اسلام آباد ( اے بی این نیوز )اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججز نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ “عمران خان کے خلاف ٹیریان وائٹ کیس سے ججز کی رائے میں اختلاف کا آغاز ہوا. چیف جسٹس عامر فاروق نے ٹیریان وائٹ کیس قابلِ سماعت قرار دیا جبکہ کیس ناقابلِ سماعت قرار دینے والے ججوں پر آئی ایس آئی کے Operatives کی جانب سے رشتہ داروں اور دوستوں کے ذریعے بےحد پریشر ڈالا گیا. یہ معاملہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اور پھر اُس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان کے سامنے رکھا گیا تو چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ انہوں نے آئی ایس آئی کے ڈی جی سی سے بات کر لی
مزید پڑھیں :اسلام آبادہائیکورٹ کے6ججزکی جانب سےسپریم جوڈیشل کونسل کوخط بھیج دیاگیا
ہے آئندہ ایسا نہیں ہو گا لیکن پھر بھی یہ سلسلہ رک نہیں سکا”. نیزاسلام آبادہائیکورٹ کے6ججزکاسپریم کورٹ جوڈیشل کونسل کولکھاگیاخط منظرعام پر آگیا،خط میں عدالتی امور میں ایگزیکٹو اورایجنسیوں کی مداخلت کاذکرکیاگیاہے،خط جسٹس محسن اخترکیانی،جسٹس طارق محمودجہانگیری،جسٹس بابرستارکیجانب سےلکھاگیاجسٹس سرداراعجازاسحاق،جسٹس ارباب محمدطاہر،جسٹس ثمن رفعت امتیازبھی شامل،خط کی کاپی سپریم جوڈیشل کونسل ممبران،سپریم کورٹ ججزکوبھجوائی گئی ہے،خط میں مختلف واقعات کا حوالہ دیا گیا،مئی 2023 میں ہائیکورٹ کے ایک جج کے برادر ان لا کو اغوا کیا گیا،ایک جج کی رہائش گاہ سے خفیہ کیمرہ برآمد ہوا،چیف جسٹس ہائیکورٹ کو مداخلت کرنے والوں کیخلاف کارروائی کیلئے بھی لکھا،خط میں کہا ایسے عناصر کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کریں،چیف جسٹس ہائیکورٹ کی جانب سے کوئی کارروائی
مزید پڑھیں :پاکستان میں بارشوں کا نیا سسٹم آج داخل ہو گا،محکمہ موسمیات
نہیں کی گئی، خط کے متن کے مطابق یہ واضح ہونا چاہیے انٹیلیجنس ایجنسیوں کا ججز کو بلیک میل کرنا، ججز پر اثرانداز ہو کر انجینئرڈ فیصلے لینا کوئی پالیسی ہے؟ ٹیریان کیس میں درخواست ناقابل سماعت قرار دینے والے ججز پر شدید دباو ڈالا گیا، ایک جج ہائی بلڈ پریشر کی وجہ سے اسپتال بھی پہنچ گیا آئی ایس آئی کی مداخلت پر مئی 2023 میں چیف جسٹس پاکستان اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کو بھی مطلع کیا گیا،جس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے بتایا کہ ڈی جی سی کو ہدایت دی ہے کہ آئی ایس آئی کا کوئی افسر ججز سے نا ملے لیکن دباو ڈالنے کا سلسلہ جاری رہا ،مئی 2023 میں ہی اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج کے برادر نسبتی کو 24 گھنٹے کے لیے اغواء کیا گیا،اغوا کنندگان خود کو آئی ایس آئی کا بتاتے رہے،ان کے اہل خانہ کی جاسوسی کی گئی اور برادر نسبتی کو اغوا کے دوران ٹارچر کرتے ہوئے کرنٹ لگایا گیا،بردار نسبتی سے وڈیو ریکارڈ کرانے پر مجبور کیا، بعد میں جج کے خلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر کیا گیا اور میڈیا کمپئین بھی چلوائی گئی،3 مئی 2023 کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے انسپیکشن جج ایسٹ نے چیف جسٹس کو مطلع کیا کہ ڈسٹرکٹ ججز پر دبائو ڈالا جا رہا ہے،ایک ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے گھر کریکر حملے کیے گئے، انسپیکشن جج کو بلا کر چیف جسٹس نے کنفرمیشن لی،اس کو او ایس ڈی کیا اور اب وہ بہاولپور میں تعینات ہے،
مزید پڑھیں :تربت ، نیول بیس پر دہشتگردوں کا بڑا حملہ ناکام، سپاہی شہید، 4 دہشتگرد واصل جہنم
10 مئی 2023 کو چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کو ججز نے خط میں آئی ایس آئی کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا لکھا لیکن کوئی ایکشن لیا نہیں گیا ،اسلام آباد ہائیکورٹ کے6 ججز نےچیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال،جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس قاضی فائز عیسی کے علم میں معاملہ لایا ، 2023ء اسلام آباد ہائیکورٹ کےایک جج سرکاری رہائش گاہ منتقل ہوئے تو دیوار میں لگی ایک لائٹ سے خفیہ وڈیو آڈیو ریکارڈنگ کیمرہ برآمد ہوا ، خفیہ کمیرہ کے ساتھ سم کارڈ بھی تھا، ایک اور کیمرہ جج کے ماسٹر بیڈ روم سے برآمد ہوا جو وڈیوز/آڈیوز کی ٹرانسمیشن کہیں کر رہا تھا ،خفیہ کیمروں کے ساتھ ایک یو ایس بی برآمد ہوئی جس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے دیگر ججز کی خفیہ وڈیوز موجود تھیں ،چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے علم میں یہ معاملہ لایا گیا کہ معلوم کیا جائے کہ ججز کی پرائیویسی میں مداخلت کون کر رہا ہے،مئی 2023 میں
مزید پڑھیں :سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل سے فوجی عدالتوں میں محفوظ شدہ فیصلوں کی سمری مانگ لی
ہائیکورٹ کے ایک جج کے برادر ان لا کو اغوا کیا گیا،ایک جج کی رہائش سے خفیہ کیمرہ برآمد ہوا،چیف جسٹس ہائیکورٹ کو مداخلت کرنے والوں کیخلاف کارروائی کیلئے بھی لکھا،خط میں کہا ایسے عناصر کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کریں،چیف جسٹس ہائیکورٹ کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی، خط میں مزید لکھا گیا کہ عدلیہ میں خفیہ اداروں کی مداخلت اور ججز پر اثرانداز ہونے کے معاملے پر جوڈیشل کنونشن بلایا جائے، اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کا سپریم جوڈیشل کونسل کو خط،
مزید پڑھیں :اپیلٹ ٹربیونل نے اعظم سواتی کو سینیٹ الیکشن لڑنے کیلئے اہل قرار دے دیا
خط کی کاپی سپریم جوڈیشل کونسل کے تمام ممبران کو بھجوائی گئی،خط میں عدالتی امور میں ایگزیکٹو اور ایجنسیوں کی مداخلت کا ذکر کیا گیا ہے،خط لکھنے والوں میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس بابر ستار شامل،جسٹس سردار اعجاز اسحاق، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز بھی شامل،خط کی کاپی سپریم کورٹ کے تمام جج صاحبان کو بھی بھجوائی گئی ہے، خط میں عدالتی امور میں مداخلت پر کنونشن طلب کرنے کا موقف اختیار کیا گیا ہے ،کنونشن سے دیگر عدالتوں میں ایجنسیوں کی مداخلت کے بارے میں بھی معلومات سامنے ائیں گئیں، عدلیہ کے کنونشن سے عدلیہ کی کے آزادی بارے میں مزید معاونت ملے گی،خط لکھنے والے ججز نے اپنے اوپر دباؤ کی کوششوں پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کو 2023 اور 2024 میں لکھے خطوط بھی شامل کیے ہیں.
مزید پڑھیں :امریکہ اور اسرائیل کے درمیان دوریاں، نیتن یاہو کا فلسطینیوں کیخلاف جارحیت روکنے سے انکار