(گزشتہ سےپیوستہ) ’’ہاں یاوربول کیامسئلہ ہے۔کیوں نہیں کرتا شادی؟کیوں پریشان کررہاہے سب کو۔سیدھی طرح بات کرنا۔مجھے تمہاری بکواس سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ہاں میں واقعی اس معاملے میں انتہائی سنجیدہ ہوںاورمیری تلخی کی وجہ بھی یہی ہے۔اس نے سرجھکایا’’آپ ٹھیک کہتے تھے،میں نہیں مانتاتھا،اب میں مانتاہوں لیکن یہاں ہم سب کے سب غلام ہیں ،قیدی ہیں۔دنیا کے قیدی۔ہم نے عذاب خودخرید رکھے ہیں۔ہم نے اپنادوزخ خود بنایااوراب اس میں جل رہے ہیں‘‘۔’’اپنافلسفہ میرے سامنے مت بگھار۔یہ میں تجھ سے زیادہ بگھارسکتا ہوں،سیدھی طرح بکواس کروچاہتاکیا ہے؟‘‘
’’یہاں جیناکتنامشکل ہے۔ہمیں سنایاجاتا ہے سادگی اختیارکرو،اسراف مت کرولیکن جب ہم سادگی اختیارکرتے ہیں تولوگ نجانے ہمیں کیاکیا کہتے ہیں۔ہمیں انسان نہیں دوسرے سیارے کی مخلوق سمجھتے ہیں۔تواصل بات کیوں نہیں کرتا،مجھے تیرابیہودہ لیکچرنہیں سننا۔’’اچھا،اچھا سیدھی بات بتاتاہوں۔میں شادی کرنے کے لئے تیارہوں لیکن بہت سادگی سے۔کوئی مہندی نہیں،کوئی مووی نہیں،کوئی بکواس نہیں۔بس سادگی سے نکاح کرناچاہتاہوں۔مجھے بالکل بھی جہیزنہیں چاہئے۔ تو اس میں کیامسئلہ پھر؟‘‘ ’’ہاں یہی تومسئلہ ہے سب سے بڑا۔پچھلے آٹھ ماہ میں درجنوں لوگوں نے میرے انٹرویوکیے۔کسی کومیراکام پسندنہیں آتا۔ کسی کومیراحلیہ پسندنہیں آتا۔ چاچا،ماما، بہنوئی، خاندان بھرکے سامنے انٹرویو دیتے دیتے تھک گیا ہوں۔بہت کومیں پسندبھی آیاتووہ سادگی سے شادی پرتیارنہیں ہیں۔میں نے ایک بیوہ سے بھی اپنی بہن کے ذریعے بات کی تومیرے گھروالے تیار نہیں، بڑی مشکل سے منایاتواب اس بیوہ کے بھائی پھڈاڈال کربیٹھ گئے کہ اس وقت اس بیوہ کی اچھی خاصی تنخواہ آرہی ہے اور ایک اچھی ملازمت بھی کررہی ہے،شادی کے بعد گھرمیں آنے والی کمائی سے محروم ہوجائیں گے۔مجھ میں سونقائص نکال کر فارغ کردیا۔ آپ ہی نے کہاتھاکہ مرد کے کپڑوں میں عورت کی صفائی دکھائی دیتی ہے اورعورت کے لباس میں مرد کی مردانگی ظاہرہوتی ہے اورلڑکیوں کے لباس میں ماں کے اخلاق نظرآتے ہیں۔ہم تومحبت، رواداری، وفاداری، احترام اورتمام اعلی اقدارپرپلی ہوئی نسل ہیں۔ہم ان مردوں اور عورتوں کے درمیان رہتے تھے جوپڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے،لیکن انہوں نے تعلقات اوراحترام میں مہارت حاصل کی تھی۔انہوں نے ادب نہیں پڑھالیکن ہمیں ادب سکھایا۔انہوں نے فطرت کے قوانین اورحیاتیات کامطالعہ نہیں کیاتھالیکن انہوں نے ہمیں شائستگی کافن سکھایا۔انہوں نے رشتوں کی ایک بھی کتاب نہیں پڑھی لیکن اچھاسلوک اوراحترام سکھایا۔ انہوں نے مذہب کاگہرائی سے مطالعہ نہیں کیا لیکن ہمیں ایمان کامفہوم سکھایا۔انہوں نے منصوبہ بندی کامطالعہ نہیں کیا،لیکن انہوں نے ہمیں دوراندیشی سکھائی۔ہم میں سے اکثرکوگھرمیں اونچی آوازمیں بولنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ہم وہ نسل ہیں جوگھرکے صحن میں بجلی بندہونے پرسوجاتے تھے۔ ہم آپس میں ایک دوسرے سے بات کرتے تھے مگرایک دوسرے کے بارے میں باتیں نہیں کرتے تھے۔میری دلی محبت اورتعریف ان لوگوں کے لئے جنہوں نے ہمیں یہ حسن ادب کے یہ قرینے اپنے عمل سے سکھائے کہ والدین کی عزت ہوتی ہے،استادکی عزت ہوتی ہے،محلے دارکی عزت ہوتی ہے،رفاقت کی عزت ہوتی ہے اوردوستی کی عزت ہوتی ہے۔ہم ساتویں پڑوسی کی عزت کرتے تھے اوربھائی اوردوست کے ساتھ اخراجات اوررازبانٹتے تھے۔آخرہم ان لوگوں کی روایات پرعمل کرنے سے کیوں گریزاں ہیں جن کے ساتھ ہم نے وہ خوبصورت لمحات گزارے، اوراس نسل کے لئے جس نے ہمیں پرورش اورتعلیم دی۔آخرہم مغرب میں ایسے کیوں کھو گئے کہ اپناسب سب کچھ لٹاکراپنی مفلسی پرخوش ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ میں شادی کی خرافات اوربیہودہ رسموں کوبھی نہیں مانتا۔اصل تونکاح ہے ناں۔میری عمر35سال ہو گئی ہے۔ میری کوئی ڈیمانڈ نہیں ہے۔بس میں سادگی سے شادی کرنا چاہتا ہوں اورکوئی تیارنہیں ہے۔اب میراقصور بتائیے۔آپ ہی تو کہتے تھے یہاں شادی کیاموت بھی مشکل ہے۔مرنے پربھی ہزاروں پاؤنڈلگا دیتے ہیں،بھائی لوگ ۔ میں بھی قرض لوں،لڑکی والے بھی قرض لیں ،فائیوسٹارہوٹل میں شاہانہ بندوبست کیاجائے، مووی بنے توکوئی نہ کوئی رشتے دارناراض ہوجاتاہے۔شادی کے بعدکوئی گھر آئے تو اسے البم دکھاؤ۔مووی دکھاؤ۔لڑکے والے بھی پریشان کہ اب قرض کیسے چکائیں اورلڑکی والے بھی بیزارکہ اب کیسے حساب بے باق ہوگا۔ساری زندگی کاگورکھ دھندا،رسوما ت ہی رسومات۔کسی غریب کاہاتھ نہیں پکڑیں گے۔میں توسب کچھ قبول کرنے کو تیار نہیں ہوں۔آپ ابھی کہیں میں اسی وقت آپ کے ساتھ چلنے کوتیار ہوں ۔جوآپ کہیں گے میں کروں گا،لیکن سب کچھ سادگی سے ہوجس کاآپ ہروقت تذکرہ بھی کرتے ہیں اورآپ کے بچوں کی شادی میں وہ عمل بھی دیکھنے میں آیا،آخرمیرے ساتھ وہ کیوں نہیں؟‘‘ میرے سامنے یاوربیٹھاتھا۔اس کے اندرکا معصوم بچہ اب بھی زندہ ہے۔وہ سماج کواس کی اصل شکل دکھانے کے لئے آئینہ لئے گھوم رہاہے۔سچ کہتاہے وہ،ہم سب منافق ہیں۔کہتے کچھ ہیں،کرتے کچھ ہیں۔ ہم سب غلام ہیں،سماج کے غلام۔ہاں یہاں باغیوں کاکوئی مستقبل نہیں ہے۔ پاگل ایب نارمل لوگ۔ ہرطرف تاجر،دھوکاہی دھوکا۔کوئی دینے والانہیں ہے،سب کے سب لینے والے۔کہاں ہے اس میں محبت، اخلاص،ایثار۔ ہاں یہ لفظ گم ہوگئے ہیں۔گلاسٹراسماج ،اس کی بدبوسے سانس لینادوبھرہوگیاہے۔پھربھی ہم جی رہے ہیں ۔سسکنے کوجیناکہتے ہیں۔ہم سب مرگئے ہیں۔بدروحوں کے مسکن میں سسک رہے ہیں ہم سب۔ زندگی توکب کی مرگئی ہے۔ہم نے لوگوں کومذہب کی آڑمیں اس قدربزدل بنادیاکہ وہ محرومیوں کوقسمت اورظلم کوآزمائش سمجھ کرصبرکر لیں۔حقوق کے لئے آواز اٹھاناگناہ سمجھیں،غلامی کواللہ کی مصلحت قراردیں اورقتل کوموت کادن معین سمجھ کرچپ رہیں۔غلام قومیں بدکرداروں کو بھی دیوتامان لیتی ہیں اورآزادقومیں عمربن خطاب جیسے بے مثل حکمرانوں کابھی محاسبہ کرتی ہیں۔ جس دن ہم نے اپنے بچوں کویہ ذہن نشین کرادیاکہ ہمارے ہیرووہ نہیں جوجنگ وجدل اورخون بہانے کی دہمکیاں دیتے رہتے ہیں بلکہ جس دن ہم نے انہیں یہ سکھاناشروع کر دیا کہ ہمارے ہیروتووہ ہیں جوانسانی وحیوانی زندگی کااحترام اپنے رب کے خوف کاحکم سمجھ کرخودپرفرض کرلیتے ہیں،اوران کی راتیں اللہ کے خوف سے سجدوں میں جھکی رہتی ہیں اوریہ ہیرو ہمارے سائنسدان،اعلیٰ تعلیم یافتہ افرادہمارے استاد بنیں گے توپھرہی معاشرے سے ہمارے بچے جرائم اور تشددسے نفرت کرناسیکھیں گے اورہمیں کسی اور یاور کاسامنانہیں کرناپڑے گا۔