موبائل فون اور سوشل میڈیا کا استعمال جس جلدی سے پھیلا ہے اتنا جلدی دنیا میں کسی بھی چیز کا استعمال اتنی تیزی سے نہیں پھیلا۔بلاشبہ اس کے ان گنت اور لاتعداد فوائد ہیں۔ آپ اس بات سے اندازہ لگا لیں کہ موجودہ دور میں اس بڑھتی آبادی اور کنسٹرکشن کے دور میں اگر موبائیل پر لوکیشن لگانے کا نظام نہ ہوتا تو بڑے شہروں میں کسی بھی جگہ پر بروقت پہنچنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوتا۔یہ میں نے اس کے سب سے چھوٹے استعمال کا ذکر کیا ہے۔ہزاروں کے حساب سے فون نمبر محفوظ کرنے کے علاوہ ضروری میسج محفوظ کرنے کے علاوہ فیکس مشین اور پھر سب سے بڑھ کر پوری دنیا کی معلومات بھی فراہم کرتا ہے۔یاداشت کے طور پر رکھی جانے والی تصویریں اور ویڈیوز کو محفوظ رکھنے کا بھی ذریعہ ہے۔طالبعلموں کے لئے تو اس میں غوطہ زن ہونے سے مذہب کی مکمل معلومات، ہر فرقے کی معلومات، ہر ملک، ہر صوبے، ہر برانڈ، ہر شہر بلکہ ہر گاؤں تک کی معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ان تمام مثبت چیزوں کی طرف نظر دوڑائی جائے تو موجودہ دور کی انتہائی اہم بلکہ شاید یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ انسانی زندگی کے لئے پانی، ہوا اور خوراک کے بعد شاید سب سے ضروری چیز اب موبائل یا سوشل میڈیا کا استعمال ہو گیا ہے۔
بدقسمتی سے سوشل میڈیا کا غلط استعمال بھی جس عروج پر پہنچا ہے موبائل فون بنانے اور اس پر سہولتیں پہنچانے والے ادارے بھی خود بھی شاید حیران رہ جاتے ہونگے۔جس طرح اس کے استعمال سے بینکوں سے پیسے لوٹے جا رہے ہیں اور دوسرے سٹریٹ کرائم میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔اس کی مثال بھی کہیں نہیں ملتی۔ اب سوشل میڈیا کے استعمال سے انسان اورانسانیت کا فرق تیزی سے معلوم ہو جاتا ہے کیونکہ انسان تو ہر گھر میں پیدا ہوتے ہیں لیکن انسانیت کہیں کہیں جنم لیتی ہے۔شاید ایسی ہی کسی جگہ حضرت مولانا جلال الدین رومی نے کہا تھا کہ تمہاری اصل ہستی تو تمہاری سوچ ہے باقی تو صرف ہڈیاں اور خالی گوشت ہے۔ہم لوگ جس طرح بے تکی اور لغو باتوں کے میسج بھیج کر اپنی سوچ کی عکاسی کر رہے ہیں اس سے ہم کسی اور کا کوئی نقصان نہیں کرتے بلکہ اپنے آپ کی بربادی کر رہے ہیں۔دودن پہلے پچھلے کور کمانڈر لاہور کے حق میں ایک میسج چلا جس میں اس کو ہیرو پیش کیا جا رہا تھا کہ اس نے اپنی عوام پر گولی نہ چلانے کا کہہ کر بہت تاریخی کارنامہ سر انجام دیا ہے۔ کہ اس نے کور کمانڈر ہاؤس پر حملے کے دوران کہا کہ میں اپنے عوام پر گولی نہیں چلا سکتا۔میرے ذاتی خیال میں اس جرنیل نے انتہائی بزدلی اور بے شرمی کا مظاہرہ کیا ہے۔ پاکستان میں بسنے والے دہشت گرد، ڈاکو، چور سب پاکستان کے عوام ہی ہیں جن سے بچنے کے لئے پاکستان کے ہر دوسرے شخص نے ذاتی حفاظت کے لئے اسلحہ کا لائسنس حاصل کر رکھا ہے۔اگر ان کے گھر میں اسلحہ، پتھروں اور ڈنڈوں سے لیس دھاوا بول دیں تو جو شخص اپنے گھر میں بیٹھا ہو اس کے پاس اپنے بچاؤ کے لئے اسلحہ موجود ہو اور وہ کہے کہ یہ مجھ پر یا میرے گھر پر پاکستان کی عزت و توقیر پرجو لوگ حملہ آور ہیں یہ میرے اپنے ملک کے لوگ ہیں۔یہ میرے اپنے وطن کے لوگ ہیں۔ نہ میں ان پر گولی چلاؤں گا اور نہ ہی ان کے ہاتھوں کو روکوں گا۔اس شخص کی مثال اس بزدل جرنیل جیسی ہے جس نے شرپسندوں اور دہشت گردوں کے ہاتھوں کو نہیں روکا۔اسی طرح کچھ دن پہلے ایک پیغام سوشل میڈیا پر چلایا گیا کہ پاکستان آرمی چیف جنرل حافظ منیر پر قاتلانہ حملہ ہوا ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ یہ لوگ کس پاکستان دشمن ملک کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ کبھی بلوچ دہشت گردتنظیموں کے حق میں میسج چلا تے رہتے ہیں اورخاص طور پر ان کا بڑا نشانہ پاک آرمی ہی ہوتی ہے۔اس میں سوچنے کی بات ہے کہ پاک افواج کے خلاف زہریلا پروپیگینڈہ کرنا کس کی خواہش ہے۔ 9مئی کو لاہور قائد کی رہائش یا کور کمانڈر ہاؤس، جی ایچ کیو راولپنڈی اور پشاور سمیت جس طرح سے آرمی تنصیبات پر حملے ہوئے، پھر کور کمانڈر لاہور سمیت کچھ آرمی افسران نے بزدلی دکھائی۔اس سے جتنی خوشیاں بھارت میں منائی گئیں شاید اس سے پہلے اس کی مثال نہیں ملتی۔یہ تو بھلا ہو ان قوتوں کا جنہوں نے فوری طور پر ان کے خلاف ایکشن لیا۔ورنہ غیرت مند پاکستانی دنیا کے سامنے منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے تھے۔ آزادی اظہار کی آڑ میں پاک فوج کے خلاف تمام غلط سوشل میڈیا پر میسج بھیج کر فوج کے لوگوں کی دل آزاری کی جا رہی ہے۔جو لوگ باقاعدگی سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر خبریں سننے اور پڑھنے کا شوق رکھتے ہیں ان کو اندازہ ہو گا کہ پاک فوج کن مشکلات سے گزر رہی ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا دن گزرتا ہوگا جس دن تین، چار یا پانچ شہیدوں کی لاشیں 20`30 شدید زخمی فوجیوں کو ہسپتالوں میں نہ لایا جاتا ہو اور پھر ایسے ہی ادارے کی کردار کشی بھی کی جا رہی ہو۔اس کے علاوہ مذہبی تفرقہ بازی اور سیاسی پارٹیوں کے لوگوں کے ایک دوسرے کے خلاف غلیظ پروپیگینڈے سے بھی عوام کی آپس میں رنجشیں بڑھ کر بات قتلوں تک پہنچ چکی ہے اور تو اور مذہب کے ٹھیکیدار بھی اپنے ساتھ چار پانچ گن مین رکھنے کے علاوہ کہیں آ جا نہیں سکتے۔ اگر وہ خدا اور رسول کے صحیح راستے پر چلنے کا درس دیتے رہتے اورایک دوسرے پر لعن طعن نہیں کرتے، اپنے چمچوں کے ذریعے ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگا کر سوشل میڈیا کا سہارا نہ لیتے تو آج مسلمان ملک میں ان کو اپنے ساتھ گن مین رکھنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ حکومت وقت کو چاہیئے کہ وہ بھی ایسے میسج روکنے کی کوشش کرے او راپنے ملک اور مذہب سے سچی محبت کرنے والے لوگ بلکہ نوجوان خود یہ اہم کام سرانجام دیںاور ایسے گمراہ کن میسج بھیجنے والوں کی حوصلہ شکنی کریں۔