اہم خبریں

بلوچستان، امیر جماعت اسلامی پر خودکش حملہ

بلوچستان، ژوب، امیر جماعت اسلامی سراج الحق پرخود کش حملہ، سراج الحق محفوظ رہےO 2014ء، کوئٹہ میں مولانا فضل الرحمان بھی خودکش حملے میں محفوظ رہے تھےO آپریشن زمان پارک، مذاکرات بے نتیجہ، عمران خان کی شرائط O عمران خان کے دو بھانجوں احسان نیازی اور زبیر نیازی کے خلاف بھی آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلے گاO چین: سری نگر میں جی20 کانفرنس میں شرکت سے انکار، مقبوضہ کشمیر مزید بھارتی فوج پہنچ گئیO شہد کی مکھیوں کا دن!O ادویات کی قیمت 28 فیصد اضافہ منظورO تحریک انصاف کی نشستیں بحال، کوئی فرق نہیں پڑے گا، استعفے منظور ہو چکے ہیں، پی ڈی ایمO عمران خان کو 2200 مطلوب افراد کی فہرست دی گئی، عمران کا لاتعلقی کا اظہارO ٹوبہ ٹیک سنگھ، گندم کی 2300 بوریاں پکڑی گئیںOاٹارنی جنرل: عدالتوں کے آئین و قانون کے تحت فیصلے تسلیم کئے جائیں گےO تحریک انصاف میں توڑ پھوڑ جاری، اہم افراد الگ ہو گئےO ’’موجودہ آرمی چیف کو میرے ساتھ کچھ مسائل ہیں‘‘ عمران خان انٹرویوO تحریک لبیک، 22 مئی کو مہنگائی کے خلاف احتجاج کا اعلانO ’’مریم کے پاپا چور ہیں‘‘ لاہور کی عدالت میں نعرے کیپٹن صفدر برہمO اسلام آباد، سرکاری ملازمین: پہلے بچے کی پیدائش پر بیوی کو 6 ماہ، شوہر کو ایک ماہ کی چھٹی کا فیصلہO راجن پور، کچے علاقہ کے چھ ڈاکوئوں نے خود کو پولیس کے حوالے کر دیاO عمران بیمار ہو گئے، معدے میں تکلیف، شوکت خانم ہسپتال میں معائنہ، گھر واپسO امریکی کانگریس کے 60 ارکان کے بعد کینیڈا پارلیمنٹ کے 16 ارکان کی اپیل، پاکستان میں جمہوری رویے اختیار کئے جائیںO اسلام آباد ایئرپورٹ پر 26143 عازمین حج کی امیگریشن ہو گی، سعودی عرب سے ’روڈ ٹو مکہ‘ معاہدہO شاہ محمود قریشی، عدالتی شرائط تسلیم نہ کرنے پر رہا نہ ہو سکےO حالیہ واقعات سے18 اکتوبر کے انتخابات خطرے میں، بہت زیادہ سکیورٹی ناممکن ہو گی، پنجاب حکومت کی یادداشت۔
٭ …بلوچستان میں ژوب کے مقام پر جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق پر خودکش حملہ، دھماکہ سے کچھ ساتھی زخمی ہو گئے تاہم بارودی جیکٹ پوری نہ کھل سکنے پر دھماکہ کی شدت کم رہی۔ سراج الحق اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ژوب میں جماعت اسلامی کے جلسہ سے خطاب کرنے جا رہے تھے۔ جلسہ گاہ کے نزدیک پہنچے تو ایک خود کش نوجوان ان کی گاڑی کے قریب آیا اور بارودی جیکٹ کا دھماکہ کرنے کی کوشش کی۔ جیکٹ پوری نہ کھل سکی، دھماکہ سے جیکٹ والا شخص ہلاک ہو گیا۔ کچھ افراد زخمی ہوئے، ہسپتال میں ایک زخمی کی حالت تشویش ناک تھی۔ خدا تعالیٰ خیر کرے، ابھی وزیرستان میں دہشت گردی کا مسئلہ ختم نہیں ہوا اور بلوچستان کا مسئلہ شروع ہو گیا۔ ابھی انتخابات آنے والے ہیں۔ سیاست دان جلسے جلوس کس طرح نکال سکیں گے؟ جماعت اسلامی پرامن، دھیمے مزاج والے پڑھے لکھے شائستہ لوگوں کی جماعت ہے۔ اس پر حملہ کی کوئی سیاسی وجہ دکھائی نہیں دیتی، صرف دہشت پھیلانا مقصد تھا۔ اس طرح کا ایک حملہ 2014ء میں کوئٹہ میں مولانا فضل الرحمان پر بھی ہوا تھا۔ وہ مفتی محمود کانفرنس میں شرکت کے لئے آ رہے تھے کہ اچانک ان کی گاڑی کے ساتھ ایک خود کش بمبار لٹک گیا اور بارودی جیکٹ کا دھماکہ کر دیا۔ مولانا محفوظ رہے مگر گاڑی کے باہر دو افراد جاں بحق 25 زخمی ہو گئے تھے۔ سراج الحق دھیمے مزاج کے سادہ درویش منش شخص ہیں۔ نہائت سادہ زندگی گزارتے ہیں۔ اقتصادیات کے ماہر ہیں۔ پختونخوا کی حکومت میں وزیرخزانہ تھے۔ لاہور میں صوبائی وزرائے خزانہ کی کانفرنس میں شرکت کرنا تھی۔ پشاور سے عام بس میں سوار ہو گئے۔ لاہور میں لاری اڈے سے رکشہ لیا اور پنجاب اسمبلی تک پہنچ گئے۔ سکیورٹی اہلکاروں نے اندر جانے سے روک دیا، وہ رک گئے۔ اندر اطلاع ہوئی تو باقی تین صوبوں کے وزرائے خزانہ بھاگتے ہوئے آئے اور انہیں بڑے احترام کے ساتھ اندر لے گئے۔ خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ شدید سیاسی و سماجی بحران میں مبتلا ملک کسی نئے بحرانی حادثہ سے بچ گیا ہے۔ ٭ …9 مئی کے انتہائی ہوش ربا گھنائونے واقعات کے بعد صورت حال بدستور سخت کشیدگی کی شکار ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق تحریک انصاف کے ملک بھر میں سات ہزار سے زیادہ کارکن گرفتار ہو چکے ہیں۔ عدالتوں میں ضمانتوں کی سینکڑوں درخواستیں پہنچ چکی ہے۔ ماضی میں سیاسی مخالفین کے خلاف کارروائیاں بڑے رہنمائوں تک محدود رہتی تھیں مگر اس بار تحریک انصاف اور حکومت دونوں طرف سے انتہا ہو گئی ہے۔ تحریک انصاف کے بڑے رہنمائوں کی فون پر فوجی تنصیبات پر حملوں کی ریکارڈ شدہ آوازیں سنائی دے رہی ہیں، ادھر حکومت نے بھی اندھا دھند گرفتاریوں، سینکڑوں کارکنوں کے گھروں پر چھاپے مارے جا رہے ہیں، خواتین کی بے حرمتی کی گئی، گھریلو اشیاء توڑ پھوڑ سے تباہ کر دی گئیں، ہزاروں افراد کے خلاف دہشت گردی کے ناقابل ضمانت مقدمے! بہت سے بے قصور شہری محض شبہ میں جیلوں میں بھیج دیئے گئے۔ اور مضحکہ خیز تماشا کہ لاہور کا کمشنر زمان پارک میں عمران خان کو پارٹی کے 2200 ارکان کو پیش کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اس معاملے کا ایک سنگین پہلو یہ بھی ہے جس کے بارے سوچنے کی زحمت نہیں کی گئی یہ کہ شدید مہنگائی خاص طور پر آٹے کی قیمتوں میں چار گنا تک اضافہ کے باعث ملک کی سینکڑوں جیلوں میں گندم اور دالوں وغیرہ کی خریداری ممکن نہیں رہی۔ جیلوں کے محکموں نے ہزاروں قیدیوں کے کھانے پینے اور لباسوں کے لئے کروڑوں روپے مانگ لئے ہیں۔ تمام جیلوں میں مقررہ تعداد سے دو گنا تک قیدی موجود ہیں۔ ان کے اخراجات ہی پورے نہیں ہو رہے اوپر سے تحریک انصاف کے مزید سات ہزار قیدی بھیج دیئے گئے ہیں! ٭ …چین نے پاکستان سے گہری دوستی کا ایک اور ثبوت دیا ہے۔ چینی وزیرخارجہ رانگ وَین بِن نے بھارت کے شہر گوا میں شنگھائی کانفرنس میں تو شرکت کر لی مگر 22 مئی کو مقبوضہ کشمیر کے دارالحکومت سری نگر میں ہونے والی ’جی20‘ ممالک کی کانفرنس میں شرکت سے اس بنا پر انکار کر دیا کہ یہ کانفرنس ایک متنازعہ علاقہ میں منعقد ہو رہی ہے، چین اس میں شرکت نہیں کر سکتا۔ (باقی ممالک متنازعہ نہیں سمجھتے؟؟) بھارت نے اس پر روائتی ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ قارئین کی دلچسپی کے لئے بھارت کی چین سے دوستی اور دشمنی کی دلچسپ داستان کا کچھ تذکرہ!! 1954ء میں چین میں مائوزے تنگ سُپر حکمران تھے۔لیوشائوچی صدر اور ’چن ژی‘ وزیراعظم تھے۔ دونوں بھارت کے خیر سگالی کے دورے پر آئے۔ دہلی میں بھارت چین بھائی بھائی کے بینر لگائے گئے۔ وزیراعظم پنڈت نہرو نے زبردست ضیافتیں دیں۔ پھر چینی مہمانوں کی واپسی کے بعد امریکہ کے دبائو پر چین کے خلاف سازشیں شروع کر دیں اور ہماچل پردیش صوبے سے ملنے والے چین کے کچھ سرحدی علاقے پر قبضہ کر لیا۔ مختصر یہ کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے سخت دشمن بن گئے۔ 1962 میں اس علاقہ میں دونوں ملکوں میں جنگ ہوئی۔ چینی فوج نے بھارتی فوج کی سخت پٹائی کر دی اور بھارت کے کچھ علاقے پر بھی قبضہ کر لیا۔ بھارتی فوج کی دُرگت بنتی دیکھ کر ضلع تیزپور کا ڈپٹی کمشنر دفتر کھلا چھوڑکر بھاگ گیا۔ معاملہ اقوام متحدہ تک گیا۔ چین نے دلچسپ موقف اختیار کیا کہ بھارتی فوج نے چینی فوج کی 30 بھیڑیں اغوا کر لی تھیں اس پر چینی فوجی مشتعل ہو گئے تھے۔ چین نے تقاضا کیا کہ اس کی بھیڑیں واپس کی جائیں۔ بھارت نے فوراً 30 موٹی تازی بھیڑیں پیش کر دیں۔ چین نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ یہ تو وہ بھیڑیں ہی نہیں! قارئین کرام! 60 سال سے زیادہ گزر گئے، چین اور بھارت میں بھیڑوں کا جھگڑا آج تک طے نہیں ہو سکا۔ ٭ …لاہور ہائی کورٹ نے قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے 72 ارکان کے استعفوں کی منظوری کے طریق کار کو غیر آئینی قرار دیا، حکومت اس پر سخت الجھن میں پڑ گئی ہے۔ اس کے وزراء کے بیانات آ رہے ہیں کہ کوئی عدالت سپیکر کو کوئی حکم جاری نہیں کر سکتی! یہ وزراء محض حق نمک ادا کر رہے ہیں۔ آئین میں واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ کوئی بھی رکن اپنی تحریر کے ساتھ سپیکر کو استعفے دے کر مستعفی ہو سکتا ہے۔ یہ فرض سپیکر کا ہے کہ جس طرح اعلیٰ عدالتوں کے رجسٹرار عدالتوں میں بھیجے جانے والی درخواستوں کی چھان بین کرتے ہیں کہ درخواست قانونی تقاضوں کے مطابق پیش کی گئی تھیں یا نہیں! اسی طرح سپیکر کسی استعفے کا جائزہ لیتا ہے کہ درخواست اصلی بھی ہے یا نہیں۔ مستعفی رکن خود سپیکر کو درخواست پیش کرے تو استعفا فوراً موثر ہو جاتا ہے ورنہ سپیکر کے لئے ضروری ہے کہ استعفا بھیجنے والے رکن کو طلب کر کے استعفے کی تصدیق کرائے۔ حالیہ کیس میں ایسا نہیں ہوا، نہ استعفا دینے والے سپیکر کے روبرو پیش ہوئے نہ سپیکر نے انہیں طلب کیا اور استعفے منظور کر لئے، یہ عمل غیر آئینی و غیر قانونی قرار پایا۔ عدالت نے صحیح فیصلہ دیا ہے کہ اس بے ضابطگی کو دور کیا جانا ضروری ہے۔

متعلقہ خبریں