رہے گی وہ ملک اور عوام کی محبت کو ایسے ہی بھولے رہیں گے جیسے اب تک کے رویوں سے ظاہر ہے کہ یہ فنا کے احساس سے یکسر عاری ہیں اور اپنی بقا کا سارا انحصار سیاسی بقا میں پاتے ہیں۔جبکہ سیاسی بقا سے پہلے سیاسی جماعت اور سیاستدان کے اپنے وجود کی بقاء کا مسئلہ ہوتاہےکہ سیاسی جماعت کے منشور میں ملک وقوم کو اہمیت دی گئی ہو اور ملک کے عوام کی فلاح کی بقا کو اہمیت دی گئی ہو تو سب کچھ فنا ہونے پر بھی وہ سیاسی منشور باقی رہ جاتا ہے ۔ موجودہ سیاسی صورت حال میں ملک و قوم اور سیاسی عمل کی پائیداری کو کہیں مدنظر نہیں رکھا گیا ،اقتدار کی رسہ کشی ہے جو حرص وہوس کی انتہا کوچھوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے ،نظریاتی کشمکش دو بدو جنگ اور مبارزت میں تبدیل ہورہی ہے یہاں تک کہ احساس زیاں تک کا شدید فقدان ہے اپنے ہی اثاثوں کو اپنے ہاتھوں سے جلایا جا رہا ہے گو یا اپنی ترقی اور خوشحالی کی راہوں کو خو د مسدود کیا جا رہا ہے ۔یہی عمل جاری رہا تو ہم اپنے ہاتھوں فنا کی بھینٹ چڑھ جائیں گے ہمیں کسی دشمن کی ضرورت نہیں پڑے گی کہ ہم اپنے ساتھ دشمنی کے معاملے میں خود کفالت کے عروج پر کھڑے نظر آتے ہیں ہماری فنا کو باہر سے کوئی خطرہ نہیں ہمارے اپنے اندر کا دشمن بہت مضبوط و طاقتور اور بلا کا ضدی ہے۔
