(گزشتہ سے پیوستہ) وہ سرکاری افسران جنہیں سرکاری گاڑیاں اور سرکاری پٹرول حاصل ہے، ان کی پٹرول کی مراعات کم کی جانی چاہیے۔ تمام سرکاری افسران سے مفت بجلی کی سہولت واپس لی جانی چاہیے، سات ہندسوں میں تنخواہ وصول کرنے والے سرکاری افسران کی تنخواہوں میں بھی کمی کی جانی چاہیے، انتخابی مہم میں کروڑوں روپے خرچ کر کے اسمبلیوں میں پہنچنے والے اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں کی تنخواہوں، ایئر ٹکٹ، مفت علاج سمیت دیگر سہولیات فوری طور پر معطل کی جائے وفاقی اور صوبائی وزرا اور مشیروں کی مراعات کو بھی معطل کیا جائے، گھروں میں رکھے گئے اربوں ڈالر نکالنے کے لیے ایمنسٹی اسکیم لائی جائے، ہمارے ملک کی 65 فیصد آبادی کا انحصار زراعت پر ہے۔ اسی لیے کسان کو کھاد، بیج زرعی ادویات اور مشینری آسان اقساط پر فراہم کی جائے۔ بجلی ڈیزل اور پانی کم سے کم ریٹ پر فراہم کیا جائے۔ اس کے ساتھ فصل کی نقداور مناسب ترین سرکاری ریٹ پر خریداری کو یقینی بنایا جائے تاکہ مڈل مین کا کردار ختم ہو۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ اگر اصلاحات پیکیج کا پہلا نقطہ اشرافیہ کو دی جانے والی مراعات ختم کرنے سے متعلق نہیں ہوگا تو ہم کبھی بھی معیشت کی گاڑی کو پٹڑی پر نہیں چڑھا سکتے خواہ اس کے لیے ہم کتنی ہی کوشش کیوں نہ کرلیں۔ وفاقی ادارہ شماریات کی جانب سے جاری رپورٹ کے مطابق مئی کے آخر میں افراط زر کی سالانہ شرح 38 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی جب کہ جون کے اختتام پر یہ شرح کم ہوکر 29.4 کی سطح پر پہنچ گئی ہے۔ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ الیکشن کا سال ہونے کی وجہ سے مہنگائی کی شرح میں بتدریج کمی ہوسکتی ہے جب کہ آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد بھی زر مبادلہ کے ذخائر اور شہریوں کو ریلیف مل سکتا ہے۔آئینی مدت کے مطابق رواں سال الیکشن کا انعقاد ہونا ضروری ہے جس کے لیے سیاسی جماعتیں معاشی بہتری کا سہرا اور آیندہ ملک میں اقتصادی بحالی کا منشور لے کر بھی سیاسی میدان عمل میں آسکتی ہیں۔ پاکستان کو آیندہ چند سالوں میں مالیاتی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھاری مالی امداد کی ضرورت پڑے گی، جب تک آئی ایم ایف سے کوئی بڑا قرض پروگرام نہیں ملتا، اِسے اپنے شراکت داروں، مالیاتی اداروں اور دوست ممالک سے فنڈز لینے میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔ آئندہ چند ماہ تک آئی ایم ایف سمیت دیگر قرض دینے والے مالیاتی ادارے بھی پاکستان کی نگرانی جاری رکھیں گے، یہ دیکھنے کے لیے کہ کیا پاکستان مالیاتی نظم و ضبط کو برقرار رکھ رہا ہے یا نہیں کیونکہ بصورت دیگر اِسے دوبارہ لیکویڈٹی بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ گزشتہ تین مالی سالوں کے دوران پاکستان کا بیرونی قرض جی ڈی پی کے 36 فیصد سے بڑھ کر 37 فیصد ہو چکا ہے جس کی بڑی وجہ روپے کی قدر میں کمی بتائی جاتی ہے۔ وزارتِ خزانہ نے آیندہ تین مالی سالوں کی درمیانی مدت کی قرض مینجمنٹ پالیسی جاری کی ہے جس کے مطابق حکومت نہ صرف بیرونی قرضوں میں کمی کی کوشش کرے گی بلکہ اِس کی زیادہ سے زیادہ حد بھی جی ڈی پی کے 40 فیصد سے کم کرکے 35 فیصد مقرر کیے جانے کا امکان ہے۔ اِس پالیسی کے تحت حکومت قلیل مدتی غیر ملکی قرضوں کو کم کرنے کے لیے طویل مدتی غیر ملکی، سرکاری اور تجارتی قرضوں کو بڑھا کر ریلیف حاصل کرنے کے علاوہ بیرونی مالیاتی ضروریات پوری کرنے کے لیے طویل مدتی بانڈز کے اجراء اور رعایتی شرح کے قرضوں کے حصول کو یقینی بنانے کی ہر ممکن کوشش کرے گی۔ اِس وقت پاکستان کو 22 سے 23 ارب ڈالر سالانہ کی بیرونی ادائیگیاں کرنا پڑ رہی ہیں۔ آئی ایم ایف معاہدے سے لیکویڈٹی بڑھانے کے علاوہ ادائیگیوں کی صلاحیت بہتر بنانے میں مدد تو ملے گی تاہم بین الاقوامی قرض کی منڈیوں کے پاکستان پر وسیع پیمانے پر کھلنے اور نئے طویل مدتی قرضوں تک رسائی یا فوراً ہی بڑی رقوم کا حصول آسان نہیں ہو گا۔ قرض کی مے پی کر اپنی فاقہ مستی پر اِترانے کے بجائے ہمیں معیشت کی مستقل بحالی اور قرضوں کے جنجال سے جان چھڑانے کے علاوہ غریب عوام کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنے کے لیے طویل مدتی مستقل معاشی پالیسی کی ضرورت ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم بطور قوم کمر کس کے اپنی تمام تر توجہ معاشی دلدل سے نکلنے پر مرکوز کر دیں۔ معاشی اصلاحات کے ساتھ اندازِ زندگی بدلنا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے، ہمیں چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے کی عادت اپنانا ہو گی، سادگی کو شعار بنانا ہوگا کیونکہ آمدنی اور اخراجات میں توازن پیدا کیے بغیر معاشی استحکام کا حصول ممکن ہی نہیں۔