آئیے ہم اب ڈونلڈ ٹرمپ کی حماقت کی طرف آتے ہیں۔ دنیا اس وقت دوخوفناک خطرات کے درمیان سانس لے رہی ہے،دنیامیں تباہ کن ہتھیاروں کی انبار لگے ہیں۔کرہ ارض کے چاروں کونوں میں شدت پسندوں کی حکومتیں ہیں، پیوٹن جیساشدت پسندروس میں موجود ہے جوہرحال میں امریکااور یورپ سے اپنی شکست کابدلہ لینے کے لئے موقع کی تلاش میں ہے۔ شمالی کوریا میں کم جونگ جیساپاگل برسراقتدار ہے جس نے پہلی مرتبہ امریکا کو خوفزدہ کرکے اسے اس کی حیثیت یاددلادی ہے، نریندرمودی جیساشدت پسندبھارت کاوزیراعظم ہے جوکہ دنیاکے امن کے لئے شدید خطرہ بناہواہے لیکن اپنی بزدلی کی بناپرسازشوں میں مصروف ہے۔امریکامیں ٹرمپ تورخصت ہوچکالیکن وہ ایک مرتبہ پھردوبارہ آنے کے لئے بھرپورکوششیں کررہاہے جبکہ قصرسفیدکے مکین تو تبدیل ہوتے رہتے ہیں لیکن یہاں پالیسی ساز اداروں پرصہیونیوں کامکمل غلبہ ہے اس لئے یہاں کوئی بھی حکمران براجمان ہو،وہ صہیونیوں کی پالیسیوں سے روگردانی کامرتکب نہیں ہوسکتا۔
غزہ میں جاری جنگ کے شعلے اب ہمسایہ مملکتوں کوبھی اپنی لپیٹ میں لینے کے لئے خطرناک حدتک بڑھ رہے ہیں جس کے جواب میں ایران بھی میدان میں بس اتراہی چاہتاہے کیونکہ یمن میں حوثیوں پرامریکااوربرطانیہ نے مل کرجو 60 مقامات پرحملے کئے ہیں،اس کے جواب میں حوثی کبھی بھی ایساخطرناک قدم اٹھاسکتے ہیں جس کے بعدلبنان اورشام کے ساتھ مصربھی لپیٹ میں آسکتاہے۔پہلاخطرہ یہ ہے کہ عراق اورشام میں بظاہرتوداعش چھپی بیٹھی ہے لیکن قرائن بتاتے ہیں کہ ان کے لئے یہ بہترین موقع ہوگا۔اب افغانستان میں بھی باقاعدہ اس کی تشکیل ہوچکی ہے اورپاکستان اورافغانستان میں اب تک کئی خودکش حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کرچکے ہیں۔پاکستان کے حالات ہم سب کے سامنے ہیں،یہ پہلی نیوکلیر ریاست ہے جو میزائل ٹیکنالوجی میں دنیامیں ممتاز حیثیت کاحامل ملک ہے۔ دوسرا خطرہ اسرائیل اور یہودی ہیں،یہ قیامت کی چاپ سن رہے ہیں۔ یہ روزدن میں تین مرتبہ ’’شمونے عسرے ‘‘کرتے ہیں،یہ اونچی آوازمیں دجال کوآوازدے رہے ہیں چنانچہ بس یہ آوازسننے کی دیرہے اوریہ دنیاچکی کے دو پاٹوں کے درمیان پس کربرابرہوجائے گی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے6دسمبر2017ء کواچانک اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم شفٹ کرنے کا اعلان کرکے پوری دنیاکوہلاکررکھ دیا تھااورجبکہ خود امریکہ میں بیشترصاحب الرائے افرانے ٹرمپ کے اس عاجلانہ اورجاہلانہ پروانے میں دنیاکی تباہی صاف نظر آنے سے خبرداربھی کیاتھا۔ ٹرمپ ان دنوں متعدد قانونی کیسزمیں بھی پھنسے ہوئے ہیں۔ان کے خلاف مختلف عدالتوں میں کئی فوجداری اورمجرمانہ مقدمات چل رہے ہیں۔ناقدین جومسلسل اس جاری صورت حال کی بنا پران کواگلے انتخابات کے لئے نااہل قراردینے کے دعوے کررہے تھے،وہ ٹرمپ کی’’ آئیوا کاکس‘‘ میں واضح کامیابی حاصل کرنے اوراس بڑی تبدیلی پرحیران ہورہے جس سے نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں صدر جوبائیڈن کے خلاف ریپبلیکن امیدوارکے طورپران کی دعویداری مزید مستحکم ہوگئی ہے۔ اب یہ واضح ہے کہ نومبر 2024ء میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر جوبائیڈن کے خلاف رپبلکن پارٹی کے ممکنہ حریف ہوں گے۔ لیکن دوسری طرف مختلف ریاستوں میں ٹرمپ کونااہل کرنے کے مقدمات دائرہیں جن میں یہ دلیل دی جا رہی ہے کہ ٹرمپ تین سال پہلے کیپیٹل ہل پرہونے والے فساداور بغاوت میں ملوث تھے۔اس سے پہلے ٹرمپ کوامریکاکی دو ریاستوں کولوراڈواورمیئن میں بطورصدارتی امیدوار انتخابات میں لڑنے سے نااہل قراردے دیاتھا۔ ریاست میئن کے الیکشن کے اعلیٰ عہدیدارنے فیصلہ کیاتھا کہ کیپیٹل ہل میں دنگے فسادکے واقعے میں ٹرمپ کے کردارکی وجہ سے وہ الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے۔اس سے کچھ دن قبل ہی کولوراڈوکی سب سے بڑی عدالت نے بھی اس سے ملتاجلتاہی فیصلہ دیا تھا۔کولوراڈوکے برعکس جہاں یہ فیصلہ ریاست کی سپریم کورٹ نے کیاتھاکہ ریاست میئن میں یہ فیصلہ آئین میں موجود شق کی وجہ سے انتخابات کروانے والے ریاست کے سب سے اعلٰی افسر نے کیا۔اسی طرح ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والی میئن کی سیکرٹری آف سٹیٹ شینابیلونے34 صفحات پرمشتمل فیصلہ دیاتھاجس میں انہوں نے کہاکہ ٹرمپ کانام رپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوارکے انتخابات سے14ترمیم کے سیکشن3کے مطابق ہٹناچاہیے۔یہ شق ایسے لوگوں کووفاقی عہدوں سے نااہل کردیتی ہے جنہوں نے ’’فسادیا بغاوت‘‘ میں حصہ لیاہو۔ قانونی چیلنجزاس بات پرمنحصرہیں کہ آیا امریکا میں خانہ جنگی کے دورکی آئینی ترمیم ڈونلڈ ٹرمپ کوبطور امیدوار کھڑے ہونے کے لیے نااہل قرار دیتی ہے یانہیں۔ ان کے فیصلے میں کہاگیاتھاکہ ٹرمپ کئی مہینوں سے اپنے حامیوں کوالیکشن فراڈ کے بیانیے سے بھڑکارہے تھے اوراس کااختتام6 جنوری2021ء کوکیپیٹل ہل پرحملے پرہوا۔ دونوں فیصلے اس وقت رکے ہوئے ہیں کیونکہ ان پراپیلیں ہوئی ہوئی ہیں توابھی یہ بات واضح بھی نہیں ہے کہ جب ان دونوں ریاستوں میں عوام اپنے رپبلکن امیداوارکاانتخاب کرنے کونکلیں گی تو کیااس وقت سابق صدرٹرمپ کانام بیلٹ پرہوگایانہیں۔ اب اہم سوال یہ ہے کہ ٹرمپ پہلاامریکی صدرتھاجس نے اپنے دورِاقتدارمیں نہ صرف اسرائیل کی سب سے بڑی خواہش کوپایہ تکمیل پرپہنچانے میں تمام عالمی انصاف کے پیمانوں کورونددیابلکہ اسرائیل کی پوزیشن مضبوط اورخطے کابدمعاش تھانیدار بنانے کے لئے باقاعدہ عرب ریاستوں سے اسے تسلیم کرواکے دوستی کے رشتے میں شیروشکرکرنے کی تمام سہولتیں بھی مہیا کیں لیکن اس کے باوجودانتخابات میں بری طرح شکست کھانے کے بعدامریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ انتخابات کے نتائج کومسترد کرتے ہوئے دنگافساد کے وہ مناظر دنیاکودیکھنے کوملے کہ دنیاحیران رہ گئی لیکن اب کیاوجہ ہے کہ ٹرمپ کودوبارہ صدارتی میدان میں لانے کے لئے کئی اہم اورمضبوط ادارے اورتنظیمیں میدان عمل میں اترآئی ہیں؟کیا غزہ میں جاری شرمناک اوروحشیانہ مظالم کے باوجود حماس کے ہاتھوں بڑھتی ہوئی درگت نے صہیونی طاقتوں کواپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے ٹرمپ کی ضرورت دوبارہ آن پڑی ہے ؟ اب اس خطے میں تیزی سے بڑھتے ہوئے جنگ کے شعلوں نے مغرب کوبھی فکرمندکردیاہے جبکہ اب تک ان کی مجرمانہ خاموشی اوردرپردہ اسرائیل کی حمائت کے نقصانات سے بچنے کے لئے سرجوڑکر بیٹھے ہوئے ہیں کہ کیاواقعی اسرائیل کومزید اس قدر چھٹی دی جائے کہ یہ اپنے مقاصدکی کامیابی کے لئے ان کے کندھوں پرآئندہ کی ایٹمی جنگ کابوجھ ڈال دے؟ یاد رہے کہ اگر اسرائیل اپنے اس منصوبے کوپایہ تکمیل میں پہنچانے میں کامیاب ہوگیاتواس دن دنیاکی تباہی کاعمل شروع ہوجائے گااورہم تیسری اورآخری عالمی جنگ کارزق بن جائیں گے۔چنانچہ میری آپ سے درخواست ہے آپ اللہ سے جتنی معافی مانگ سکتے ہیں آپ مانگ لیں، آپ سکھ کے جتنے سانس لے سکتے ہیں آپ لے لیں،اورآپ اللہ تعالیٰ کاجتنا شکرادا کر سکتے ہیں،آپ کرلیں کہ قیامت کادن تواٹل ہے کیونکہ خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے،اب بس ایک دھماکے کی دیرہے جس کے نتیجے میں عالمی جنگ کاطبل بجاہی چاہتاہے۔