ان لمحوں کوروکووگرنہ!

اسلام آبادکے کسی خوبصورت علاقے کی رنگارنگ مارکیٹ میں سرشام نکل جائیں،لاہورکے گلبرگ وڈ یفنس یاایم ایم عالم روڈکے ریستورانوں
اسلام آبادکے کسی خوبصورت علاقے کی رنگارنگ مارکیٹ میں سرشام نکل جائیں،لاہورکے گلبرگ وڈ یفنس یاایم ایم عالم روڈکے ریستورانوں میں گھومیں،بڑے بڑے شاپنگ سنٹرزاورمالزکے ائرکنڈیشنڈ ماحول کاچکرلگائیں، کراچی میں کلفٹن کاپل اترتے ہی ارد گرد آباددنیا کی رنگینیوں کوملاحظہ کریں۔آپ کویہاں ایک اور ہی دنیاآباد ملے گی۔سخت گرمی کے عالم میں ائرکنڈیشنڈکاروں کے بندشیشوں سے جھانکتی ہوئی،ٹھیک اس دروازے پراترتی جہاں صرف چندقدم اٹھانا پڑیں اوردروازے کے دوسری جانب ویساہی موسم سرد موسم ان کاانتظارکررہاہوجیساوہ گاڑی کے اندرچھوڑ کرآئے تھے۔ اس دنیامیں آبادلوگوں کے معمولات پرمیرے ملک کے عام انسانوں پر آنے والی کسی آفت،پریشانی یاافتاد کاکوئی اثرنہیں ہوتا۔وہ جس ہوٹل میں کھاناکھارہے ہوتے ہیں وہاں اگرلوڈشیڈنگ کی وجہ سے بجلی چلی جائے توایک لمحے کے توقف کے بغیر سارے کاسارانظام جنریٹر پرچلاجاتا ہے اوران نازک اندام لوگوں کوچندقطرے پسینہ گرانے کی بھی زحمت گوارانہیں کرناپڑتی۔ان لوگوں کے گھرکسی بڑے جنریٹریا پھر’’یوپی ایس‘‘یعنی بغیرتوقف بجلی کی فراہمی والی مشینوں سے آراستہ ہوتے ہیں تاکہ رات گئے اگربجلی چلی جائے توکہیں ائرکنڈیشنڈبندہونے کی وجہ سے نیندمیں خلل نہ آجائے۔میرے ملک کی یہ مخلوق گزشتہ تین دہائیوں میں اس قدربڑھی ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ اگرکہیں کسی مزارپرمفت کھانا تقسیم ہورہاہویاپھرکسی نے کوئی خیرات کرنی ہو، آٹا یاکپڑے تقسیم کرنے ہوں توایک ہجوم وہاں اکٹھا ہو جاتا،لائن لگتی یاپھر ضرورت مند لوگ اس خیرات کی آمد کاگھنٹوں انتظار کرتے۔لیکن اب ان بڑے ہوٹلوں میں بنی انتظارگاہوں میں آپ کولوگ انتظار کرتے ہوئے نظرآئیں گیکہ کب میزخالی ہوتویہ لوگ اندر جا کرکھانے سے لطف اندوزہوسکیں۔ بعض دفعہ تویہ لوگ گاڑی میں ایک ہوٹل سے دوسرے اوردوسرے سے تیسرے کی جانب سفر کرتے رہتے ہیں اورگھنٹوں انہیں مناسب ہوٹل میں جگہ میسر نہیں آتی۔ان لوگوں کاانتظار، تردد اور جگہ نہ ملنے پر پریشانی ویسے ہی ہوتی ہے،جیسے کھانا مفت مل رہاتھااور وہ وقت پر نہیں پہنچ سکے اوران کے حصے میں خیرات نہ آسکی۔
ان لوگوں کے مسئلے بھی عام لوگوں سے مختلف ہوتے ہیں۔آج کل کو ن سا فیشن چل رہاہے۔ کون کون سی برانڈکی قمیضیں اوردیگر ملبوسات مارکیٹ میں آئے ہیں۔موبائل کاکون سا ماڈل آج کل نیاہے اوراسے کہاں سے خریداجاسکتا ہے۔ گاڑی کون سی آرام دہ ہے اور اس میں کون سی نئی چیزیں ڈال کرجاذب نظر بنا دیاگیاہے۔کون سی نئی فلم مارکیٹ میں آئی ہے،کس قسم کی میوزک البم مقبول عام ہے۔کنسرٹ کہاں ہورہاہے اوراس کی ٹکٹیں یاپاس کہاں سے مل سکتے ہیں۔ہالی وڈنے کون سی فلم ریلزکی ہے اوراس کی اصل ڈی وی ڈی کہاں میسرہوگی۔
آپ ان لوگوں کی محفلوں میں جانکلیں تویوں لگے گاجیسے اس ملک میں کوئی دکھ،پریشانی،مصیبت یاآفت نہیں ہے۔کوئی اپنے تازہ ترین بیرونی سفرکے قصے سنارہاہوگااورپھرواپسی پراپنے ملک کی بدتہذیبی، عام آدمی کی جہالت اوروسائل کی کمی، ٹریفک کے بے ہنگم پن پرتبصرہ کرے گااورساتھ ایک سیاسی قسم کابیان بھی جاری کردے گاکہ ہم سب چورہیں،ہم اپنے ملک کے ساتھ مخلص نہیں۔ ان کی محفل کی دوسری بڑی تفریح غیبت اورسیکنڈل ہوتے ہیں۔یہ سکینڈل کسی کی نوکری میں ذلت سے لے کراس کی گھریلوزندگی اورمعاشقے تک چلے جاتے ہیں۔گالف کے میدانوں سے گھوڑوں کی ریس اورسٹاک ایکسچینج کے اتارچڑھاؤان کے موضوعات ہوتے ہیں۔یہ لوگ اخبارات کے بھی وہی صفحات زیادہ شوق سے دیکھتے ہیں جہاں کوئی ایسی خبرنہ مل سکے جن سے ان کا فشارخون بلندہوجائے،ان پرپژمردگی چھاجائے یاان کی پرسکون زندگی میں بے اطمینانی آنے لگے۔
یہ لوگ گزشتہ سالوں میں میرے ملک کے کونے کونے میں کیوں نظرآنے لگے۔کیاہم اچانک بہت امیرہوگئے۔ہم پرہن برسنے لگا۔ہم نے ترقی کی منازل طے کرلیں۔نہیں،ہم پرسودخورعالمی مہاجنوں کے نمائندوں شوکت عزیز،شوکت ترین، حفیظ شیخ اور اسحاق ڈارجیسے افرادسوارہوگئے،جن کاایک ہی اصول تھا کہ اس کا سرمایہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچے تاکہ اسے سود کی رقم وصول ہوسکے۔ کارخانے اورملیں تونہ لگیں لیکن اس ملک کے خواب دیکھنے والے اورامیربننے یاامیروں کی طرح زندگی گزارنے کاشوق اور لگن رکھنے والوں کے لئے قرض کادروازہ کھول دیاگیا۔ قرض لواورگاڑی خریدو،فریج خریدو،ائرکنڈیشنڈ خریدو اورپھراپنی محدود آمدنی میں سے پیٹ کاٹ کرسود سمیت قسطیں ادا کرو ۔جوپیٹ کاٹنے کی اہلیت ہی نہ رکھتاہووہ بے ایمانی سے،رشوت سے اور کسی بھی ناجائز ذریعے سے اس معیارزندگی کابوجھ اٹھائے جووہ اٹھانے کے قابل نہیں تھی مگرقرض کی فراہمی نے اس پرراستہ کھول دیا۔
لیکن ان سب لوگوں میں خواہ وہ بنیادی طورپرصاحب حیثیت ہوں یااب نقلی ثروت اور قرض سے اس صف میں آکھڑے ہیں۔ایک بات مشترک ہوگئی ہے۔یہ عام آدمی کے دکھ درد، آلام اورپریشانی سے بہت دورہوگئے ہیں۔ انہیں اندازہ ہی نہیں ہوپا تاکہ گاؤں،محلوں اور کوچوں قریوں میں بجلی جاتی ہے توکیاقیامت برپاہوجاتی ہے۔آٹامہنگاہوتاہے تو کتنے فاقے آتے ہیں۔ نوکری نہ ملے توکیسے بچوں کوسکول سے اٹھاناپڑتا ہے۔نالیوں کی صفائی نہ ہوتومچھرکیسے کاٹتے ہیں اورکونین کی گولی کتنے کی ملتی ہے۔انہیں تصورتک نہیںہو پاتاکہ لوگ معاشی پریشانی کی وجہ سے خودکشی بھی کرتے ہیں اور اپنے بچوں سمیت نہرمیں چھلانگ بھی لگادیتے ہیں۔یہ لوگ ان سب دکھوں اور پریشانیوں اور لوگوں کی مصیبتوں سے بے بہرہ ہوٹلوں میں کھانوں کی خوشبوں میں رچے ہوتے ہیں۔ پلازوں میں خریداریاں کررہے ہوتے ہیں اور محفلوں میں خوش گپیاں لیکن تاریخ ایسے ماحول کو ’’وقت کے تمسخر‘‘کانام دیتی ہے اورملکوں ملکوں یہ کہانی بیان کرتی ہے کہ جب ایک خاص طبقہ بہت زیادہ امیراورظاہری ٹھاٹھ باٹھ سے رہنے لگے اوردوسری جانب انتہائی غربت وافلاس ہوتو پھر بس ایک چنگاری لگنے کی دیرہوتی ہے۔جونہی کسی کے منہ سے تضحیک کاکوئی فقرہ نکلا، بس یہ چنگاری غربت کی دھوپ میں جلے ہوئے انسانوں کے ڈھیرمیں آگ لگادیتی ہے ۔ یہ بس چند لمحے سلگتی ہے اورایک دم دھماکے سے سارا کھیت جل اٹھتا ہے۔عوام نے اجتماعی طورپربجلی کے بلوں کوآگ لگاکراس کاآغازتوکرہی دیاہے۔۔ان لمحوں کو روکنے کے لئے خدارا کچھ کرو وگرنہ۔۔۔!