اہم خبریں

میرے شہر جل رہے ہیں

مائیں، بہنیں، اور بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں، لیکن آج جس طرح مائوں، بہنوں اور بیٹیوں کی تذلیل اور ان مقدس رشتوں کو سربازار رسوا کیا جارہا ہے، اسے دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ووٹ کو عزت دو کے بیانیے کی طرح یہ نظریہ بھی دفن ہوگیا ہے۔ کوئی بھی ذی شعور اور محب وطن پاکستانی اپنے قومی اثاثوں اور املاک کو تباہ کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ گزشتہ دنوں ہنگامہ آرائی کے دوران جو حشر برپا کیا گیا اس کی مذمت ’’قومی فریضہ‘‘ سمجھ کر کی جانی چاہیے اور جو عناصر اس میں ملوث پائے جائیں انہیں قانون کے مطابق کڑی سزا دی جائے لیکن اس موقع پر اس امر کا خاص خیال رکھا جائے کہ پانی کا بہائو ایک طرف ہی نہ رہے۔ توڑ پھوڑ کے الزام میں گرفتار ہونے والوں سے یہ ضرور پوچھا جائے کہ انہیں ایسا کرنے پر کس نے اُکسایا اور پھر اس کا ’’کھرا‘‘ جہاں بھی نکلے وہاں تک ہر صورت میں پہنچا جائے لیکن پنجاب پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے ذمے داران اور اہلکاروں نے ہنگامی آرائی روکنے اور گرفتاریوں کی آڑ میں جس طرح خواتین کے سروں سے دوپٹے نوچے، انہیں سڑکوں پر گھسیٹا، گالی گلوچ کی اور تشدد کا نشانہ بنایا اس کی بھی نہ صرف مذمت کی جائے بلکہ اس میں ملوث کرداروں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔
اس حوالے سے سوشل میڈیا پر جو ویڈیوز گردش کر رہی ہیں انہیں دیکھ کر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔ شائد کبھی ایسی صورتحال میں سر شرم سے جھک جاتے ہوں لیکن آج سر جھکنے کے بجائے اونچے ہو رہے ہیں۔ احتجاج پر ٹکا سا جواب دیا جاتا ہے کہ ’’اوپر‘‘ سے آرڈر ہے۔ حکم ’’اوپر‘‘ سے آتا ہے یا ’’نیچے‘‘ سے یہ ایک الگ بحث ہے لیکن اتنا ضرور ہے کہ یہ شاہ سے زیادہ شاہ سے وفاداری کرنے والوں کی ہی کارستانی ہے، کوئی اوپر والا ہو یا نیچے والا لیکن اس سے عوام میں نفرت کے جذبات اُبھرنا فطری امر ہے۔ زیر حراست خواتین کی قابل اعتراض ویڈیو بنائی گئیں۔ گندی گالیاں دی گئیں حتیٰ کہ ایک معذور لڑکی کو درجنوں اہلکاروں نے سڑک پر بے ہودگی سے گھسیٹا۔ جو عناصر اس کا ذمہ دار اوپر والوں کو قرار دیتے ہیں انہیں یہ بات کبھی بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ’’اوپر‘‘‘ والوں سے بھی ایک ’’اوپر‘‘ والا ہے اور اگر کبھی اس کا آرڈر آگیا تو پھر انہیں لگ پتہ جائے گا۔ اس نے چودہ سو سال قبل عورت کو بحیثیت ماں، بہن، بیوی اور بیٹی عزت و تکریم کی فضیلت عطا کی تھی۔ عورت خالق کائنات کی طرف سے دنیا میں بھیجا جانے والا ایک خوبصورت تحفہ ہے۔ ایک عورت سب سے پہلے بیٹی کہلاتی ہے۔ ایک ایرانی شاعر نے الفاظ کو جیسے پھولوں کی مالا میں پرو دیا ہے جنہیں سن کر خوشبو اپنے اردگرد بکھرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ کہا ہے کہ وہ تمہارے بغیر دنیا اُدھوری ہے، ہماری دنیا تمہارے ہونے سے جنت ہو جاتی ہے۔ اللہ پاک ہر گھر کو بیٹی عطا کرے لیکن بیٹیوں کے ساتھ جو سلوک کیا گیا۔ اس کے ذکر پر روح کانپ جاتی ہے۔ خواتین کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو وہ سب کے لئے قابل احترام ہونی چاہئیں۔ سیاست میں اتار چڑھائو سیاسی کھیل کا حصہ ہے۔ جنہوں نے کوئی جرم کیا ہے ان کی گرفتاری اور سزا پر کسی کو اعتراض نہیں ہوگا۔بشرطیکہ اخلاقیات کا بھرم بھی قائم رکھا جائے۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عثمان ڈار کے گھر میں نصف شب دیواریں پھلانگ کر توڑ پھوڑ کے علاوہ ان کی 75سالہ والدہ کے ساتھ مبینہ گندی زبان استعمال کی گئی اس سے صرف ایک ماں کا تقدس مجروح نہیں ہوا بلکہ ہر ماں کے تقدس کو شدید ٹھیس پہنچی ہے۔ وفاقی وزیر خواجہ آصف کی معذرت گونگلوئوں سے مٹی جھاڑنے کے مترادف ہے کچھ عرصہ قبل شاعر مشرق علامہ اقبالؒ کی بہو اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ولید اقبال کی والدہ، جسٹس (ر) ناصرہ جاوید اقبال کے گھر پر بھی یلغار کی گئی تھی۔ اس واقعے کی بھی خواجہ آصف نے مذمت کی تھی۔ متعلقہ حکام اور اہلکاروں کو اس نوعیت کی ہدایات کون دیتا ہے۔ کیا اس طرح کی ہدایات دینے والوں کے گھروں میں ماں، بہن، بیٹی اور بیوی جیسے مقدس رشتے موجود نہیں ہیں۔ جن بچوں نے اپنے گھروں میں بے رحمانہ توڑ پھوڑ خواتین اور اپنی مائوں کے ساتھ بدتمیزی کے مناظر دیکھے ہیں۔ ان کے معصوم ذہنوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ یقینا انہیں یہ وحشت ناک شب اور بے رحمانہ سلوک تمام عمر یاد رہے گا۔ ایسے ہی روئیے اور کردار نفرتوں اور کدورتوں کو جنم دیتے ہیں جو کسی بھی ملک و قوم اور معاشرے میں منفی رویوں کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے نہ صرف مرد رہنما اور کارکن ادھر ضمانت پر رہا ہوتے ہیں اور اُدھر پھر دھر لئے جاتے ہیں۔ بلکہ خواتین رہنما بھی ’’کیا اسیری ہے کیا رہائی ہے‘‘ کے مصداق ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہیں۔ کبھی انسانوں کے اندر ایک ’’حس ضمیر‘‘ اور دوسری ’’چھٹی حس‘‘ ہوا کرتی تھیں۔ اس کے علاوہ بھی ایک آدھ ’’حس‘‘ ہوتی ہے جس کا فی الحال تذکرہ غیر ضروری ہوگا۔ چھٹی حس تو شائد کسی نہ کسی میں پائی جاتی ہو لیکن جس ’’حس‘‘ کو ’’ضمیر‘‘ کے نام سے لکھا اور پکارا جاتا ہے۔ شائد وہ دم توڑ چکی ہے۔ کیا حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں کوئی ایک بھی ایسا جوان مرد نہیں ہے جس میں ’’ضمیر‘‘ کی ’’حس‘‘ زندہ ہو ایسی صورتحال میں اس کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ: میرے شہر جل رہے ہیں، میرے لوگ مر رہے ہیں میں یہ کس کے نام لکھوں جو الم گزر رہے ہیں

متعلقہ خبریں