ہرعقل وشعوراورسمجھ بوجھ رکھنے والایہ بات جانتاہے کہ کسی بھی مکان یاجگہ کو فضیلت، مقام، مرتبہ اورعظمت وبلندی اس کے مکین کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے۔اسی لئے یہ مثال مشہور ہے کہ ’’شرف المکانِ بِالمکِینِ‘‘یعنی مکان کی بزرگی اس میں رہنے والے کی وجہ سے ہوتی ہے، پھرجب قرآن نے مکین کی عظمت پریہ مہرثبت کردی: اگرانہوں نے یہ طریقہ اختیارکیاہوتاکہ جب یہ اپنے نفس پرظلم کربیٹھے تھے توتمہارے پاس آجاتے اوراللہ سے معافی مانگتے، اوررسول بھی ان کے لیے معافی کی درخواست کرتا، تو یقینا اللہ کو بخشنے والااوررحم کرنے والاپاتے۔(النسا:64) میرے آقاﷺکومعراج سے پہلے تمام انبیا کی امامت کاشرف بھی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ جس مکان کے مکین ہیں تووہ مکان ان کے قدموں کی برکت پاکریقیناافضل واعلیٰ ہو گیا اور وہ مقام ہے ہمارے پیارے نبیﷺکامبارک روضہ، کہ جس پر گنبدِخضری اپنی بہاریں لٹا رہا ہے۔ یقینا گنبد ِخضری کے مکینﷺکے وجودِ مسعود نے اس مقام کوبھی افضل واعلیٰ بنادیا،اسی لئے اس کی زیارت کرنا، وہاں جاناافضل عبادات میں سے ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہماکے غلام حضرت نافع ؒنے حضرت عبداللہ ؓبن عمر کو 100 مرتبہ سے بھی زیادہ باردیکھاکہ آپ روضہ رسول پرسلام عرض کرنے کیلئے حاضری دیا کرتے ۔ حضرت محمد بن منکدؒرفرماتے ہیں:ایک بار میں نے حضرت جابربن عبداللہ ؓ کودیکھاکہ وہ رسول اللہ ﷺکی قبرِانورکے قریب روتے ہوئے عرض کر رہے تھے:یہی وہ مبارک جگہ ہے جہاں آنسو بہائے جاتے ہیں،میں نے رسول اللہ ﷺ سے سناہے: میری قبراورمیرے منبرکے درمیان کاحصہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔ مؤذنِ رسول حضرت بلال ؓجن دنوں ملکِ شام میں رہاکرتے تھے،آپ کوایک دن خواب میں رسول اللہﷺکی زیارت ہوئی تورسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا: اے بلال!یہ بے رخی کیسی؟ تم ہم سے ملاقات کرنے نہیں آتے؟ حضرت بلالؓ بیدار ہوگئے۔آپ نے فوراً رختِ سفر باندھا اور اللہ پاک کے حبیب ﷺکی بارگاہ میں حاضری کے لئے روانہ ہو گئے۔ وفا الوفامیں ہے:حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے مزارِ پرانوار پر حاضرہوکر رونا شروع کیا اوراپنا منہ آقاﷺ کی قبرپر ملتے تھے۔ روضہ مبارکہ میں نبی کریمﷺ، حضرت ابوبکرصدیقؓ اورحضرت عمرؓبن خطاب کی قبریں موجود ہیں۔روضہ مبارکہ جسے حجرہ نبویہ شریفہ کہاجاتاہے،اس میں نبی کریمﷺام المومنین عائشہؓ صدیقہ کے ہمراہ رہاکرتے تھے۔اس کا دروازہ مسجد نبوی کے اس حصے کی طرف کھلا کرتا تھاجسے جنت کی کیاری ہونے کااعزازحاصل ہے۔ نبی کریم کاانتقال اسی حجرہ مبارکہ میں ہوا ۔ صحابہ کرام رضون اللہ اجمعین نے مشورہ کیاکہ پیغمبر اسلام کوکہاں دفن کیاجائے، اس پر ابوبکرؓ صدیق نے رسول اللہ کی ایک حدیث کاحوالہ دیتے ہوئے بتایاکہ نبی کامدفن وہی مقام ہوتاہے جہاں اس کی روح قبض کی جاتی ہے۔ارشادرسالت کی تعمیل میں رسول اللہ کی تدفین اسی حجرہ مبارکہ میں ہوئی جہاں ان کی وفات ہوئی تھی۔ یہ حجرہ ام المومنین عائشہؓ صدیقہ کاتھا۔وہ حجرہ مبارکہ کے شمالی حصے میں قیام پذیر رہیں۔ پھر جب ابوبکرؓ صدیق کاانتقال ہواتوعائشہؓ صدیقہ کی اجازت سے ان کی تدفین بھی حجرہ مبارکہ میں رسول اللہ کے پہلوہی میں کی گئی۔رسول کی قبر اور ان کی رہائش کے درمیان کوئی دیواریارکاوٹ نہیں تھی۔عائشہ ؓفرماتی ہیں کہ حجرہ مبارکہ میں ایک طرف توان کے شوہراور دوسری جانب ان کے والدتھے لہٰذاحجاب کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی لیکن جب عمرؓفاروق کاانتقال ہوااور انہیں حضرت ابوبکر ؓصدیق کے پہلومیں دفنایا گیا تو انہوں نے اپنی رہائش والے حصے اورقبروں کے درمیان پردے کاانتظام کرلیاکیونکہ عمرؓفاروق محرم نہیں تھے۔ آج اللہ کی عطاکردہ توفیق سے ایک مجرم کی حیثیت سے اپنے آقاﷺکے حضورسلام کیلئے حاضری کاجب موقع ملاتونجانے کیوں پسینہ سے شرابور گھبراہٹ اورخوف سے جہاں ساراجسم کانپ رہاتھا وہاں اپنے آقاﷺکے احسانات، رحمت العالمین کی اپنی امت سے محبت کے مناظر نے میرااحاطہ کیا ہواتھاکہ اچانک مجھے اپنے آقاکی زندگی کے آخری لمحات یادآگئے کہ آپﷺاس وقت بھی اپنی امت کی بخشش کیلئے اپنے رب سے مناجات فرمارہے تھے۔ وفات سے3روزقبل حضوراکرم ﷺ ام المومنین حضرت میمونہ ؓکے گھرتشریف فرماتھے، آپﷺنے تمام ازواجِ مطہرات کو بلاکر دریافت فرمایاکیاتم سب مجھے اجازت دیتی ہوکہ بیماری کے یہ ایام میں عائشہ ؓکے ہاں گزار لوں؟ سب نے بیک زبان کہا:اے اللہ کے رسول آپ کو اجازت ہے۔پھراٹھناچاہالیکن اٹھ نہ پائے تو حضرت علیؓ اورحضرت فضلؓ بن عباس آگے بڑھے اور نبیﷺکوسہارے سے اٹھاکرسیدہ میمونہ ؓکے حجرے سے سیدہ عائشہ ؓکے حجرے کی طرف لے جانے لگے۔اس وقت صحابہ کرام ؓنے حضور اکرمﷺکواس (بیماری اورکمزوری کے) حال میں پہلی باردیکھاتوگھبراکرایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ رسول اللہﷺ کو کیا ہوا؟ صحابہ کرام کی کثیرتعدادفوری طورپرمسجدمیں جمع ہوگئی۔ آقا ﷺ کا پسینہ شدت سے بہہ رہا تھا۔ (جاری ہے )