٭ …انتخابات پرانی مردم شماری (2017ء) پر ہوں گے، نئی مردم شماری نظر انداز 36 ارب کے اخراجات ضائع، وزیرداخلہ کا اعلان O اسمبلیاں مقررہ مدت سے پہلے تحلیل ہوں گی، وزیراعظمO پرویز خٹک، پارٹی سے پہلے جھنڈا بن گیا!20 O گریڈ کے60 اعلیٰ افسروں کے غیر ملکی تفریحی دورے، دو لاکھ ڈالر جاری، سفارتخانوں کے کھانوں کا جائزہ لیں گے!!O افغانستان: آرمی چیف کی تنقید پر جے یو آئی ناراض، آئندہ احتیاط کی ہدائتO خلاف کعبہ یکم محرم کو تبدیل ہو گاO پرویزالٰہی، جیل میں ایم پی او کے تحت ایک ماہ کے لئے نظربند، ’امن امان کا خطرہ ہے‘ ڈپٹی کمشنر لاہورO اسلام آباد ہائی کورٹ، تعمیر دو ارب روپے کے اخراجات، 6 کروڑ کی جعلی دستاویزات کا انکشافO آئی ایم ایف کی نئی شرائط، پراپرٹی اور زراعت ٹیکس پر اضافہ کا مطالبہO گلگت، وزارت میں پیپلزپارٹی کو تین، ن لیگ کو دو نشستیںO ’’عدلیہ کے بارے میں بات کرنے پر شرم آتی ہے‘‘ وزیردفاع (شائد 1997ء میں سپریم کورٹ پر ن لیگ کے حملے پر شرم!)O عراق، ایک کھرب، 59 ارب 20 کروڑ روپے کے 12 تھنڈر طیارے خریدے گاO وزیراعظم، کے روزانہ ترقیاتی منصوبوں کے افتتاح میں ایک روز کا وقفہ، گوجرانوالہ کا اتوار کا دورہ ملتویO افغانستان، طالبان کی حکومت، پاکستان سے دہشت گردی کے ثبوت مانگ لئےO آصفہ بھٹو زرداری الیکشن لڑیں گیO عالمی عدالت، کشن گنگا کیس، بھارت نے مقررہ وقت میں دو جج نامزد نہیں کئے!O آصف زرداری اسلام آباد، بلاول لاہور میں۔
٭ …پے درپے بدنیتی! وزیرداخلہ کا اعلان کہ نئی مردم شماری کے نتائج مکمل ہیں، مگر انتخابات 2017ء کی پرانی مردم شماری پر کرائے جائیں گے۔ وزیراعظم کا اعلان کہ اسمبلیاں مقررہ مدت 13 اگست سے پہلے تحلیل کر دی جائیں گی تا کہ نگران حکومتوں کو ایک ماہ کی مزید حکمرانی مل سکے۔ الیکشن کمیشن، انتخابات کے لئے 8 اکتوبر کی تاریخ مقرر کر کے نئی تاریخ پر خاموشی! اب ذرا اندازہ لگائیں۔ پاکستان کی 76 سال کی تاریخ میں صرف سات بار مردم شماری ہوئی ہے۔ آئین کی دفعہ 219 کے تحت الیکشن کمیشن کے لئے ہر سال انتخابی فہرستوں پر نظرثانی ضروری قرار دی گئی ہے۔ یہ کام صرف مردم شماری کی بنیاد پر کیا جا سکتا ہے۔ آئین کی دفعہ ’51‘ ذیلی شق نمبر3 کے تحت سرکاری طور پر شائع شدہ گزشتہ آخری مردم شماری کے مطابق قومی و صوبائی اسمبلیوں کے لئے انتخابات ضروری ہیں۔ یہاں حکومت (وزارت داخلہ و شماریات، وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ) کی بدنیتی ملاحظہ ہو۔ پہلے تو ’’نیک نیتی‘‘ کے تحت بار بار مردم شماری ملتوی کی گئی اعلان کیا جاتا رہا کہ الیکشن اس سال ممکن نہیں ہو سکتے، دنگا فساد کا ڈر ہے؟ شور مچا تو یکم مارچ سے 31 مارچ تک مردم شماری کرائی گئی جب الیکشن کمیشن کے انتخابات کے لئے 8 اکتوبر کے اعلان کے بعد سات ماہ کی مدت میسر تھی۔ نئی مردم شماری ڈیجیٹل (چھوٹے کمپیوٹروں کے ذریعے) کرائی گئی۔ لاکھوں ڈیجیٹل آلات خریدے گئے۔ گھر گھر مردم شماری ہوئی، 36 ارب روپے خرچ ہوئے، کمپیوٹر کے ذریعے انتخابی نتائج چند دنوں میں تیار ہو سکتے ہیں۔ 31 مارچ کے بعد اب تک تین ماہ 17 دن گزر چکے ہیں، مردم شماری کے نتائج مکمل تو ہو چکے ہیں ظاہر نہیں کئے جا رہے۔ پہلے بہانہ بنایا گیا کہ کچھ ’ڈیجیٹل‘ آلات گم ہو گئے ہیں۔ یہ بہانہ چل نہ سکا تو کہا گیا کہ نئی مردم شماری کے مطابق نئی حلقہ بندیوں، اپیلوں وغیرہ کے لئے وقت بہت کم رہ گیا ہے۔ اس لئے انتخابات 2017ء کی پرانی حلقہ بندیوں پر ہی ہوں گے۔ اس طرح نئی مردم شماری کے نتیجہ کے مطابق دو کروڑ نئی آبادی کو ووٹ ڈالنے سے محروم رکھا جائے گا۔ ان لوگوں کو پانچ سال مزید انتظار کرنا پڑے گا! ٭ …انتخابی قوانین کے مطابق انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد کسی ترقیاتی منصوبے کا اعلان یا افتتاح نہیں کیا جا سکتا۔ اب الیکشن کمیشن کی ’’نیک نیتی‘‘ کہ پہلے تو 10 ماہ قبل 8 اکتوبر کو الیکشن کا اعلان کر دیا تھا۔ اسے روک دیا گیا۔ اب تین ماہ باقی رہ گئے ہیں،انتخابی تاریخ کا کوئی علم نہیں۔ اس مدت کا فائدہ اٹھا کر وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ دھڑا دھڑ نئے ترقیاتی منصوبوں کے روزانہ افتتاح کر رہے ہیں، کوئی منصوبہ 5 سال کا کوئی 10 سال کا (سامان 100 برس کا، پَل کی خبر نہیں!) ٭ …وزیراعظم کی تصویریں پہلے سرکاری اشتہارات پر لگا کرتی تھیں (اشتہاری!!)، ہائی کورٹ نے منع کر دیا، اب نئے منصوبوں کی افتتاحی تختیوں پر نام درج ہوتا ہے، اخبارات میں تصویریں لگتی ہیں، ٹیلی ویژنوں پر نمائش ہوتی ہے، الیکشن کمیشن خاموش ہے!! ٭ …دوسری باتیں:20 ویں گریڈ (سیکرٹری، کمشنر وغیرہ) کے 60 افسروں کو21 ویں گریڈ میں ترقی کے لئے لاہور میں واقع ’’نیشنل سکول آف پبلک پالیسی‘‘ میں ساڑھے چار ماہ کی تربیت کے لئے بھیجا جاتا ہے۔ اس کورس میں داخلہ کے لئے 20 ویں گریڈ کے خاص پسندیدہ افسر منتخب کئے جاتے ہیں۔ 20 ویں سکیل کے کثیرتعداد میں افسر اس عیاشانہ تربیت میں داخلہ کے لئے شدت سے خواہاں ہوتے ہیں۔ ڈسٹرکٹ مینجمنٹ، پولیس، کسٹم، ریونیو، کامرس وغیرہ کے 60 افسر اس پُرآسائش انتخاب کے لئے چنے جاتے ہیں۔ اس کورس میں داخلہ کے دو اہم ترین فائدے مدنظر ہوتے ہیں ایک تو 21 ویں سکیل میں ترقی، دوسرے، دل تھام کر سنئے، تمام افسروں اور ان کے اعلیٰ اساتذہ کے گروپوں کا مختلف ممالک کے 10 روزہ تفریحی دورہ! ان ممالک میں امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا، جاپان، روس، جرمنی، اٹلی، ملائیشیا، آذربائیجان، ہنگری، ترکمانستان وغیرہ شامل ہیں۔ اس دورہ میں ہر افسر کو غیر ترقی یافتہ ملک میں روزانہ 150، ترقی یافتہ ممالک میں 300 ڈالر روزانہ الائونس ملے گا، (تنخواہیں محفوظ)، ان کے اساتذہ کو ترقی پذیر ممالک میں 300 ڈالر اور ترقی یافتہ ممالک میں 600 ڈالر (ایک لاکھ 70 ہزار روپے) روزانہ الائونس ملے گا (عیاشی!!) اس مقصد کے لئے دو لاکھ ڈالر نقد پیشگی جاری کر دیئے گئے ہیں۔ انتہا یہ کہ تربیت نام کے اس عیاشانہ دورے کے مقاصد میں دوسرے ملکوں کے نظام حکومت کے جائزے کے ساتھ پاکستانی سفارت خانوں میں دیئے جانے والے کھانے کے معیار کا جائزہ لینا بھی ہے!! (ظاہر ہے 10 دن اچھا کھانا ہی تیار ہو گا!!) ٭ …جے یو آئی کی مجلس عاملہ کے اجلاس میں افغانستان اور پاکستان کے درمیان کشیدگی اور ایک دوسرے کے خلاف بیانات پر سخت تشویش کا اظہار کیا گیا اور ان دونوں کو اس عمل سے باز آنے کی ہدائت نما تلقین کی گئی ہے۔ اس تلقین کا اصل ہَدَف آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا وہ سخت بیان ہے کہ افغانستان میں پاکستان پر حملے کرنے والے دہشت گردوں کے محفوظ اڈے موجود ہیں۔ افغان گورنمنٹ نے پاکستان سے ثبوت مانگ لئے ہیں۔ افغانستان اور جے یو آئی نے چند روز قبل دہشت گردوں کے ہاتھوں 12 فوجیوں کے شہید کئے جانے پر کوئی اظہار افسوس نہیں کیا، اس سے قبل متعدد فوجی افسر اور جوان شہید ہوئے، کوئی تعزیت نہیں! مگر پاک فوج کے سربراہ کے بیان پر سخت اعتراض ہوا ہے!! قارئین کرام، ایک مختصر نظر افغانستان کی سابق اور موجودہ صورت حال پر! 1971ء تک افغانستان میں بادشاہت تھی۔ افغانستان دنیا بھر کا پسماندہ ملک تھا۔ میں نے کابل، قندھار، ہرات میں پولیس کے اہلکاروں کے الگ الگ جوتے، ٹوپیاں اور ملبوسات دیکھے۔ ایک فوجی بریگیڈیئر کو بس میں مسافروں کے رش میں دھکے کھاتے دیکھا۔ 1973ء میں سردار دائود نے بادشاہت کا تختہ الٹا، 1978ء میں اس کا اپنا تختہ الٹ گیا، کابل کی سڑکوں پر لاشیں گھسیٹی گئیں، صرف تین دن کے لئے عبدالقادر دگروال، صدر بنا، اسے اتار کر نور محمد ترکئی دو سال، حفیظ اللہ امین صرف ساڑھے تین ماہ، ببرک کارمل 6 سال، حاجی نور محمد چمکنی دو سال، نجیب اللہ دو بار 6 سال، صبغت اللہ مجددی 4 سال، ملا عمر چند ماہ، برہان الدین ربانی 5 سال، حامد کرزئی 3 سال اور اشرف غنی سات سال افغانستان کے صدر رہے، اب طالبان حکمران ہیں۔ خواتین کی تعلیم، ملازمت، گھروں سے باہر نکلنا بند، ہر قسم کی ثقافتی سرگرمیاں ختم۔ یونیورسٹیوں کے اساتذہ باہر بھاگ گئے۔ میں نے طالبان کی سابق حکومت کے دوران کابل یونیورسٹی کے دو پروفیسروں کو واشنگٹن کے فائیو سٹار ہوٹل میں کاپیاں پنسلیں فروخت کرتے دیکھا۔ اب بھی وہی حال! کچھ لکھوں تو ’دوست‘ لاٹھیاں پکڑ لیتے ہیں!