14اگست1974ء کوجب پا کستان دنیاکی سب سے زیا دہ مسلم آبادی والی ریاست کی حیثیت سے نقشے پرابھراتھاتوبابائے قوم نے لارڈمائونٹ بیٹن کو پہلا گورنرجنرل بنانے سے اس لئے انکار نہیں کیاتھاکہ وہ خوداس عہدے کے خواہاں تھے، بلکہ اس لئے کہ اپنی قوم اوراقوام عالم کویہ باور کروایا جائے کہ اب برطانوی راج ختم ہوگیااور سلطانی جمہورکازمانہ آگیاہے اورملک کے فیصلے ملک کے اندرہوں گے۔یہ سیا سی آزادی کی علامت تھی۔ اس کے ایک سال بعدجب یہ مسئلہ درپیش ہواکہ آیاپاکستان کے طے شدہ تما م اثا ثے پہلے کی طرح ’’ریزروبینک آف انڈیا‘‘میں جمع رہیں یااس کااپنابینک ہو،قائداعظم نے فیصلہ کیاکہ آزادملک پاکستان کااپنا آزادبینک ہوناچاہئے، اس طرح انہوں نے اقتصادی آزادی کااعلان کرتے ہوئے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے قیام کااعلان کیااور کراچی میں بولٹن مارکیٹ میں واقع تاریخی عمارت میں پاکستان کے پہلے اسٹیٹ بینک کاافتتاح کرتے ہوئے فرمایاکہ میں ایسا معاشی نظام نہیں چاہتاجس میں امیر،امیرتر اورغریب،غریب ترہو جائے۔ انہوں نے سودی نظام کواستحصا لی نظام قرار دیتے ہوئے ماہرین اقتصادیات اورعلمائے دین کوتلقین کی کہ وہ اسلام کے اصولوں پرمبنی بینکاری کے قیام کے لئے تحقیق اورغوروخوض کریں۔اسی طرح انہوں نے سابقہ مشرقی پا کستان کی بندرگاہ چٹاگانگ میں استحصال کے خاتمے اورفلاحی مملکت کے قیام پر زوردیا۔
انہوں نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کے بارے میں رہنمااصول متعین کئے اورکہاکہ پاکستان دنیا کے ہرملک سے برابری کی بنیاد پر دوستانہ تعلقات کاخواہاں ہے لیکن ساتھ ہی مظلوم قوموں کی حمائت بھی جاری رکھے گا۔یہ صرف سیاسی بیان نہیں تھاجیساکہ ایوانِ اقتدارپہنچتے ہی ہرطالع آزمااپنے بیرونی آقاؤں کی خوشنودی کے لئے اختیارکرلیتے ہیں بلکہ قائد اعظم ؒنے فلسطین، جنوبی افریقہ اورانڈونیشیاکے عوام کی جدوجہد آزادی کی کھل کر برملا حمایت کی،نسلی امتیازاور نوآبادیات کے خاتمے کے لئے قرارواقعی اقدامات بھی کئے۔اگریہ کہا جائے کہ وہ صرف مسلم ممالک کی آزادی کے حامی تھے توجنوبی افریقاکی اکثریت توغیرمسلم تھی تو پھرانہوں نے اس کی حمائت کیوں کی؟
قائد اعظم ؒنے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں سلطنت برطانیہ کے زمانے سے تعینات فوج کوان کی چوکیوں سے واپس بلالیااور کہا کہ اب ہمارے قبائلی بھائی ہماری شمال مغربی سرحد کی حفاظت کریں گے۔لیکن انہیں کیامعلوم تھاکہ ساٹھ سال بعدکوئی خود ساختہ محافظ پاکستان امریکی قصرسفیدمیں بیٹھے فرعون کے حکم پران ویران چوکیوں پرجواب کھنڈربن گئیں تھیں ،پھرفوج تعینات کردے گاجیسے برصغیرکے برطا نوی آقاؤں نے حریت پسندوں کی بستیوں پرسامراج کی گرفت مضبوط کرنے کے لئے کر رکھاتھا۔جہاں سیاسی ایجنٹ چیدہ چیدہ قبائلی سرداروں کورشوت دے کران کی وفاداریاں خریدلیتے تھے۔اس ڈکٹیٹرکے دورمیں یہ کاروبار اپنے عروج پرپہنچ گیاتھاکیونکہ اس ڈکٹیٹرنے اپنے غاصبانہ اقتدارکوطول دینے کے لئے چندڈالروں کے عوض قبائلی عوام کوکچلنے کے لئے امریکی سی آئی اے کووہاں اڈے بنانے کی اجازت دے کرقائد اورملک وملت کے ساتھ غداری کی۔
لیکن یہ بدنصیبی تواس ڈکٹیٹرکے آنے سے پہلے سے جاری تھی جب امریکی خفیہ پولیس ایف بی آئی کو پاکستان کی سرزمین پر تھا نے قائم کرنے کی اجازت مل چکی تھی۔کیایہ ستم ظریفی نہیں ہے کہ بانی پاکستان قائداعظم توانگریزگورنرجنرل گوارہ کرنے کوتیارنہیں تھے اورایک ایک کرکے نوآبادیات کی باقیات کومٹاتے جارہے تھے،جبکہ ان کی وفات کے تقریباً نصف صدی کے بعد آنے والے حکمران استعمارکے غیرملکی گماشتوں اورجاسوسوں کی میزبانی کررہے تھے۔اب نوبت بہ ایں جارسیدکہ کٹھ پتلی حکمران اپنے عوام سے خاص کرغیور قبائلیوں سے اس قدرخا ئف ہوگئے کہ اپنے غاصبانہ قبضے کوبچا نے کی خاطرغیر ملکیوں اورصہیونی وصلیبی عناصرکی غلامی اختیارکرلی۔کیاکوئی تصورکرسکتاہے کہ کسی حکومت کوخود اپنے ہی عوم سے ،اپنے دین سے ، اپنے اعتقادات سے، اپنے نظریات سے خطرہ محسوس ہورہاہوجس سے خودکومحفوظ رکھنے کے لئے انہیں غیر ملکی ایجنٹ اورغیراسلامی نظریات درآمدکرنا پڑیں ؟ بلیک واٹرکادرندہ دن دیہاڑے لاہور کی مشہورشاہراہ پرسینکڑوں لوگوں کے سامنے ایک پاکستانی کو گولیاں مارکرہلاک کردے اوراسے باعزت چھڑوانے کے لئے خودریاستی اداروں کے سربراہ بشمول پاکستانی صدرآصف زرداری چھڑوانے کے لئے خود ریاستی اداروں کے سربراہ بشمول پاکستانی صدرآصف زرداری قومی خزانے سے وارثوں کو24کروڑ روپے خون بہااداکرکے اسے واپس امریکا روانہ کردیں اوراسی ریمنڈڈیوس نے اپنی خودنوشتہ کتاب‘دی کنٹریکٹر‘‘ میں پاکستانی اداروں کے ان افرادکی تحقیرمیں اپنے کالے صفحات میں ان کامنہ کالاکردیا۔
قا ئداعظمؒ کی11اگست کی تقریرکابعض لوگ اس طرح حوالہ دیتے ہیں کہ جیسے انہوں نے زندگی میں پہلی باریہ تقریرکی ہے اوران کی باقی تقاریرمنسوخ ہو گئیں۔ یہ لوگ قائداعظمؒ کے متعدد بیانات کو نظراندازکر دیتے ہیں جن میں انہوں نے واضح طورپر تواتراورتکرار کے ساتھ یہ واضح کردیاتھا کہ پاکستان ایک اسلامی فلاحی ریاست ہوگی، ساتھ ہی قوم کویہ بھی بتادیاتھاکہ اسلام میں پاپائیت یابرہمنیت جیساکوئی طبقہ نہیں ہے جسے ریاست کی اجارہ داری کاکوئی پیدائشی حق حاصل ہو۔جولوگ یہ کہتے ہیں کہ قا ئداعظم ایک سیکولر ریاست چاہتے تھے توسوال یہ پیداہوتاہے کہ کیاانہوں نے پاکستان کامطالبہ محض اس لئے کیاتھاکہ برصغیر میں دوسیکولر ریاستیں ہوں،ایک پاکستان اوردوسری اس کے پڑوس میں ہندوستان ؟ پھردوریاستوں کی ضرورت ہی کیاتھی؟اگرپا کستان حق خودارادیت کے نتیجے میں وجودمیں آیاتواس میں اوربھارت میں اسلام کاعنصرانہیں ایک دوسرے سے ممیزکرتا ہے۔
کون اس تاریخی حقیقت سے انکارکرسکتاہے کہ برصغیرکے مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں نے جذبہ یگانگت کے تحت مطا لبہ پاکستان کی حمایت کی تھی۔ لہٰذا یہ کہناکہ مطالبہ پاکستان کی عوامی حمائت کے محرکات معاشی تھے،قطعاًغلط ہے۔کیونکہ مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کوقیام پاکستان سے کون سے معاشی فوائدکی توقع تھی؟وہ توبیچارے ہندو اکثریت کے یرغمال بن گئے، البتہ میں ان جاگیرداروں اورسرمایہ داروں کی نیتوں کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتاجنہوں نے راتوں رات یونینسٹ پا رٹی چھوڑکرحکمران مسلم لیگ میں شمولیت اختیارکرلی تاکہ ان کی مراعات باقی رہیں۔میں بھا رت سے نقل مکانی کرنے والے ان مفادپرستوں کے بارے میں کچھ نہیں کہوں گاجوحصول جائیداد، مال ودولت اورجاہ وحشم کے لالچ میں پا کستان آئے۔
بلکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کی ایک لسانی جماعت کے اکژرہنما ایسے بھی ہیں جوقیام پاکستان کے موقع پرہندوستان میں ہی مقیم رہے لیکن یہ اپنی قلیل تعدادکے باوجوداپنے مفادات کے تحفظ کے لئے یہاں مہاجرکالبادہ اوڑھ کرلوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرکے اپنے سیاسی ایجنڈہ پرگامزن ہیں حالانکہ یہ فوری پاکستان آنے کی بجائے اس بات کاجائزہ لیتے رہے کہ پاکستان کے معاشی اورسیاسی حالات کیارخ اختیارکرتے ہیں۔ اپنے کاروباراور دوسری تمام املاک کواچھے داموں فروخت کرکے پاکستان میں مہاجرکا لیبل لگاکر پاکستانی مایہ میں خوب ہاتھ رنگے۔پاکستان کی بیوروکریسی کے توسط سے پا کستان کی نوکرشاہی اوردوسرے ملکی اہم اداروں میں کالے انگریزوں کی طرح بطورحکمران قابض ہوگئے اورآج کھلے عام ملک کی لوٹ کھسوٹ کے علاوہ پاکستان کے لئے اپنے بزرگوں کی قربانی کاذکربھی بڑی بے شرمی کے ساتھ کرتے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ مخلص مہاجرین کی اکثریت بھی ان سے شدید نالاں ہے۔ان مذکورہ طبقات کے محرکات یقینا معاشی تھے لیکن خود پاکستان میں بسنے والے کروڑہاعوام نے اسلامی جذبے سے سرشارہوکر جدوجہدپاکستان میں اپنا کردار اداکیاتھا۔ان میں کتنے کٹ مرے،کتنی عصمتیں لٹ گئیں،لیکن ان کے پائے استقلال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔لاکھ سے زائد مسلمان بچیاں ہندوئوں اورسکھوں نے اغواء کرلیں اورآج بھی یقینا آسمان کی طرف منہ اٹھاکرنجانے کس حال میں پاکستان کی سلامتی کے لئے دعاگوہوں گی۔یہ جذبہ ایمانی نہیں تھاتواور کیاتھا ؟اس کی پشت پر کربلاکی روایت تھی،اس کی آکسیجن تحریک خلا فت کانظریہ تھا۔