یکم محرم الحرام جمعرات کے دن خلیفہ دوم امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ کی شہادت کا دن ملک بھر میں انتہائی عقیدت و احترام سے منایا گیا… اے کاش پاکستان کی عدالتوں میں عدل فاروقیؓ اور پارلیمنٹ کے ذریعے ملک بھر میں نظام خلفا راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین نافذ کر دیا جائے تو ہر پاکستانی کی بے چینیوں کو قرار آ جائے ، رسول اللہ ﷺ کے جلیل القدرصحابی خلیفہ دوم امیرالمومنین فاروقِ اعظم حضرت عمربن الخطابؓ کاتعلق قبیلہ قریش کے معززترین خاندان بنو عدیسے تھا جوکہ مکہ شہرکے مشہورومعروف محلہ شبیکہ میں آبادتھا…بچپن کے بعدجب شباب کی منزل میں قدم رکھا توقبیلہ قریش سے تعلق رکھنے والے دیگرمعززافرادکی مانندتجارت کواپنامشغلہ بنایا،فنونِ سپہ گری شمشیرزنی نیزہ بازی تیراندازی اورگھڑسواری میں خوب مہارت حاصل کی‘اس کے علاوہ پہلوانی اورکشتی کے فن میں بھی انہیں کمال مہارت حاصل تھی ۔
مکہ شہرکے قریب ہرسال عکاظکا جومشہورو معروف اورتاریخی میلہ لگاکرتاتھا ،اس میں بڑے بڑے دنگلوں میں شرکت کرتے اورقوتِ بازوکا خوب مظاہرہ کیاکرتے تھے‘ مزیدیہ کہ بچپن میں ہی لکھناپڑھنابھی سیکھا،عربی لغت ادب فصاحت وبلاغت خصوصاً تقریروخطابت کے میدان میں انہیں بڑی دسترس حاصل تھی ، شجاعت وبہادری کے ساتھ ساتھ حکمت ودانش نیزفنِ تقریروخطابت پرمکمل عبوریہی وہ خوبیاں تھیں جن کی بنا پرقریشِ مکہ ہمیشہ نازک اورحساس مواقع پرگفت وشنیدکی غرض سے انہی کواپنا سفیر اور نمائندہ بناکربھیجاکرتے تھے‘ حضرت عمربن خطابؓ ان حضرات میں سے تھے جنہوں نے ابتدائی دورمیں دینِ اسلام قبول کیا کہ جب مسلمان بہت زیادہ مظلوم ولاچارتھے …یہی وجہ ہے کہ اس بے بسی وکسمپرسی کے دورمیں دینِ اسلام قبول کرنے والوں کا بڑا مقام ومرتبہ ہے ،ان کیلئے عظیم خوشخبریاں ہیں ،اورانہیں قرآن کریم میں بھلائی میں سبھی سے آگے بڑھ جانے والے کے نام سے یادکیاگیاہے‘ انہی خوش نصیب اورعظیم ترین افراد میں حضرت عمربن خطابؓ بھی شامل تھے، مزید یہ کہ حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ عشرہ مبشرہ یعنی ان دس خوش نصیب ترین افرادمیں سے تھے جنہیں اس دنیاکی زندگی میں ہی رسول اللہﷺ نے جنت کی خوشخبری سے شادکام فرمایاتھا،حضرت عمربن خطاب ؓ کورسول اللہ ﷺ کے انتہائی مقرب اورخاص ترین ساتھی ہونے کے علاوہ مزیدیہ شرف بھی حاصل تھاکہ آپ رسول اللہ ﷺ کے سسربھی تھے۔ ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہاآپ ہی کی صاحبزادی تھیں ،تاریخ کے اوراق حضرت فاروقؓ کی بصیرت کی خوشبو سے مہک رہے ہیں !! سیدنا فاروق اعظمؓ شہر مدینہ، شیرِ خدا !!سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کے حوالے کرتے ہیں !!اور خود اونٹ کی باگ تھام کے خادم کے ہمراہ بیت المقدس (ایلیا ) کی چابیاں حاصل کرنے کی ٹھان لیتے ہیں ، پادری صفرنیوس چابیاں ہاتھوں میں تھامے منتظر ہے !!رومی جرنیل ارطیون کی دھمکی !! کہ یہاں کا رخ بھی مت کرنا !! بہت بری شکست کا سامنا کرے گا،دھمکی سن کر وہ مسکرائے اور اس شان کے ساتھ چلے کہ تاریخ آج تک انگشت بداں ہے، اونٹ پر سواری کے لیے کبھی خادم کی باری آتی اور کبھی آقا فاروقؓ کی !! بیت المقدس کی طرف اٹھنے والے پہلے فاروقی قدم سے کہیں پہلے صرف خبر سن کر ارطیون مصر کی جانب فرار ہو چکا تھا !! پادری صفرنیوس چابیاں ہاتھوں میں تھامے منتظر ہے ! حضرت خالد بن ولید اور دیگر سالار ریشمی لباس پہنے استقبال کے لیے موجود ہیں !! تین جرنیل تھے !! جن کی زیر کمان ہزاروں جانثار تھے !! ریشمی لباس فاروق کے فقر کو زخمی کر گیا !! تاریخ گواہی دیتی ہے کہ پیوند لگے کرتا پہنے امیر المومنینؓ ،اپنے جرنیلوں سے پوچھتے ہیں !! کہ یہ تمھیں کیا ہو گیا ہے !!لشکروں کے لشکر روندنے والے جرنیل عجب شرمندگی سے عرض کرتے ہیں کہ مالِ غنیمت کی قبائیں ہیں !! قباں کے نیچے وہی تلواریں جن کی جھنکار ہی ہمارے ذوق کو تسکین دیتی ہے !!صفرنیوس پریشان ہے !! معاہدے کی عبارت تو ملاحظہ ہو !! ایلیا کے باسیوں کو امان دی جاتی ہے !! ان کے گرجے سلامت رہیں گے !! ان کی صلیبیں مسمار نہیں کی جائیں گی !!! کسی پر کوئی مذہبی جبر نہیں !!! “حضرت عمر فاروقؓ ایلیا کی گلیوں میں صفرنیوس کے ساتھ ہمقدم ہیں !! شہر کے مقامات کی سیر کے دوران نماز ظہر کا وقت ہو جاتا ہے !! سیدنا فاروقؓ جگہ کی تلاش میں ہیں !!صفرنیوس‘ حضرت فاروقؓ کو اپنے گرجے میں ہی نماز ادا کرنے کی پیشکش کرتا ہے !! قربان !! تیرے نام کے ہر حرف پہ فِدا !!سیدنا فاروق اعظمؓ فرماتے ہیں، نہیں !!! میں یہیں گلی میں ہی نماز ادا کروں گا !!تا کہ آنے والی مسلمان نسلیں اس گرجا گھر پر اپنا کوئی حق نہ جتا سکیں !! امیرالمومنین حضرت عمربن الخطابؓ کواس حقیقت کابخوبی احساس وادراک تھا کہ بقا کارازعدل وانصاف میں ہی مضمرہے،لہٰذا چھوٹے بڑے اورامیروفقیرکی رعایت کے بغیر انہوں نے انصاف کے تقاضوں کی ہمیشہ مکمل پاسداری کی اوراس سلسلے میں رہتی دنیاتک اعلیٰ مثال قائم کی ،یہی وجہ ہے کہ آج بھی عدلِ فاروقی کوضرب المثل سمجھاجاتاہے اوراس لحاظ سے حضرت عمرفاروقؓ کے دورِخلافت کومثالی دورتسلیم کیاجاتاہے۔ فاروقِ اعظمؓ کی نظرخلافت کی ظاہری شان وشوکت پرنہیں تھی،بلکہ ان کی نظرمیں خلافت پدرانہ حیثیت رکھتی تھی،جیسے ایک باپ اپنی اولادکاخیال رکھتاہے ایسے ہی فاروقِ اعظمؓ اپنی رعایاکاخیال رکھتے تھے… آپ نے اپنی رعایا کا اور اس بارے میں اللہ کے سامنے جوابدہی کااحساس اس حدتک کیاکہ تاریخ اپنے کسی دورمیں اس کی مثال پیش نہیں کرسکتی،اسی احساس کایہ کرشمہ تھاکہ کمزوروں اورمحتاجوں کے جذبات اوران کی تکلیفوں کاصحیح اندازہ لگانے کیلئے آپ نے خود کو ہمیشہ انہی کی سطح پررکھا‘ راتوں کواٹھ اٹھ کر شہر کے گلی کوچوں میں گھومتے پھرتے اورلوگوں کے حالات ومشکلات کابذاتِ خوداندازہ لگاتے‘ رعیت میں سے کسی کے پائوں میں اگرکانٹاچبھ جاتاتواس کی چبھن اورتکلیف سیدنا عمرؓاپنے دل میں محسوس کرتے!!