بھارت میں تاریخی بابری مسجد کی شہادت کے 28سال بعد رام مندر تعمیر کے لئے مسجد کی اراضی ہندوئوں کو دینے کا فیصلہ کرنے والے چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گوگوئی کو نریندر مودی حکومت نے ریٹائرمنٹ کے فوری بعد پارلیمنٹ کے ایوان بالا راجیہ سبھا کا ممبر بنا دیا جب کہ چیف جسٹس کے بھائی ائر مارشل (ر)انجن کمار گوگوئی کو شمال مشرقی ریاستوں کی ترقیاتی کونسل (این ای سی)کا رکن مقرر کر دیا گیا۔ بابری مسجد کو شہید کرنے میں ملوث انتہا پسندوں کو بری کرنے والے ایک جج کو بھی نواز دیا گیا ۔ اس سے پہلے جسٹس گوگوئی نے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کی سربراہی کرتے ہوئے تیز رفتاری سے سماعتیں کیں اور نومبر 2019کو بابری مسجد کی زمین ہندوئوں کے حوالے کر دی جب کہ وہ بابری مسجد کی شہادت کو قانونی کی حکمرانی کی بدترین خلاف ورزی قرار دے رہے تھے۔جسٹس گوگوئی بھارت میں پہلے ریٹائرڈ چیف جسٹس ہیں جنھیں بھارتی پارلیمنٹ کی رکنیت آئین ہند کے آرٹیکل 80کے تحت دی گئی جس میں بتایا گیا ہے کہ 12نشستوں پر ایسے افراد نامزد ہوں گے جن کا ادب، سائنس، آرٹ اور سماجی خدمت میں خصوصی علم یا عملی تجربہ ہو۔ جسٹس گوگوئی کا ادب، سائنس یا آرٹ میں خصوصی علم یا عملی تجربہ کوئی نہیں البتہ تاریخی بابری مسجد کی جگہ ہندومندر تعمیر کرنے کا فیصلہ نریندر مودی اور بھاجپا کی خدمت تھی جس کا صلہ دیا گیا۔نریندر مودی حکومت نے حراستی قتل میں ملوث اس وقت کے وزیر داخلہ گجرات امیت شاہ کو بری کرنے والے چیف جسٹس آف انڈیا پی ستھاسیوام کو نوازتے ہوئے ریاست کیرالہ کا گورنر بنا دیا تھا۔ امیت شاہ آج بھارت میں مودی کے بعدسب سے طاقتور شخص ہیں۔ مبصرین کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس نے ایودھیا معاملے میں متنازعہ فیصلہ سنا کر جو لکیر کھینچی تھی وہ اب بڑی ہوتی جا رہی ہے۔ ہندوئوں کے حق میں فیصلہ سنانے سے قبل ایک ماحول بنایا گیا اور پورے ملک میں یہ پرچار کیا گیا کہ عدالت جو بھی فیصلہ سنائے گی اسے عوام تسلیم کریں گے۔ مسلم رہنمائوں اور سرکردہ شخصیات سے مسلسل بیانات جاری کرائے جاتے رہے کہ اگر ہمارے خلاف بھی فیصلہ آیا تب بھی ہم مانیں گے۔بھارت میں ایک ایسی فضا بنا دی گئی جیسے مسلمانوں اور ہندوئوں نے ماضی کی اپنی تمام تلخیوں کو پس پشت ڈال کر اور رام مندر کے نام پر چلائی جانے والی تحریک کے نتیجے میں ہونے والی مسلم کش خوں ریزی کو بھلا کر آگے بڑھنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ جب سپریم کورٹ نے فیصلہ سنانا شروع کیا تو ساری باتیں بابری مسجد کے حق میں کہی گئیں۔ ایسا لگ رہا تھا کہ مسلمانوں کا موقف ہی مانا جا رہا ہے۔ لیکن جب فیصلے کا سب سے اہم حصہ پڑھا گیا تو بساط الٹ گئی اور مسلمانوں کو حکمت عملی سے چاروں شانے چت کیا گیا۔ گوگوئی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے لکھنو کی خصوصی سی بی آئی عدالت کے جج سریند رکمار یادو نے بابری مسجد شہادت کے تمام ملزموں کو جن میں ایل کے ایڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی، ونے کٹیارسمیت بڑے بڑے لوگوں کو الزامات سے بری کر دیا اور یہاں تک کہا کہ بابری مسجد ڈھانے کا کوئی ثبوت ہی نہیں ملا اور یہ کہ اسے کسی نے ڈھایا نہیں بلکہ وہ از خود گر گئی۔ سریندر کمار یادو کو اس صلہ میں سب سے بڑی ریاست اترپردیش کا ڈپٹی لوک آیوکت مقرر کر دیا گیا ۔ رنجن گوگوئی کی طرح یادو کو بھی انعام مل گیا۔بھارت میں گزشتہ چند برسوں سے مسلم کش وارداتوں میں ملوث لوگ ہی نوازے جا رہے ہیں اور نئی نئی روایتیں قائم کی جا رہی ہیں۔ ایک نئی روایت یہ قائم ہوئی کہ اپنی مدت کار کے آخری دنوں میں ایسے کارنامے انجام دے دو جنھیں دنیا یاد رکھے۔ رنجن گوگوئی نے اپنی سبکدوشی سے عین قبل مسلم مخالف فیصلہ سنایا اور سریندر یادو نے بھی اپنی مدت کار کے آخری دن بابری مسجد شہید کرنے والوں کو بری کرنے کافیصلہ سنایا ۔اتر پردیش کے شہر بنارس کا نام بدل کر وارانسی رکھا گیا ۔ بنارس کی تاریخی گیان واپی مسجد کو بھی مسلمانوں سے چھین لینے کے لئے اسے مندر قرار دیاجا رہا ہے۔ اس کا سروے کرنے کا فیصلہ جس جج آشوتوش تیواری نے سنایا ۔ انھوں نے بھی وہی روش اختیار کی ۔ جسٹس آشوتوش تیواری کا تبادلہ شاہجہاں پور کر دیا گیا مگر انھوں نے وہاں کا چارج لینے سے قبل بنارس کی سول عدالت میں اپنی مدت کار کے آخری دن وہ فیصلہ سنایا۔ انھوں نے ’’پلیسز آف ورشپ ایکٹ 1991‘‘ یعنی عبادت گاہ قانون 1991کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مذکورہ حکم دیا اور شکوک و شبہات کا دروازہ وا کر دیا۔ صرف یہی نہیں کہ مذکورہ قانون کی خلاف ورزی کی گئی بلکہ ایک مسلمہ عدالتی ضابطے کی بھی خلاف ورزی ہوئی۔ گیان واپی مسجد کے سروے کی درخواست اس سے قبل الہ آباد ہائی کورٹ میں دائر کی گئی تھی جس پر سماعت کے بعد عدالت نے روک لگا دی تھی۔ لیکن جب اسی قسم کی ایک درخواست بنارس کی سول عدالت میں داخل کی تو انھوں نے نہ صرف یہ کہ اس پر سماعت کی بلکہ حکم بھی صادر کر دیا۔ بھارتی شہر متھرا میں شاہی عیدگاہ متھرا کے خلاف بھی ایک پٹیشن متھرا کی سول کورٹ نے سماعت کے لئے ایڈمٹ کر لی ۔ حالانکہ وہ بھی 1991 کے قانون کے منافی ہے۔ یہ پٹیشن ضلع جج سادھنا رانی ٹھاکر نے ایڈمٹ کی ۔ جبکہ اس سے قبل اسی پٹیشن کو ایک سینئر سول جج چھایا شرما خارج کر چکی تھیں۔ انھوں نے مذکورہ قانون کی روشنی میں اسے خارج کیا تھا۔ لیکن سادھنا رانی نے اس سے الٹ قدم اٹھایا۔بھارت میں عبادت گاہوں کے تحفظ کے 1991 کے قانون کو بھی سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا ۔ اس کی بنیاد یہ بنائی گئی کہ یہ قانون مذہبی آزادی کے خلاف ہے۔ (حالانکہ بھارت میں اب مذہبی آزادی کتنی بچی ہے یہ بحث کا الگ موضوع ہے)۔ سپریم کورٹ آف انڈیا بابری مسجد کی طرح دیگر مساجد کو بھی ہندئوں کو دینے کی راہ پر گامزن ہے اور مودی حکومت ججوں کو نوازنے کی لالچ دے کر مسلم مخالفت پر تیار کررہے ہیں۔بھارتی عدلیہ سنگھ پریوار اور ہندو انتہا پسندوں کی حمایت اور عدل و انصاف کو دفن کرنے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتی اور ججوں پرانصاف کا قتل کرنے اوروفاداریوں کے عوض انعام و اکرام کی بارشیں ہو رہی ہیں۔ بھارت میں مساجد کو شہید کرنے اور ان کی جگہ مندر تعمیر کرنے کی ایک لہر چل پڑی ہے مگر عدالتیں انصاف دینے کے بجائے انصاف کا قتل کر رہی ہیں۔