سندھ کی صوبائی نگراں حکومت کی اہم ذمہ داری

یوں تو سندھ کی صوبائی حکومت کے سامنے کئی اہم امور درپیش ہیں جن پران کوتوجہ دینی ہوگی تاکہ اس صوبے کے حالات کو بہتر بنایاجاسکے لیکن سب سے بڑا مسئلہ جو اس وقت سندھ کی صوبائی حکومت کو کراچی کے حوالے سے درپیش ہے‘ وہ جرائم کا بڑھتاہوا گراف ہے جس نے ہر شہری چاہے وہ امیر ہو یا غریب اس کو پریشان کررکھا ہے۔ جرائم پیشہ عناصر دندناتے پھر رہے ہیں شہریوں سے رقم بھی چھینتے ہیں اور قتل بھی کردیتے ہیں‘ قتل ہونے والوں میں ہر عمر کے افراد شامل ہوتے ہیں۔ خصوصیت کے ساتھ نوجوان جوڈاکوئوں سے مزاحمت کرتے ہوئے مارے جاتے ہیں‘ یہ انتہائی خوفناک صورتحال ہے جس کا ابھی تک تدراک نہیں ہوسکاہے۔ تاہم موجودہ چیف منسٹر جسٹس باقر صاحب کو اس بات کا احساس ہے کہ کراچی جرائم پیشہ عناصر کی زد میں آگیاہے‘ انہوں نے اعتراف کیاہے کہ وہ اس صورتحال کو تبدیل کرنے کی کوشش کریںگے۔
تاہم میری سوچ کے مطابق اس صورتحال کو تبدیل کرنے میں سندھ پولیس کی اہم ترین ذمہ داری ہے جس کو وہ موثرطور پر اداکرنے میں ناکام نظرآرہے ہیں۔ اگر سندھ پولیس خصوصیت کے ساتھ کراچی پولیس میں اگر جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کارروائی کرنے کاجذبہ موجود ہوتاتو صورتحال ایسی نہیں ہوتی جو آج ہوچکی ہے۔ بسااوقات پولیس کے اہلکار ڈکیتی میں پکڑے گئے ہیں۔ اگر شہریوں کی عزت اور وقار کے ذمہ دار پولیس والے ایسا کام کرنے لگیں جو جرائم پیشہ عناصر کررہے ہیں تو پھر پولیس کامحکمہ کیوں قائم کیا گیاہے؟ مزید براں یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ بلکہ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پولیس کو سیاسی بنیادوں پر استعمال کیا جاتاہے بلکہ ہردور میں ایسا ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے ان کی کارکردگی شدید متاثر ہوتی ہے جبکہ اگر پولیس کے چھوٹے بڑے افسران ان سیاستدانوں کا ’’حکم‘‘ نہ مانے تو ان کی نوکری چلی جاتی ہے یا پھر ان کا ایسی جگہ ٹرانسفر کردیاجاتاہے جہاں ان کو خاصی جسمانی اور ذہنی تکلیف کاسامنا کرنا پڑتا ہے۔ کراچی میں بڑھتے ہوئے جرائم کے سلسلے میں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ اس میں ہرقسم کے عناصر شامل ہیں ۔ کراچی میں بعض ایسی گلیاں ہیں جہاں یہ گینگ کی صورت آپریٹ کرتے ہیں اور کارروائی کے بعد فرار ہوجاتے ہیں چنانچہ کراچی میں ان جگہوں پر پولیس کے ذریعے کارروائی کرنی ضروری ہےجہاں پر گینگ کی صورت میں موجود ہیں پولیس کے بعض ذمہ دار افراد کو ان عناصر کی جگہیں معلوم ہیں۔ مزید براں کراچی سمیت پورے سندھ میں جرائم پیشہ عناصر کی بیخ کنی کرنے کے سلسلے میں پولیس محکمہ میں Reformesکی اشد ضرورت ہے۔اس سلسلے میں سابق وزیرداخلہ جنرل معین الدین حیدر کے زمانے میں پولیس ریفارمز کے ضمن میں کئی تجاویز پیش کی گئی تھیں‘ اگر ان پر عملدرآمد ہوجاتاتو پولیس کامحکمہ اچھی کارکردگی کامظاہرہ کرتا بلکہ اچھے کردار کے پولیس افسرسامنے آکر جرائم پیشہ عناصر کو بہت حد تک نیست ونابود کردیتے لیکن افسوس صدافسوس ایسا نہیں ہوسکا۔ نیز ہمارا جسٹس سسٹم اس قسم کا ہے کہ جرائم پیشہ عناصر چند ماہ جیل میں رہ کر چھوٹ جاتے ہیں اور باہر آکر دوبارہ چھینا جھپٹی کے کاروبار کوشروع کردیتے ہیں۔ کراچی میں بدامنی کی وجہ سے یہاں کی معیشت شدید متاثر ہورہی ہے کیونکہ جن معصوم شہریوں کویہ جرائم پیشہ عناصربڑی بے رحمی سےقتل کردیتےہیں وہ زیادہ تر نجی وسرکاری محکموں میں ملازم ہوتے ہیں اور اپنی فیملی کی کفالت کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ قتل ہونے کی وجہ سے فیملی معاشی طور پر بدحال ہوجاتی ہے بلکہ بھیک مانگنے پرمجبور ہوجاتی ہے۔ اس لئے اگرکراچی میں معاشی حالات کو بہتر بناناہے تو سب سے پہلے ان جرائم پیشہ عناصر کا قلع قمع کرنا ہوگاجنہوں نے شہر کو خوف میں مبتلا کردیاہے‘ یہ جرائم پیشہ عناصر خواتین کو بھی نہیں بخشتے ہیں۔ جہاں کسی خاتون کوتنہا جاتےہوئے دیکھتے ہیں توان سے پرس کے علاوہ دیگر قیمتی اشیا چھین لیتے ہیں۔ جب تک اس شہر کو جو سب سے زیادہ ٹیکس دیتاہے اگر جرائم پیشہ عناصر سے پاک نہیں کیا گیا تو پھر اس شہرکے باسی مناسب انداز میں وفاق کو ٹیکس بھی نہیں دے سکیں گے بلکہ اپنا کاروبار کسی دوسرے ملک کی طرف منتقل کرنےمیں حق بجانب ہوں گےجیساکہ ماضی میں ایسا ہوا تھاجب کراچی میں قتل وغارت گری روز مرہ کامعمول بن چکاتھاچنانچہ وزیراعلیٰ جناب باقر سے یہ امید کرنا بجاہے کہ وہ اپنے دیگر وزرا ء سے مشاورت کرنے کے بعد ضرور ایسا قدم ا ٹھائیں گے جن کی مدد سے ان جرائم پیشہ عناصر کی مذموم کارروائیوں کوروکاجاسکے گا۔ مجھے امید ہے کہ جسٹس باقر کراچی کے عوام کو درپیش مسائل کو حل کرنے میں اپنی ذہانت اور تجربے سے پورا پورا فائدہ اٹھائیںگے۔کراچی کے عوام کی اکثریت ان کا ساتھ دے گی تاکہ عوام اور حکومت مل کرکراچی کے حالات کو بہتر بناسکتے ہیں۔ اس ہی اتحاد میں کراچی دوبارہ روشنیوں کا شہر بن سکتاہےورنہ مہنگائی اور مایوسی دونوں ملکر اس شہر کو مزید تباہی سے دوچار کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔