تحریر:علینہ شگری
سفارت کاری ایک فن ہے اور اقتصادی سفارت کاری ایک خاص ہنر ہے، اگر آپ کے پاس نہیں ہے تو دوسروں کو مت بتائیں، اگر آپ کے پاس بتانے کے لیے کوئی مثبت باتیں نہیں ہیں، تو منفی باتیںبھی مت پھیلائیں.
وزیر اعظم شہباز شریف اپنے وزراء اور دیگراہم عہدیداروں کے ہمراہ چین کے دورے پر گئے تاہم ان کا یہ دورہ اس وجہ سے ناکام ثابت ہوا جب انہوں نے چینی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے راغب کرنے کی کوشش کی مگر اس میںکامیاب نہ ہوسکے.
پاکستان چائنا بزنس فورم میں چین میں پاکستانی سفارتخانے کے زیر اہتمام B2B سیشنز میںشرکت کے لیے تقریباً 100 کاروباری شخصیات اسلام آباد سے چین کے شہر شینزین کے لیے خصوصی چارٹرڈ طیارے پرروانہ ہوئے۔
حکومتی وفد کی سربراہی وزیر اعظم شہباز شریف کر رہے تھے، ان کے ہمراہ اسحاق ڈار (نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ) خواجہ آصف (وزیر دفاع)، محمد اورنگزیب (وزیر خزانہ)، احسن اقبال (وزیر منصوبہ بندی)، جام کمال خان (وزیر تجارت) ، علیم خان (بی او آئی اور نجکاری کے وزیر)، رانا تنویر (وزیر صنعت)، ڈاکٹر مصدق ملک (وزیر برائے پیٹرولیم)، شیزا فاطمہ (وزیر آئی ٹی)، عطا تارڑ (وزیر اطلاعات) چین میں پاکستان کے سفیر، تجارتی مشیر برائے چین۔ بورڈآف انویسٹمنٹ(بی او آئی) ، وزارت تجارت اور اطلاعات کاعملہ تھاجنہیںشینزن کےڈپٹی میئراور پاکستان میں چین کے سفیر نے خوش آمدید کہا۔
اپنی افتتاحی تقریر میں وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے آئی ایم ایف کے توسیعی پروگرام کے لیے پاکستان کی جاری کوششوں اور پاکستان کی موجودہ قرضوں کی پریشانیوں کے بارے میں بتایا۔ یہ ان کی ناکامی تھی کیونکہ وزیر خزانہ پاکستان کے معاشی استحکام اور مالیاتی نظم و ضبط کی بات کر رہے تھے۔ ان کی تقریرمیں چینی کاروبار ی افرادکے لیےدلچسپی کا کوئی عنصر نہیں تھا.
شینزین کے میئر نےبھی اس موقع پر خطاب کیااور انہوں نے گزشتہ 30 سالوں میں چین کی کامیابیوں اور شینزین کے ایک نئے ترقی یافتہ شہر کے طور پر ایک جدید ٹیکنالوجی کا مرکز بننے کی بات کی جو آئی ٹی، اے آئی اور مائیکرو چپ مینوفیکچرنگ میں چین کی ترقی کولے کرآگے بڑھ رہاہے۔
میئر نے سامعین کو شینزین کی مسلسل ترقی کے بارے میں آگاہ کیا اور زور دیا کہ شینزین ترقی کرتا رہے گا اور 2030 تک 1 ٹریلین ڈالر کی معیشت تک پہنچ جائے گا جبکہ پاکستان کی جی ڈی پی 374 بلین ڈالر ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے وزیر اعظم کا استقبال اس صوبے کے ڈپٹی میئر نے کیاجس کی جی ڈی پی پاکستان سے دگنی ہے.
اس کے بعد پاکستان کے نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار خطاب کرنے آئے جنہوں نے اپنے حفظ کیے ہوئے اعدادوشمارپڑھ کرسنائے اورماضی کا راگ الاپنا شروع کردیا اور سب کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ وہ 2017 میں ایک ایسا پاکستان چھوڑ کر گئے تھے جو عالمی ریٹنگ ایجنسی موڈیز کے مطابق بہت اچھا کر رہا تھا۔
نائب وزیر اعظم نے مزید کہاکہ پاکستان سے ٹرین چھوٹ گئی اور پچھلے 5 سال ضائع ہو گئے جس میں معاشی ترقی نہیں ہوئی۔آئیں اور پاکستان میں سرمایہ کاری کریں کیونکہ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل(ایس آئی ایف سی) آپ کا انتظار کر رہا ہے،اسحاق ڈار کی طرف سے ایک واضحپیغام بھی چینی سرمایہ کاروںکوپاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے قائل نہیں کرسکا.
وزیر اعظم شہباز شریف جن پر مینڈیٹ چوری کر کے حکومت بنانے کا الزام ہے بھی ملک میں سرمایہ کاروں کے لیے دوستانہ ماحول اورایسی ساکھ کو بحال نہیںکرسکے جس سے سرماریہ کاروں کو اس جانب راغب کیاجاسکے۔ تقریباً 200 چینی کمپنیوں سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے پاکستان میں چینی عملے کی حالیہ ہلاکتوں کے حوالے سے بے حدمعذرت خواہانہ اور وضاحتی بیان دیتے ہوئے کہاکہ سرمایہ کاروں کے لیے یہ ایک صدمہ ہے جس کے باعث چینی سرمایہ کاروں میں پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے خوف پایا جاتا ہے.
اس موقع پر چینی کارکنوں کی ہلاکت کا وزیر اعظم کی جانب سے تذکرہ انتہائی غیر ضروری تھا کیونکہ چینی لوگ دنیا کی سب سے زیادہ غیر سیاسی برادریوں میں سے ایک ہیں۔ اورویسے بھی جب کوئی سرمایہ کاری کی تلاش میں ہو، تو سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے ایک امید افزا تصویرپیش کرنی چاہیئے ناکہ قیامت کا منظر پیش کر کے ان کو پہلے سے بھی زیادہ خوف زدہ کردیا جائے .
وزیر اعظم شہباز نے اپنی پنجاب سپیڈ کے بارے میں بات کی، یہ لقب انہیں ایک چینی ہم منصب نے دیا تھا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ انہیں اب شینزین کی ترقی کرتی جیسی رفتار کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم نے تاجر برادری کو پاکستان میں سولر مینوفیکچرنگ، ٹیکسٹائل، کان کنی، آئی ٹی اور دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کی دعوت دی۔
انہوں نے لگاتار تیسری غیر متاثر کن تقریر کی جس میں پاکستان میں سرمایہ کاری بارے کوئی متاثرکن الفاظ نہیںتھے۔ تقریر میںدوستانہ پالیسی کے اعلان، کاروباری منصوبے، ٹارگٹڈ سیکٹر اور سرمایہ کاری کے نقطہ نظر کا فقدان تھا۔ وزیر اعظم اپنی ٹیم کے ساتھ حلقوں میں گھوم رہے تھے مگر یہ نہیں جانتے تھے کہ سرمایہ کاری کے لیے چینی نقطہ نظر کیا ہے۔
اس دوران وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال جیل میں اپنے مخالف پر طنزکے نشتر چلاتے رہے جبکہ دیگر کی تقریرکامحور آئی پی پی کے معاملات اور آئی ایم ایف پیکجز تھے۔
چینی سرمایہ کاروں کو یہ جاننے میں دلچسپی تھی کہ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کیوں کریں۔افسوس کی بات ہے کہ بولنے والوں میں سے کسی نے بھی اس پر توجہ نہیں دی،
سابق وزیراعظم عمران خان بھی ان ے مختلف نہیں تھے۔اپنے پورے دورحکومت میں ‘بدعنوانی اور احتساب کی باتیں کرتے رہے جس پر کارپوریٹ سیکٹر کی طرف سے بین الاقوامی فورمز پر کرپشن اوراحتساب بیانئے پر انھیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
پاکستان سرمایہ کاروں کے لیے پہلے سے ہی متضاد اور چیلنجنگ کاروباری ماحول پیش کر رہا ہے جہاں جو تنازعات، بدعنوانی، سلامتی کے خدشات، احتجاج ، سیاسی عدم استحکام، اور انتظامی امورکی کمی ہے اسی طرح کاروبار شروع کرنے یا بڑھانے کے لیے درجنوں ٹیکسز اور متعدد این او سیز کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔
امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی جانب سے اپنے غیر ملکی سرمایہ کاری کے ضوابط کا از سر نو جائزہ لینے کے بعد پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کار مسلسل مسائل کا سامنا کر رہے ہیں، جب کہ بہت سے لوگ پہلے ہی ملک چھوڑ چکے ہیں کیونکہ انہیں کاروبار کرنے میںمشکلات کا سامنا ہے۔
پاکستانی سرمایہ کاروں کا بھی یہی حال ہے۔ یوں تو آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ سے عارضی ریلیف مل سکتا ہے لیکن یہ کبھی بھی ایسے ملک میں سرمایہ کاروں اور غیر ملکی کاروباری افرادکو یقین دلانے کے لیے کافی نہیں ہیں جہاں زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو رہے ہیں۔
دورے کی اہم ناکامیاں:
کسی بھی اعلیٰ درجے کی چینی کمپنی نے فورم میں شرکت نہیں کی۔
وہ کمپنیاں جنہوں نے شرکت کی وہ درمیانی درجے کی تھیں اور ان کے سیلز ایجنٹ سیلز کی تلاش میں تھے۔
کچھ کمپنیاں جو پاکستان میں زیادہ کامیابی حاصل نہیں کر سکیں وہ اپنے ماضی کے منصوبوں کو آگے بڑھانے کے لیے حکومتی وفود سے ملنا چاہتی تھیں۔
پاکستانی وزیر اعظم کی سیکیورٹی نے چینی بزنس کمیونٹی کو ناراض کیا، کیونکہ بہت سے لوگوں کو بال روم میں جانے کی اجازت نہیں دی گئی اور انہیں انتہائی حفاظتی اقدامات کے تحت وزیراعظم سے ملاقات کے لیے 2 گھنٹے سے زیادہ انتظار کرناپڑا۔
چینی تاجر اس پیشگی شرط سے بے خبر تھے۔ ایک چینی تاجرنے توپاکستانی منتظم کو یہ تک کہہ ڈالا کہ اپنے ملک کےمسائل چین میںنہ لایاکریں کیوںکہ انہوں نے ایسا پروٹوکول پہلے کبھی دیکھا ہے نہ سنا ہے .