قارئین اوصافِ جانتے ہیں کہ یہ خاکسار انہی صفحات پر متعدد کالمز سوشل میڈیا پر مقدس ہستیوں بالخصوص رسول اللہ ﷺ کی بدترین توہین پر مبنی گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم کے خلاف لکھ چکا ہے اور ان کالمز میں حقائق کی بنیاد پر اس بات کو ہائی لائٹ کرتا رہا ہے کہ سوشل میڈیا پر جاری گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم کی بنیاد’’فحش مواد‘‘ ہے‘ انتہائی تشویش کی بات ہے کہ چند روز قبل پاکستان میں پورن اور فحش ویب سائٹس تک رسائی کے حوالے سے پابندی کو ختم کر دیا گیا ہے…جماعت اسلامی کے سابق امیر مرحوم قاضی حسین احمد اور جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین کی جانب سے 2012 ء میں سپریم کورٹ میں فحاشی کے خلاف دائر کی گئی ایک پٹیشن پر سپریم کورٹ نے پی ٹی اے کو حکم دیا تھا کہ وہ ایسی تمام ویب سائٹس کو پاکستان میں بلاک/ان کے لنکس کو ڈائون کر دیں،جن ویب سائٹس پر پورن اور فحش مواد کی تشہیر کی جارہی ہے…سپریم کورٹ کے مذکورہ حکم کے بعد پی ٹی اے نے لاکھوں ایسی ویب سائٹس کو پاکستان میں بلاک کر دیا تھا، کہ جن میں فحش مواد موجود تھا،چند روز قبل تک ایسی ویب سائٹس تک بغیر VPN کے رسائی حاصل کرنا ممکن نہیں تھا، لیکن اب ایسی تقریباً تمام فحش اور پورن ویب سائٹس تک بغیر VPN کے رسائی حاصل کرنا ممکن بنا دیا گیا ہے۔آخر موجودہ پی ڈی ایم حکومت میں ایسا اقدام کس کے ایما پر اور کس کی ہدایت پر کیا گیا ہے؟ موجودہ دور حکومت میں فحاشی کو پاکستان میں عام کرنا اس لئے بھی زیادہ قابل تشویش ہے کہ موجودہ وفاقی حکومت کی اتحادی جمعیت علمائے اسلام بھی ہے کہ جو اس وقت پاکستان کی سب سے بڑی مذہبی سیاسی جماعت ہے… جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو اس اقدام کا ضرور سخت نوٹس لینا چاہئیے،ایسے وقت میں کہ جب پاکستان میں سوشل میڈیا پر مقدس ہستیوں کی توہین پر مبنی بدترین گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم کا معاملہ انتہائی سنگین ہو چکا ہے اور اعلیٰ عدلیہ کے فاضل ججز صاحبان سمیت پی ٹی اے کے اعلیٰ حکام بھی یہ قرار دے چکے ہیں‘ فحش مواد ہی ہماری نوجوان نسل کو تباہ و برباد کررہا ہے تو ایسے میں فحش ویب سائٹس پر سے پابندی ہٹانا انتہائی خطرناک اور بہت بڑا سوالیہ نشان ہے؟سپریم کورٹ کے علاوہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے بھی 2017 ء میں تحریک تحفظ ناموس رسالت ﷺ پاکستان کے نائب صدر سلمان شاہد ایڈووکیٹ کی جانب سے سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم کے خلاف دائر کی گئی رٹ پٹیشن پر اپنے فیصلے میں وفاقی حکومت بالخصوص پی ٹی اے کو حکم دیا تھا کہ وہ سوشل میڈیا پر سے فحش مواد کا مکمل خاتمہ کرے… اس حوالے سے اسلام آباد ہائیکورٹ کے فاضل جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے وفاقی حکومت کو اپنے مذکورہ فیصلے میں فحش مواد کے خلاف قانون سازی کرنے کے ساتھ ساتھ وفاقی وزارت داخلہ کو یہ ہدایت بھی خاص طور پر کی تھی کہ وہ پاکستان میں کام کرنے والی ایسی این جی اوز کی نشاندہی کرے، جو ملک میں گستاخانہ اور فحش مواد کی اشاعت اور تشہیر کے ایجنڈے پر گامزن ہیں،تاکہ ان کے خلاف کاروائی کی جاسکے۔ فحش مواد کو معاشرے کے لئے زہر قاتل صرف اسلام کے نام پر حاصل کئے گئے ملک پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ نے ہی قرار نہیں دیا بلکہ بھارتی سپریم کورٹ بھی فحش مواد کو زہر قاتل اور ناقابل برداشت قرار دے چکی ہے‘ فروری 2016 ء میں بھارتی سپریم کورٹ نے بھی فحش مواد کے خلاف ایک درخواست کی سماعت کے دوران قرار دیا تھا کہ آرٹ اور فحاشی کے درمیان ایک واضح لکیر کھینچنے کی ضرورت ہے…بھارتی عدالت عظمی نے بچوں میں پورن یا فحش ویب سائٹوں کی بڑھتی ہوئی لت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ تقریر و اظہار رائے کی آزادی کے نام پر بچوں کے مستقبل کو تباہ کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی‘ عدالت نے حکومت کو اس پر قابو پانے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرنے کی ہدایت کی تھی‘ بھارتی سپریم کورٹ نے فحش مواد کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران بھارتی حکومت کے اعلیٰ نمائندے کو مخاطب کرتے ہوئے یہ بھی ریمارکس دیئے تھے کہ آپ کو ایک لکیر تو کھینچنا ہی ہو گی کہ کن چیزوں کو عوامی طور پر دیکھنے کی اجازت ہونی چاہئے اور کون سی چیزیں صرف تنہائی میں دیکھی جائیں‘ بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں یہ بھی کہا تھا کہ عوامی مقامات پر فحش مواد دیکھنے اور دوسروں کو دیکھنے کے لئے مجبور کرنے والوں کے خلاف سخت قدم اٹھائے جانے چاہئیں … بھارتی عدالت عظمی نے کہا تھا کہ بھارتی آئین کی دفعہ 19(1) اے میں اظہار رائے کی جو آزادی دی گئی ہے وہ مطلق نہیں ہے اور منطقی بنیادوں پر اس پر پابندی لگائی جاسکتی ہے۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ بھارت میں انفارمیشن ٹیکنالوجی قانون کے تحت فحش مواد کی تیاری اور نشر و اشاعت قابل سزا جرم ہے اور قصوروار کو تین سال تک کی سزا دی جاسکتی ہے جبکہ پاکستان میں اس وقت تک اعلیٰ عدلیہ کے متعدد فیصلوں اور احکامات کے باوجود بھی فحش مواد کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں کی گئی، یعنی پاکستان میں فحش مواد کی تشہیر اس وقت قابل سزا جرم نہیں ہے جبکہ بھارت میں یہ قابل سزا جرم ہے‘ فحاشی کی تشہیر کرنے سے قرآن و سنت بھی ہمیں روکتے ہیں ،مگر اسلامی ملک پاکستان میں اب فحاشی کو مزید فروغ دینے کی کوشش کی جارہی ہے، فحاشی کو فروغ دینے والوں کو اللہ تعالی نے دنیا و آخرت میں دردناک عذاب کی وعید سنائی ہے،یہی وجہ ہے کہ اس وقت مسلمانان پاکستان جس طرح کے مسائل سے دو چار ہیں… وہ پوری دنیا جانتی ہے‘ وطن عزیز میں قتل و غارت گری،لوٹ مار،کرپشن، مہنگائی،سیلاب، طوفان وغیرہ ہمارے لئے پریشان کن ہیں‘ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جب تم میں حیا نہ رہے تو جو جی چاہے کرو(سنن ابو دائود) آج ہم دیکھتے ہیں کہ جب معاشرے میں حیا ناپید ہوتی جا رہی ہے اور حکومتی سطح پر فحاشی کو فروغ دینے کی وجہ سے بے حیائی کا سیلاب ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لیتا،تو کیسے کیسے اخلاقی جرائم سر اٹھا رہے ہیں‘ اپنوں اور غیروں کا فرق تک ختم ہوگیا ہے،بے حیائی اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ الامان و الحفیظ۔آخر اس معاشرے کو کس طرف لے کر جانے کی کوشش کی جارہی ہے؟کوئی اس معاشرے کو دیکھ کر اب یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ ایک اسلامی ملک ہے‘ کیونکہ اس کا حال بھی مغرب سے کچھ کم نہیں، جس تباہی کے دہانے پر آج مغربی دنیا پہنچ چکی ہے، اس بے حیائی اور فحاشی کے سبب اسی تباہی کے دہانے پر آج پاکستان بھی پہنچ چکا ہے۔فتنوں پے فتنے سر اٹھا رہے ہیں۔اس سے بڑا فتہ بے حیائی اور فحاشی کو فروغ دینے کی وجہ سے اور کیا ہو سکتا ہے کہ اسی بے حیائی اور فحاشی نے اس ملک کے لاکھوں نوجوانوں کو ایف آئی اے کے مطابق مقدس ہستیوں کا بھی گستاخ بنا دیا ہے؟مزید کس فتنے کا انتظار ہے؟میری ارباب اختیار بالخصوص وطن عزیز پاکستان کی نظریاتی سرحدات کی محافظ مذہبی جماعتوں کے قائدین اور اکابر علمائے کرام سے التجا ہے کہ وہ وطن عزیز پاکستان میں بے حیائی اور فحاشی کو فروغ دینے کی ان کوششوں کے خلاف بھرپور آواز بلند کرکے اس ملک کو اور ہماری آنے والی نسلوں کو مزید تباہی اور بربادی سے بچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔