پرتعش آئشیں نہیں پرفارمنس چاہیے، اربوں ڈالر کا قرض آج عوام بھگت رہی ہے، چیف جسٹس حکومت پر برس پڑے

اسلام آباد(نیوزڈیسک)سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ریلوے گالف کلب کی لیز سے متعلق کیس کی سماعت کی، جس میں سیکرٹری ریلوے نے عدالت کو بتایا کہ ایم ایل ون 9.8 ارب ڈالر کا منصوبہ ہے اور ایکنک اس کی منظوری دے چکا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ اربوں ڈالر کا قرض لینے کو ہی آج عوام بھگت رہے ہیں۔عدالت نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ اربوں ڈالر قرض لے کر منصوبے لگانے کی بات ہر کوئی کرتا ہے۔ ملک میں اربوں ڈالر کا انفرا اسٹرکچر پہلے سے موجود ہے،

اس پر کیا ڈلیوری ہے؟۔ اربوں ڈالر کا قرض لینے کو ہی آج عوام بھگت رہے ہیں۔چیف جسٹس نے دوران سماعت ریمارکس دیئے کہ چھٹیوں کے دوران سندھ میں ریل کا سفر کیا ہے۔ سندھ میں ریلوے لائنوں کے اطراف آج بھی سیلابی پانی کھڑا ہے۔ بارشیں گرمیوں میں ہوئی تھیں، پانی اب تک نہیں نکالا جا سکا۔ ریلوے افسران نے بتایا کہ بلوچستان میں صورتحال سندھ سے بھی ابتر ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ملک کو یہ پرتعیش آسائشیں نہیں، پرفارمنس اور استعداد کار چاہیے۔ اربوں ڈالروں کے منصوبے لگانے سے عدالت امپریس نہیں ہوگی۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے دوران سماعت عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ نے 2021 میں ایک تفصیلی فیصلہ دیا ہے، جس میں ریلوے اراضی لیز اور فروخت کرنے پر پابندی لگا دی ہے۔ عدالتی فیصلے کی وجہ سے گالف کلب کی لیز کا عمل رُک گیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ریلوے کو زمینوں کی فروخت اور لیز کا لائسنس نہیں دے سکتے۔ ریلوے پورا بزنس پلان بنا کر دے تب ہی جائزہ لیں گے۔جسٹس جمال مندوخیل نے دوران سماعت کہا کہ کوئٹہ میں ریلوے کے رہائشی کوارٹر فروخت ہوچکے ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سیکرٹری ریلوے بتائیں کس زمین پر کیا کرنا چاہتے ہیں، پھر لیز سے متعلق سوچیں گے۔ریلوے لائنز کے گرد تجاوزات بڑھ رہی ہیں۔ ریلوے ٹریک پر رکشہ چڑھنے سے بھی حادثہ پیش آیا تھا۔ اگر ادارے اپنی زمینوں کا تحفظ نہیں کریں گے تو تجاوزات ہی ہوں گے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ ریلوے سالانہ کتنا منافع کما رہا ہے؟۔ جس پر سیکرٹری ریلوے مظفر رانجھا نے بتایا کہ پچھلے سال ریلوے کا سالانہ منافع کا ٹارگٹ 58 ارب روپے تھا۔ ریلویز نے 2022ء میں 62 ارب روپے کمائے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ریل گاڑی کے انجن سے ایک موٹر خراب ہو جائے تو دوسری ریل گاڑی کا نکال کر لگا لیتے ہیں۔ کیا ریلوے کا نظام ایسے چلا رہے ہیں؟۔ سیکرٹری ریلوے نے کہا پاکستان ریلوے پل صراط پر چل رہی ہے۔

سیکرٹری ریلوے نے عدالت کو بتایا کہ سیلاب کے دوران پاکستان ریلوے کو628 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔ ریلویز نے سیلاب کے بعد خود ریلوے بحال کیں، حکومت سے ایک پیسہ بھی نہیں لیا۔ ملک میں سڑکوں کی تعمیر کو زیادہ اہمیت ملی، ریلوے کو پیچھے دھکیلا گیا ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ حکومت پنشنز کی مد میں ریلوے کو 40 ارب روپے دیتی ہے۔ حکومت پی آئی اے اور اسٹیل ملز کو بھی اربوں روپے دے رہی ہے۔ کیا سب کچھ بیچ کر ملک چلانا ہے؟۔