اہم خبریں

تجارت و ابلاغ اور اسلامی تعلیمات

(گزشتہ سے پیوستہ) حضرت حذیفہ بن الیمانؓ کا یہ ارشاد گرامی آج ہمارے لیے لمحۂ فکریہ بلکہ تازیانہ عبرت ہے، اس لیے کہ آج صورتحال بالکل برعکس ہو گئی ہے۔ آج تجارت میں دیانت و امانت کا اعتماد دوسری قوموں میں منتقل ہوگیا ہے اور بددیانتی اور بے ایمانی مسلمان قوموں کا تعارف بن گئی ہے، جبکہ سسٹم کا اعتماد بھی کرپشن کی دلدل میں گم ہو کر رہ گیا ہے۔ عالمی مارکیٹ اور بین الاقوامی تجارت کو دیکھ لیں کہ ہم مسلمانوں کی ساکھ کیا ہے؟ اور بحیثیت پاکستانی ہماری تجارتی ساکھ دنیا کی منڈیوں میں کیا ہے؟ اس لیے تجارت و مارکیٹ کے حوالے سے ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنا وہ اعتماد بحال کریں جو حضرت حذیفہؓ کے ارشاد گرامی میں مذکور ہے اور جو کسی دور میں ہم مسلمانوں کا امتیازی نشان اور اسلام کی دعوت و تبلیغ کا عنوان ہوتا تھا۔

ابلاغ و تشہیر اب میں مسئلہ کے دوسرے رخ کی طرف آتا ہوں کہ ذرائع ابلاغ اور تشہیر و ابلاغ کے حوالے سے ہماری صورتحال کیا ہے اور ہم نے تجارت کے باب میں تشہیر کے لیے کیا کیا حربے اختیار کر رکھے ہیں؟ جہاں تک ابلاغ کی بات ہے، یہ سوسائٹی کی اجتماعی ضرورت ہے لیکن اس کی بھی کچھ حدود و قیود ہیں۔ مثلاً قرآن کریم میں دو پابندیوں کا بطور خاص تذکرہ ہے: ایک یہ کہ کوئی خبر آئے تو اس کی تحقیق کے بعد اسے نشر کرو اور بلاتحقیق کسی خبر کو عام نہ کرو (سورہ الحجرات ۶) ۔ مگر ہمارے ہاں کیا ہو رہا ہے؟ سنی سنائی باتوں کو ایسے سنسنی خیز انداز میں بلاتحقیق نشر کر دیا جاتا ہے کہ بہت سے مسائل بلاوجہ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ بخاری شریف کی روایت کے مطابق جناب نبی اکرمؐ نے اپنے سفر معراج کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کچھ لوگوں کو دی جانے والی سزاؤں کے مناظر کا ذکر کیا ہے۔ ان میں سے ایک منظر آپؐ نے یوں بیان فرمایا ہے کہ ایک شخص کے منہ میں درانتی ڈال کر اس کی باچھیں گردن تک بار بار چیری جا رہی ہیں، چیرنے والا ایک بار یہ عمل مکمل کرتا ہے تو وہ باچھیں درست ہو جاتی ہیں، پھر وہ انہیں دوبارہ چیر دیتا ہے، پھر وہ صحیح ہوتی ہیں تو دوبارہ انہیں چیر دیا جاتا ہے۔ یہ عمل اس کے ساتھ مسلسل جاری ہے۔ جناب رسول اللہؐ نے فرشتوں سے دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ شخص ہے جو جھوٹ گھڑتا ہے اور اسے دنیا کے کناروں تک پھیلا دیتا ہے۔ خبر گھڑ کر اسے دنیا کے کناروں تک پہنچا دینے کی بات اب سے پون صدی قبل شاید عملاً سمجھ میں نہ آتی ہو مگر آج اسے سمجھنا مشکل نہیں ہے۔ اور میں حدیث کے طلبہ کے سامنے اس کی تشریح یوں کیا کرتا ہوں کہ یہ وہ نیوز ایڈیٹر ہے جو ٹیبل نیوز بناتا ہے اور چینل پر اس کی پٹی چلا دیتا ہے۔ جھوٹی خبر ٹیبل پر بنائی جائے یا محض سنی سنائی بات کو بلاتحقیق نشر کر دیا جائے، ایک ہی بات ہے اور دونوں کے نتائج ایک جیسے ہی نکلتے ہیں۔ قرآن کریم نے ابلاغ کے سلسلہ میں دوسری پابندی یہ لگائی ہے کہ جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مسلمانوں میں فاحشہ کی اشاعت کی جائے، ان کے لیے دنیا و آخرت میں دردناک عذاب ہے (سورہ النور ۱۹)۔ مسلمان سوسائٹی میں ’’فاحشہ‘‘ کے فروغ اور اشاعت کی قرآن کریم نے مذمت کی ہے اور ایسا کرنے والوں کے لیے دردناک عذاب کی خبر دی ہے۔ یہ فاحشہ کیا ہے؟ اس کا آسان سا مفہوم یہ ہے کہ بدکاری اور اس کا ذریعہ بننے والے اسباب و اعمال کی تشہیر جرم قرار دی گئی ہے۔ بدکاری اور زنا کے بارے میں قرآن کریم اور جناب رسول اکرمؐ نے بہت سخت لہجہ اختیار کیا ہے اور صرف بدکاری کو جرم قرار نہیں دیا بلکہ اس کا ذریعہ بننے والے تمام اعمال و حرکات کو بھی، جنہیں شریعت کی اصطلاح میں ’’دواعی‘‘ کہا جاتا ہے، جرم قرار دیا ہے اور اس پر سزا مقرر کی ہے۔ اس لیے ہر وہ تشہیر جو انسان کے اندر سفلی جذبات کو ابھارتی ہے اور انسانی ذہن کو بدکاری کی طرف متوجہ کرتی ہے، فاحشہ شمار ہوتی ہے اور قرآن کریم نے اس کی مذمت فرمائی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں تو عورت اور اس کی کم لباسی تشہیر کے فن کا نقطۂ کمال تصور ہوتی ہے۔ ہم ماچس کی ڈبیا فروخت کرنے کے لیے بھی عورت کی تصویر اور اس کی زیب و زینت کو ذریعہ بناتے ہیں۔ عورت کی تصویر اور اس کی زیب و زینت کو اپنے سامان کی فروخت کے لیے بے تحاشا استعمال کر کے ہم یہ تصور دے رہے ہیں کہ عورت کی عزت میں اضافہ ہو رہا ہے اور ہم عورت کو معاشرے میں عزت کا مقام دے رہے ہیں۔ کسی کو اس میں عورت کی عزت دکھائی دیتی ہو تو میں اسے کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن میرے خیال میں تو یہ عورت کی تحقیر ہے، اس کی توہین ہے اور اس کی تذلیل ہے اور آج کے دور میں عورت پر روا رکھے جانے والے مظالم میں سے ایک بڑا ظلم ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تجارتی تشہیر کے حوالے سے ایک اور بڑے مسئلہ کی طرف بھی توجہ دلانا چاہوں گا کہ مارکیٹنگ کے لیے غیر ضروری ترغیبات کے ذریعے عام آدمی کے معاشی بوجھ میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے فرمایا ہے کہ انسانی زندگی کے معاشی اعتبار سے تین درجے ہیں: (۱) ایک درجہ ضروریات کا ہے (۲) دوسرا سہولیات کا ہے (۳) اور تیسرا درجہ تعیشات کا ہے۔ ضروریات کا دائرہ تو ناگزیر ہے، سہولیات کا بھی جواز ہے، مگر تعیشات کا درجہ مسلم سوسائٹی میں جواز کا درجہ نہیں رکھتا۔ وجہ یہ ہے کہ اس سے سوسائٹی میں معیشت کا توازن بگڑتا ہے اور دیگر بہت سی معاشرتی خرابیاں جنم لیتی ہیں۔ مگر ہمارے ہاں تجارتی تشہیر کا زیادہ حصہ تعیشات کے فروغ اور اس کی طرف ترغیب دلانے کے لیے مخصوص ہے۔ مقصد صرف اپنی مصنوعات کی فروخت ہے، مگر اس سے عام آدمی کی ضروریات کا مصنوعی دائرہ پھیل رہا ہے، غریب اور متوسط گھرانے کا بجٹ تباہی کا شکار ہو رہا ہے اور ناجائز کمائی کے ذرائع بڑھتے جا رہے ہیں۔ یہ بھی تجارتی تشہیر کے حوالے سے ایک بڑا مسئلہ ہے جسے سنجیدگی کے ساتھ کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلام معیارِ زندگی میں اس طرز کی ’’ریس‘‘ کی اجازت نہیں دیتا جو تعیشات کا ماحول پیدا کر کے سوسائٹی کو معاشی عدمِ توازن اور معاشرتی عدمِ استحکام کا شکار کر دے۔

متعلقہ خبریں