آرمی چیف جنر ل عاصم منیر نے گزشتہ دنوں ایران کا دوروزہ دور ہ کرکے ان دونوں پڑوسی اسلامی ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید مستحکم کیاہے‘ نیز ایرانی صدر اور ایران کے فوجی سربراہ سے ملاقات کرکے ان غلط فہمیوں کوبھی دورکرنے کی کوشش کی ہے جو بعض غیر ملکی طاقتوںکے ذریعے پھیلائی جارہی ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق اس دورے میں آرمی چیف نے ایرانی حکام سے دواہم ایشو پر تبادلہ خیا ل کیا ہے۔ پہلا یہ کہ ایران اور پاکستان کے درمیان سرحدوں کومحفوظ بنایاجائے گا۔ تاکہ دہشت گردوں اور اسمگلروں کی آمدورفت کوروکاجاسکے۔ انٹیلی جنس سے متعلق تمام معلومات کو ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کیاجائے گا۔ تاکہ ان اطلاعات کی روشنی میں دہشت گردوںاور اسمگلروں کے خلاف موثر کارروائی کی جاسکے۔
یہاں یہ لکھنا بہت ضروری ہے کہ گزشتہ کئی دنوں سے دہشت گرد بلوچستان کے بعض علاقوں میں گھس کر دہشت گردانہ کاروائیاں کررہے ہیں جس کی وجہ سے کئی فوجی جاں بحق ہوئے ہیں۔ اس ہی طرح ایرانی بلوچستان میں بھی نامعلوم دہشت گرد مذموم کارروائیاں کرکے ایرانی سپاہیوں کو قتل کررہے ہیں۔ جب پاکستان اور ایران کے اندر دہشت گردانہ کارروائیاں ہوتی ہیں تو ایک دوسرے پر الزام عائد کیاجاتاہے کہ اس میں پاکستان یا ایران ملوث ہیں۔ حالانکہ ان دہشت گردانہ کارروائیوں میں نہ تو پاکستان کاشامل ہے اور نہ ہی ایران بلکہ تیسری قوت‘ اس میں خفیہ طریقے سے شامل ہے جو اپنے ایجنٹوں کے ذریعے اس قسم کی مذموم کارروائیاں کرکے ان دونوں برادر اسلامی ملکوں کے درمیان تعلقات کوخراب کرناچاہتے ہیں۔ آرمی چیف کے اس دورے سے قبل بھی پاکستان نے کئی مرتبہ ایرانی حکام کو یقین دلایاہے کہ پاکستان نہ تو اس قسم کی دہشت گردانہ کارروائیوں میں شامل ہے اور نہ ہی اس کی حوصلہ افزائی کرتاہے۔ پاکستان ایران کی سالمیت اور خودمختاری پہ اس ہی طرح یقین رکھتاہے جس طرح وہ خود اپنی خودمختاری اور سالمیت پریقین رکھتاہے۔ بلکہ ناقابل تردید حقیقت یہ ہے کہ پاکستان خود کئی دہائیوں سے دہشت گردی کا شکار ہے۔ جس کی مزاحمت کرنے میں پاکستان کے سیکڑوں عوام اور فوجیوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیاہے۔ آج بھی پاکستان اس صورتحال سے دوچار ہے۔ لیکن عوام اور فوج کے غیر معمولی تعاون سے اس لعنت کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ چنانچہ مندرجہ بالا تجزیے کی روشنی میں پاکستان کے آرمی چیف کا دورہ غیر معمولی اہمیت کاحامل ہے۔ اس دورے کے سبب جیسا کہ میں نے بالائی سطور میں لکھاہے کہ ان دونوں ملکوں کے درمیان پائی جانے والی غلط فہمیاں دور ہوئی ہیں وہیں اس بات کا بھی عہد کیاہے کہ دونوں برادر اسلامی ملک باہم مل کر دہشت گردی کی کارروائیوں کو نسیت ونابود کرنے میں کسر نہیں اٹھارکھیں گے۔ اس طرح ان دونوں ملکوں کی سرحدوں پر قیام امن کو ہر طرح سے ممکن بنایاجائے گا۔ اگر اس باہمی تعاون سے یہ ممکن ہوجاتاہے تو بہت حد تک دہشت گردانہ کارروائیوں کو نہ صرف روکاجاسکے گا بلکہ ان کے سہولت کاروں کو بھی پکڑا جا سکے گا جو غیر ملکی طاقتوںکے اشاروں پر مذموم حرکتیں کررہے ہیں ۔ دراصل ان دہشت گردانہ کاررائیوں کی وجہ سے جہاں ان دونوں ملکوں کے سرحدی امن کو نقصان پہنچ رہاہے وہیں تجارت اور پرامن آمدورفت بھی متاثر ہورہی ہے۔ واضح رہے کہ ابھی حال ہی میں پاکستان اور ایران نے سرحدی تجارت کو فروغ دینے کے سلسلے میں ایک دوسرے کے ساتھ کئی معاہدے کئے ہیں جس پر عمل پیرا ہونے کے سبب ان دونوں ملکوںکی اکانومی پر مثبت اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ تاہم اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کیاجاسکتاہے کہ بعض طاقتیں مثلاً بھارت پاکستان اور ایران کے درمیان سیاسی ‘معاشی اور ثقافتی تعلقات کو بڑھتاہوا نہیں دیکھناچاہتاہے۔ پاکستان کے پاس بھارت کی ان ریشہ دوانیوں کے ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں بلکہ ان کا ایک جاسوس کلھبوشن یادیو ہنوز گرفتار ہے‘ اس نے اعتراف کیاہے کہ بلوچستان کے بعض علاقوں اور کراچی میں وہ اپنے کرائے کے ایجنٹوں کے ذریعے دہشت گردی کرارہاتھا۔ چنانچہ پاکستان کے آرمی چیف کا حالیہ ایران کا دورا پاکستان اور ایران کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں مددگار ثابت ہوگا۔ نیز اس طرح یہ دونوں ملک ملکر سرحدوں پرہونے والی دہشت گردی‘ اسمگلنگ اور دیگر غیر قانونی سرگرمیوں کاموثر انداز میں خاتمہ کرکے سرحدوں پر قیام امن کو یقین بنانے کی ہرممکن کوشش کی جائے گی۔تاکہ تجارت کاسلسلہ نہ رکنے پائے۔