میں پچھلے کئی برس سے یہ بری طرح محسوس کررہا ہوں کہ و اقعی کوئی زورداربد دعاہما رے تعاقب میں ہے کہ نہ پو ری قوم کی دعائیں رنگ لارہی ہیں اورنہ ہی تہجدگزاروں کاگریہ نیم شب کام آرہاہے۔مایوسی ساون کی ہریالی کی طرح وطن عزیزمیں اپنازور بڑھاتی جارہی ہے۔بے دلی اوربیزاری جسم وخوں میں اس طرح گھل مل گئی ہے کہ زندہ رہنے کی امنگ اورآس ختم ہو تی جارہی ہے۔موجو دہ سیاستدانوں اورمقتدراشرافیہ کی پالیسیوں کے ردِعمل میں بے یقینی کی آکا ش بیل ذہن وفکرکواپنی لپیٹ میں لے رہی ہے اورناامیدی کازہریلاشیش ناگ دن میں کئی مرتبہ آپ کے خوابوں کوڈستاہے۔دن اور رات جیسے آگ کے الاؤمیں بھسم ہوکررہ گئے ہیں لیکن اس کے باوجودکچھ دوست اب بھی امید کی قندیل جلائے کسی صلاح الدین ایوبی کاانتظارکر رہے ہیں۔
مزید پڑھیں :شاعر مشرق علامہ اقبال کا آج 86 واں یوم وفات عقیدت و احترام سے منایا جارہا ہے
امیداندھی ہوتی ہے،یقین بھی دلیل نہیں مانگتا۔ ہم بھی کہہ دیتے ہیں کہ سب ٹھیک ہوجائے گا اورانشا اللہ حالات بھی ٹھیک ہوجائیں گے لیکن حالات کی حقیقت سے آنکھیں چراکرہم اپنے آپ کودھوکاتودے سکتے ہیں لیکن ان خطرات کوٹال نہیں سکتے۔صرف بارش کی امیدسے دہکتی تمازت بھری دھوپ کی اذیت ناکی سے توبچ نہیں سکتے۔اس دوردیس میں بھی و طن کی مٹی نے اس قدراپنے حصارمیں جکڑرکھاہے کہ شب وروزاس کے محتاج ہوکررہ گئے ہیں حالانکہ ہرروزخوابوں کی جواں مرگی کی اطلاع موصول ہوتی ہے۔پاکستان جووجود کاایک قیمتی حصہ ہے،جہاں ہماری آبروکوتحفظ اورسروں کی سلامتی کی ضمانت ملی تھی اب خاک میں ملانے کی تدبیریں ہورہی ہیں(خاکم بد ہن)۔
افغانستان کے معاملے جرم عظیم کے ارتکاب کا خمیازہ اب تک بھگت رہے ہیں جبکہ مصائب سے جان چھڑانے کے لئے جب بھی مزاحمت کا روں کومذاکرات کی دعوت دیکرکسی امن معاہدے کی طرف قدم بڑھانے کی کوشش کرتے ہیںتو فوراایک ہرکارہ کان مروڑنے کے لئے بے دھڑک ہمارے سروں پرکھڑاہوکر غرانا شروع کردیتاہے لیکن منافقت کایہ عالم ہے کہ میڈیا میں بھرپورپاکستان کاساتھ دینے کابرملااعلان ہوتاہے لیکن درپردہ ہم سب جانتے ہیں کہ مودی کی پشت پناہی پرکون کھڑا ہے۔ دوسری طرف ہمارایہ عالم ہے کہ ان داتا کا حکم مانتے ہوئے ہم فورااس امن معاہدے سے منہ موڑلیتے ہیں جس کے جواب میں ہندوؤں کے ہاتھ میں کٹھ پتلی بننے والوں نے اپنی توپوں کارخ اپنی پو ری طاقت کومجتمع کرکے ہما ری سیکورٹی فورسز کی طرف پھیررکھاہے اورگاہے بگاہے اپنادا ئرہ کارخود کش حملہ آوروں کی شکل میں شہروں میں منتقل کرتے رہتے ہیں اوران دنوں وہ پوری کوشش کررہے ہیں کہ کسی طورچین اورپاکستان میں استواررشتے ختم کردیئے جائیں جس کی حالیہ مثال چینی ماہرین کی ایک بس پرخودکش حملہ اس کی بدترین مثال ہمارے سامنے ہے۔
یہ صورت حال آخرکب تک چلے گی،یہ مزاحمت کارآپ سے سنبھا لے جاتے ہیں نہ قصر سفیدکافرعو ن آپ کی بات سنتاہے۔ امریکہ اپنے اتحادیوں کے توسط سے اس جنگ کوہما ری سرحدوں سے ہما رے ملک کے اندرلانے کے لئے بے تاب بیٹھاہے اور امریکہ کے نمک خوارسرخ استقبالی قالین لئے بے چینی سے انتظارکی گھڑیاں گزار رہے ہیں۔وہ اپنے ایجنٹوں کے ذریعے سلطنت ِنمرود کی گود میں بیٹھ کر آئے دن ان غداروں کے ذریعے ملک کو جلانے کاسامان تیارکرکے جلتی پرتیل ڈال رہے ہیں ۔آپ کے پاس ان تمام خطرات سے بچانے کی عملی تدا بیرنہیں،حکمت عملی یاسٹریٹجی موجود نہیں،صرف اپنی حاکمیت اعلیٰ کی دہا ئی دے رہے ہیں جوکب کی مضروب اورزخموں سے چورہوکرقصرسفیدکے فرعون اورنمرودکے قدموں میں دم توڑچکی ہے۔
ان دنوں عوامی مینڈیٹ کے افق سے طلوع ہوتے سلطانی جمہورکے آفتاب وماہتاب کی نما ئندگی کرنیوالی پاکستانی حکمرانوں کووزارت داخلہ کاقلمدان بھی طشت میں رکھ کرایسے فرد محسن نقوی کے حوالے کرنا پڑاجواس انتخابی عمل سے کوسوں دور تھالیکن بعدازاں اپنے اس فیصلے کی توثیق کے لئے اسے سینیٹربنوادیا۔اب ان کی گفتگو سنیں تویہی پیغام ملتاہے کہ اس بد نصیب پا کستانی قوم کی کم نصیبی کاسفرابھی ختم نہیں ہوابلکہ ابھی توموسم گل کی آمدمیں کافی دیرہے۔
مجھے وہ دن بھی یاد ہے جس دن اس بدنصیب پاکستانی قوم کاوزیرخارجہ شاہ محمودقریشی پہلی مرتبہ وا شنگٹن میں شہزادی کو نڈالیزارائس کے دربارمیں شرف باریابی حاصل کرکے باہرنکلا تھاتوپہلا خوشامدی بیان اپنی حاکمیت اعلیٰ کے دفاع کی بجا ئے مذاکرات کوبہت بے تکلفانہ، دیانتدارانہ اور حقیقت پسندانہ قراردیکراپنی غلامی کی سندحاصل کررہاتھاحالانکہ وزیر خارجہ کو شہزادی کونڈالیزارائس سے ملا قات سے قبل امریکی سرپر ستی میں نیٹوافواج کے اس مکروہ حملے کی اطلاع دی جاچکی تھی اور پاکستانی سپاہ کے ترجمان میجرجنرل اطہر عباس امریکی حملہ میں پاکستانی علاقے انگوراڈہ کی فوجی چوکی پرپاکستانی سپاہ کے کم ازکم چھ سیکورٹی اہلکارشدیدزخمی کردینے کی اطلاع عالمی میڈیا کوبھی دے چکے تھے جبکہ نیٹوکی افواج کے پاس غلطی اور لاعلمی کی گنجائش اس لئے نہیں تھی کہ نیٹوکی افواج کواس علاقے میں قا ئم تمام پاکستانی چوکیوں کے قیام کی نقشوں کے ذریعے پیشگی اطلاع دی جاچکی تھی۔
اس وقت بھی عام توقع تویہ تھی کہ شاہ محمودقریشی عظیم الشان واضح عوامی مینڈیٹ کے افق سے طلوع ہونے وا لے نئے جمہوری پاکستان کی ترجمانی کرتے ہوئے اس توہین آمیز امریکی رویے پربھرپوراحتجاج کرکے مشترکہ اعلامیہ کے ذریعے اپنا بھرپوراحتجاج سامنے لائیں گے اور پاکستانی اورغیر ملکی ذرائع ابلاغ کے نمائندے بڑی شدت سے منتظرتھے کہ وزیرخارجہ کا تعلق ایک عوا می جذبات اوراحساسات کی علمبردار جماعت سے ہے،اس لئے وہ دبنگ لہجے میں صدائے احتجاج بلندکریں گے اورامریکی ایوانوں کومطلع کریں گے کہ اب یہ مشرف کانہیں بلکہ کروڑں باغیرت پاکستانیوں کی سرزمین ہے جواپنی خود مختاری کی حفاظت کاسلیقہ جانتی ہے۔اگرایساحملہ ہواتو وہ اس نام نہاد’’وارآن ٹیرر‘‘جوہمارے 68 ہزار پاکستانیوں کی جانیں نگل چکی ہے اور65ارب ڈالرکاخطیرنقصان اپنے کندھوں پربرداشت کرچکی ہے،کوخیربادکہتے ہوئے اس دھوکے سے نکل آئیں گے اوراپناراستہ اپنی آزادانہ مرضی سے چنیں گے لیکن اس55منٹ کی ملا قا ت کے بعدپاکستانی وزیرخارجہ جب اس نمک کی کان سے باہرتشریف لائے تونمک بن چکے تھے۔
شاہ محمودقریشی نے شہزادی کونڈا لیزارائس کے سا تھ اپنی ملاقات کوجب بہت بے تکلفانہ، دیانتدارانہ اورحقیقت پسندانہ قراردیا توپاکستانی اورغیرملکی ذرائع ابلاغ کے نما ئندوں نے پاکستانی علاقے انگوراڈہ کی فوجی چوکی پر6پاکستانی سیکورٹی اہلکاروں کے شدیدزخمی ہونے کو’’غیردوستانہ اقدام‘‘سے تعبیرکیاتوقریشی نے فوری طو رپراپنے فدویانہ بیان میں شیرینی کی حلاوت گھو لتے ہوئے اس کی تصحیح فرمائی کہ اس طرح کے سخت ا لفاظ استعمال نہ کریں۔شا ئدوہ پاکستانی سیکورٹی اہلکاروں کے شہدااورشدیدزخمی ہونے کے عمل کو دوستانہ چھیڑچھاڑ، بے تکلفانہ ہنسی مذاق یامحبوبانہ نازواندازسے تشبیہ دیناچاہتے تھے۔پھراس بزدلانہ رویے کی بنا پریہ سلسلہ ایسا دراز ہواکہ کہ سلالہ چوکی پرامریکی بے رحمانہ حملے نے ہمارے 24سپوت کوادھیڑکررکھ دیااورہمیں کچھ دیرکے لئے افغانستان کاامریکی روٹ بندکرناپڑالیکن نجانے درپردہ کیامعاملات طے ہوئے کہ اسی تنخواہ پردوبارہ کام شروع کردیا گیا۔
اس تایخی ہزیمت کودہرانے کامقصدیہ ہے کہ کیااب بھی ہم سہمے ہوئے اسی تنخواہ پرکام کررہے ہیں اوراب چین جیسے دوست کوہم سے الگ کرنے کی جوسازش تیارہوچکی ہے،اس کے جواب میں ایم آئی ایف کے نئے دباؤاورمزیدامریکی سرمایہ کاری کے لالچ کاطوق گلے میں ڈالنے کے لئے اپنی رضامندی کااظہارکرنے جارہے ہیں۔اگریاد ہوتواس وقت بھی قصر سفید کے فرعون بش نے ا پنی پا لیسی سازادارے میں تقریرکرتے ہوئے صاف صاف کہا تھا’’آئندہ اصل چیلنج عراق اورافغانستان کی بجا ئے پاکستان ہوگا‘‘ اور انہی دنوں مزیددباؤبڑھانے کے لئے ’’امریکی طیارہ بردار جہازابراہام لنکن‘‘کوخلیج سے بحیرہ عرب کی طرف بڑھنے کاحکم بھی دے دیا گیاتھا۔
کیااب بھی وہ وقت نہیں آیاکہ قومی اسمبلی کاہنگامی اجلاس بلاکرپاک چین دوستی کوسبوتاژ کرنے والوں کووا ضح پیغام دیاجائے اوراگرایسا کرنے کی ہمت نہیں توپھرہمارے تمام مقتدر حلقوں کواس اعتراف کے ساتھ قوم کوبتادیناچاہئے کہ وہ بھی انہی بتوں کے سا منے سجدہ ریزہوگئے ہیں جہاں اس سے پہلے کے تمام حکمران اپناسب کچھ قربان کرچکے ہیں۔
اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکم اذاں لاالہ الا اللہ