(گزشتہ سے پیوستہ) عمریہ آیات پڑھتے گئے ،اورایک ایک لفظ ان کے دل کی گہرائیوں میں اترتاچلاگیا،دیکھتے ہی دیکھتے دل کی دنیابدل گئی اورپھربے اختیاریوں کہنے لگے:کیایہی وہ کلام ہے جس کی وجہ سے قریش نے محمداوران کے مٹھی بھرساتھیوں کواس قدر ستارکھاہے؟ اورپھراگلے ہی لمحے رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضری کی غرض سے بے تابانہ وہاں سے روانہ ہوگئے…ا ن دنوں رسول اللہﷺ بیت اللہ سے متصل صفاپہاڑی کے قریب دارالارقم نامی گھر میں رہائش پذیرتھے ،جہاں مٹھی بھرمسلمان آپؐ کی خدمت میں حاضرہوکراللہ کے دین کاعلم حاصل کیاکرتے تھے۔چنانچہ عمراسی دارالارقم کی جانب روانہ ہوگئے۔اس وقت وہاں دارالارقم میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ چند مسلمان موجودتھے،انہوں نے جب عمرؓکواس طرف آتے دیکھا تووہ پریشان ہوگئے اتفاق سے اس وقت ان کے ہمراہ حضرت حمزہ بن عبدالمطلب بھی موجود تھے،جن کااس معاشرے میں بڑامقام ومرتبہ اورخاص شان وشوکت تھی،جن کی بہادری کے بڑے چرچے تھے … خاندانِ بنوہاشم کے چشم وچراغ نیز رسول اللہ ﷺ کے چچا تھے اورمحض تین دن قبل ہی مسلمان ہوئے تھے انہوں نے جب یہ منظردیکھااوروہاں موجودکمزوروبے بس مسلمانوں کی پریشانی دیکھی توانہیں
تسلی دیتے ہوئے کہنے لگے: فکرکی کوئی بات نہیں ، عمر اگر کسی اچھے ارادے سے آرہے ہیں توٹھیک ہے، اور اگرکسی برے ارادے سے آرہے ہیں تو آج میں ان سے خوب اچھی طرح نمٹ لوں گا اور پھر عمر وہاں پہنچے،آمدکا مقصد بیان کیاحضرت حمزہؓ انہیں ہمراہ لئے ہوئے اندررسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچے، عمرؓنے وہاں آپؐ کی خدمت میں حاضرہوکراشھد ان لا الہ الا اللہ واشہد ان محمد عبدہ و رسولہ‘ میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودبرحق نہیں اورمیں گواہی دیتاہوں کہ آپؐ اللہ کے بندے اوراس کے رسول ہیں کہتے ہوئے دینِ اسلام قبول کیا، اورآپ ﷺ کے دستِ مبارک پربیعت کی۔ اس موقع پروہاں موجودمسلمانوں کی مسرت اور جوش وخروش کایہ عالم تھاکہ ان سب نے یک زبان ہوکراس قدرپرجوش طریقے سے نعرہ تکبیربلندکیاکہ مکے کی وادی گونج اٹھی مشرکینِ مکہ کے نامورسرداروں کے کانوں تک جب اس نعرے کی گونج پہنچی تووہ کھوج میں لگ گئے کہ آج مسلمانوں کے اس قدرجوش وخروش کی وجہ کیاہے؟ اورآخرجب انہیں یہ بات معلوم ہوئی کہ آج عمرمسلمان ہوگئے ہیں تووہ نہایت رنجیدہ وافسردہ ہوگئے اوربے اختیاریوں کہنے لگے کہ آج مسلمانوں نے ہم سے بدلہ لے لیا۔حضرت عمر ؓکے قبولِ اسلام سے قبل تک مسلمان کمزوروبے بس تھے،چھپ چھپ کراللہ کی عبادت کیاکرتے تھے۔جس روزحضرت عمرؓ نے دینِ اسلام قبول کیا، تورسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیاکہ : السنا علی الحقِ یا رسول اللہ؟ یعنی اے اللہ کے رسولؐ! کیاہم حق پرنہیں ہیں ؟ آپؐ نے جواب دیا : بلی یا عمر یعنی ’’ہاں اے عمر‘‘۔ تب عمرکہنے لگے : ففِیم الاِخفاء؟ یعنی توپھرہمیں چھپانے کی کیاضرورت ہے؟اورتب پہلی بارمسلمان وہاں سے بیت اللہ کی جانب اس کیفیت میں روانہ ہوئے کہ انہوں نے دوصفیں بنارکھی تھیں ، ایک صف کی قیادت حضرت عمرؓ جبکہ دوسری صف کی قیادت حضرت حمزہ ؓکررہے تھے حتی کہ اسی کیفیت میں یہ تمام مسلمان بیت اللہ کے قریب پہنچے جہاں حسبِ معمول بڑی تعدادمیں روسائے قریش موجودتھے،ان سب کی نگاہوں کے سامنے مسلمانوں نے پہلی بارعلی الاعلان بیت اللہ کا طواف کیا اورنمازبھی اداکی یہی وہ منظرتھاجسے دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمرؓکو (الفاروق) یعنی حق وباطل کے درمیان فرق اور تمیز کردینے والاکے یادگارلقب سے نوازا تھا‘ حضرت عمرؓ کے مزاج میں طبعی اورفطری طورپرہی تندی اورشدت تھی قبولِ اسلام کے بعداب ان کی یہ شدت اسلام اورمسلمانوں کی حمایت ونصرت میں صرف ہونے لگی،جس سے کمزوروبے بس مسلمانوں کوبڑی تقویت نصیب ہوئی ۔ آپ کے دور خلافت میں مسلمانوں کو بے مثال فتوحات اور کامیابیاں نصیب ہوئیں۔ آپ نے قیصر و کسری کو پیوند خاک کرکے اسلام کی عظمت کا پرچم لہرانے کے علاوہ شام، مصر، عراق، جزیرہ، خوزستان، عجم، آرمینہ، آذربائیجان، فارس، کرمان، خراسان اور مکران فتح کئے۔ آپ کے دور خلافت میں 3600 علاقے فتح ہوئے، 900جامع مساجد اور 4 ہزار مساجد تعمیر ہوئیں۔ حضرت سیدنا عمر فاروق ؓنے اپنے دور خلافت میں بیت المال اور عدالتیں قائم کیں، عدالتوں کے قاضی مقرر کئے۔ آپ نے سن تاریخ کا اجرا کیا جو آج تک جاری ہے ۔ مردم شماری کرائی،نہریں کھدوائیں، شہر آباد کروائے،دریا کی پیداوارپرمحصول لگایا اورمحصول مقرر کئے، تاجروں کو ملک میں آنے اور تجارت کرنے کی اجازت دی۔ جیل خانہ قائم کیا، راتوں کو گشت کرکے رعایا کا حال دریافت کرنے کا طریقہ نکالا۔ پولیس کا محکمہ قائم کیا۔ جابجا فوجی چھائونیاں قائم کیں، تنخواہیں مقرر کیں، پرچہ نویس مقرر کئے۔ مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ تک مسافروں کے لئے مکانات تعمیر کروائے‘گم شدہ بچوں کی پرورش کے لئے روزینے مقرر کئے۔ مختلف شہروں میں مہمان خانے تعمیر کروائے‘ مکاتب و مدارس قائم فرمائے‘ علمین اور مدرسین کے مشاہرے مقرر کئے۔ تجارت کے گھوڑوں پر زکو مقرر کی۔وقف کا طریقہ ایجاد کیا،مساجد کے آئمہ کرام اور موذنین کی تنخواہیں مقرر کیں، مساجد میں راتوں کو روشنی کا انتظام کیا۔ علاوہ ازیں آپ رضی اللہ عنہ نے عوام کے لئے بہت سے فلاحی و اصلاحی احکامات اور اصطلاحات جاری کیں۔