اہم خبریں

آئی ایم ایف کی گرفت میں حیات

میں اب یہ سوچ رہاہوں کہ موجودہ پی ڈی ایم کی حکومت نے آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط کیوں منظور کیں؟ کس نے حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ ان شرائط کو قبول کرنے کے بعد پاکستان میں معاشی وسماجی خوشحالی کے نئے دور کا آغاز ہوگا۔ لیکن آئی ایم ایف کی شرائط کو پڑھ کر اندازہ ہوا ہے کہ پاکستان کے عوام کی اجتماعی حیات پر آئی ایم ایف نے غلبہ حاصل کرلیاہے۔ ان شرائط سے امیر طبقے (بدمعاشیہ) پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ کیونکہ یہ طبقہ ہرحکومت وقت کے ساتھ مل کر اپنی ’’معاشی ضروریات‘‘ پوری کرلیتاہے۔ جبکہ معاشرے کاایک بڑا طبقہ یعنی غریب ومفلس حالات کے چنگل میں پھنس کر مزید غربت اور محرومی سے دوچار ہورہے ہیں۔
ہرچند کہ پاکستان کے باشعور طبقے نے آئی ایم ایف کی بے جا شرائط کو مسترد کردیا ہے اور حکومت وقت پر سخت تنقید کی ہے لیکن تنقید اور مذمتی الفاظ پر حکومت پر کوئی اثر نہیں پڑتاہے۔ بلکہ وزیراعظم اور ان کے خوشامدی رفقا ء آئی ایم ایف سے صرف ایک بلین ڈالر کے مل جانے پر خوشیاں منارہے ہیں اور ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے ہیں اور اس غریب قوم کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ اس امداد سے ملک میں معاشی ترقی کے ایک نئے دورکاآغاز ہوگا اور شیر وبکری ایک گھاٹ میں پانی پئیں گے۔ حالانکہ اس وقت ملک میں جہاں افراط زر کی وجہ سے ایک عام آدمی کا باعزت طور پر جینا محال ہوگیاہے‘ وہیں جرائم اور دہشت گردی میں بھی اضافہ ہورہاہے۔ دراصل آئی ایم ایف کواس بات کا ادراک ہوچکاہے کہ اس ملک کے حکمراں چادر سے زیادہ پیر پھیلاکر ملک کانظم ونسق چلارہے ہیں۔ ظاہر ہے ملک کے بڑھتے ہوئے اخراجات کو پورا کرنے کے لئے بیرونی ممالک اور اداروں سے قرضہ لینا پڑتاہے ورنہ گلشن کا کاروبار ٹھپ بھی ہوسکتاہے ۔مزید برآں جس طرح 1.3بلین ڈالرکا قرضہ لینے کے لئے اس ادارے کے سربراہ سے خوشامد کی گئی ہے‘ اس کی وجہ سے پاکستان کے عوام کی عزت نفس سخت مجروح ہوئی ہے۔ اتنی چھوٹی رقم توپاکستان کے چند سرمایہ دار اور زمیندار مل کر بھی دے سکتے تھے بلکہ دینے کے قابل ہیں لیکن ملک وقوم کے لئے کون قربانی دیتاہے۔ قائداعظمؒ ‘ لیاقت علی خاں‘ سردار عبدالرب نشتر‘چوہدری محمد علی‘ آئی آئی چندریگر وغیرہ کے علاوہ کئی رہنمائوں نے پاکستان کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے لئے ز ر کثیر سے ’’قربانی ‘‘ دی ہے۔ بلکہ ناقابل تردید حقیقت یہ ہے کہ 1980ء کی دہائی میں آنے والے سیاستدانوں نے پاکستان کے وسائل کواپنے ذاتی تصرف میں لائے ہیں۔اور کک بیک کے ذریعے اربوں روپے ملک سے باہر بینکوں میں جمع کرائے ہیں اور بڑی عیش کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ میں ان سیاسی کرداروں کا نام نہیں لیناچاہتاہوں جنہوں نے مملکت خداداد میں بے پناہ لوٹ مار کی ہے عوام ان سے بخوبی واقف ہیں۔نام لینا ضروری نہیں‘ لیکن اتناضرور لکھناچاہتاہوں کہ یہی عناصر گزشتہ تیس سالوں سے غریب ان پڑھ اور مفلس عوام پر مسلط ہیں اور آئندہ بھی یہی عناصر اسی روش پر چلیں گے کیونکہ ان کی تادیب کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ عدلیہ جوانسانی حقوق کے تحفظ کی ضمانت ہے اور قانون کی تشریح کرکے پاکستان کے عوام کو قانون کی روشنی میں باعزت جینے کاموقع فراہم کرتی ہے‘ اس کو بھی سیاستدانوں نے اپنے مفادات کے حصول کیلئے متنازعہ بنادیاہے۔مزید برآں سیاستدانوں کے درمیان عداوت اور رسہ کشی سے جہاں ملک کمزور ہورہاہے‘ وہیں پاکستان دشمن طاقتیں (دہشت گرد)پورا پورا فائدہ اٹھارہے ہیں کیونکہ سیاستدانوں کی باہمی لڑائی اور عداتوں نے دہشت گردوں کو spaceفراہم کیاہے جوہر روز دہشت گردانہ کاروائیاں کرکے پاکستان کے فوجیوں اور پولیس کے اہلکاروں کو بڑی بے دردی سے قتل کررہے ہیں جبکہ دشمن ممالک اس صورتحال سے خوش ہورہے ہیںبلکہ بلاواسطہ ان کی حوصلہ افزائی بھی کررہے ہیں۔ اس وقت ہر لحاظ سے پاکستان اندرونی اور بیرونی طورپر ایک خطرناک صورتحال سے دوچار ہے جس کا مقابلہ غریب عوام فوج اور پولیس کررہی ہے جبکہ سیاستدان ہرروز اپنے مخالفین کے خلاف غلیظ بیانات دے کر ملک کے اندر عداوت اور نفرتوں کی آگبھڑکارہے ہیں جس کی وجہ سے اس ملک میں مزید انتشار پیدا ہورہاہے۔ چنانچہ سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیا موجودہ سیاستدانوں کو اس بات کا احساس ہے کہ پاکستان کے ان انتہائی خطرناک حالات میں ان کا کیا کردارہے؟ کیا وہ اس کا اپنے مفادات کو چھوڑ کر ملک کی اس صورتحال کو ٹھیک کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں؟ میرا خیال ہے کہ یہ عناصر ایسا نہیں کررہے ہیں بلکہ ساری ذمہ داری فوج اور پولیس پر چھوڑ دی ہے اور خود بلاوجہ مختلف ممالک کادورہ کررہے ہیںجس پر کروڑوں روپے خرچ ہورہے ہیں جو عوام کے ٹیکس سے لئے جاتے ہیں ۔ چنانچہ اس وقت پاکستان کو موجودہ حکومت نے پورے ملک کو آئی ایم ایف کے ہاتھوں گروی رکھ دیاہے۔ جب کچھ دنوں کے بعد بجلی‘ گیس اور روز مرہ کی اشیاء خوردنی کی قیمتوںمیں اضافہ ہوگا تو عوام کے دلوں پر کیا گزرے گی ۔اور وہ کس طرح utility billsکی ادائیگی کرسکیں گے؟ دوسری طرف سیاستدانوں کی باہمی لڑائیوں اور آئے دن نئی سیاسی پارٹیوں کا ابھرنا اور بننا سے معاشرہ مزید تقسیم ہوگیاہے‘ ایک دوسرے کے دکھ درد سے لاتعلق ہوتے جارہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انسانی اقدار کا بھی خاتمے ہوتا ہوانظر آرہاہے۔ کسی بھی ملک کی قوت اس کے عوام ہوتے ہیں اور عوامکے مابین اتحاد ہی سے مملکت مضبوط اور مستحکم ہوتی ہیں۔ لیکن اب عوام مہنگائی اور بے روزگاری اور بڑھتے ہوئے افراط زر کی وجہ سے مایوسی کی دلدل میں گرگئے ہیں جس سے نکلنا فی الحال بہت مشکل نظر آرہا ہے ۔ لیڈر شپ کے فقدان نے مفاد پرست سیاستدانوں کو مملکت خدادادکومزید لوٹنے کا موقع فراہم کیاہے‘ جبکہ عوام‘ فوج اور پولیس مملکت کوبچانے کے لئے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کررہے ہیں۔ ہوتا ہے شب وروز تماشا میرے آگے

متعلقہ خبریں