کبھی سوچا ہے ہمارے آرام و سکون کی کل قیمت کیا ہے ؟ ہم نے شاید ہی کبھی اس بارے میں سوچا ہو ۔جبکہ اکیسویں صدی کا اہم ترین سوال یہی ہے ۔ہم نے کبھی ایسے سوالات پر سوچنے اور غور کرنے کی زحمت ہی نہیں کی جن کے جواب ہمیں مستقبل قریب میں درپیش ہوں گے ۔اس کا ایک سادہ سا جواب یہ ہوسکتا ہے کہ ہماری ضروریات کی راہ میں کھڑے دکھوں نے ہمیں اتنی فرصت ہی نہیں دی ۔یہ دکھ معاشی بدحالی ہے ، جس کی وجہ تلاش کرنا بھی ایک کار بے کار ہے۔ ایسے بہت سارے سوالات ہیں جو ہمارے دل ودماغ میں سر اٹھاتے ہیں مگر ہماری ناآسودگی آس راہ میں حائل ہے کہ جس کی خود اذیتی سے ہم نکلے نہیں سکتے۔
اس میں شک نہیں کہ سائنس ایک کائناتی حقیقت ہے اس سے انکار کرنا ارتقا کے راستے کی دیوار بننے کے مترادف ہے ،ہاں مگر سائنس کے جواز کے لئے مذہب سے انکار کرنا ایک لایعنی بات ہے ،یہاں تک کہ سائنس اور مذہب کو ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑا کرکے مکالمہ کروانا بھی ،اور جب ہم اس امر کاارتکاب کرتے ہیں تو دراصل بے معنی سوالات کا ایک پلندہ تیار کرتے ہیں جو نفرتوں کو ہوا دیتا ہے اور باہمی اتحاد کی روح کا چولا تار تارکرتاہے جو ہمارے سکون کو تباہ کرنے کی ایک صورت ہے، اسی طرح کئی اور نظریاتی اشکالات ہیں جن کے کانٹے ہماری لوح ذہن پر گڑھے ہوئے ہیں ۔ یہ کہنا مذاہب کے پاس معیشت کو سدھارنے کی کوئی دائمی منصوبہ بندی کا علم نہیں یہ ایک خام خیالی اور تعصب ہے جو یہ بتاتا ہے کہ سائنس کو علمی کارنامے سے تعبیر کرنے والے مذاہب کے بارے میں رائے بناتے ہوئے سائنٹیفک سوچ سے کام نہیں لیتے کہ سائنس کا بنیادی کلیہ تین نکات پر مشتمل ہے ، مفروضہ ،مشاہدہ اور تجربہ ، جبکہ مذاہب سے متعلق جاہلانہ مفروضہ قائم کرکے بغیر کسی عملی تجربے کے ایک سطحی رائے کی بنیاد پر نظریات کے قلعے تعمیر کرلئے جاتے ہیں۔ ہر مذہب کے الگ الگ عقائد ہوتے ہیں ان عقائد کے اندر کئی فروعی مسائل ہوتے ہیں جنہیں سوشل سائنس کی کسوٹی پر پرکھنے کا ایک طریقہ ہوتا ہے اس طریقے پر عمل کئے بغیر کسی بھی مذہب یا فکری نظام کو مسترد کردینا ایک غیر سائنسی توجیح ہے ۔جو معاشروں کے امن و سکون کو برباد کردینے والا ایک قبیح فعل ہے ۔کارل مارکس کہتے ہیں ’’مذہب ایک لبادے کے سوا کچھ نہیں‘‘ یووال نوح ہراری اسی کو دلیل مانتے ہوئے کہتے ہیں” مذہب کے پاس ہمارے وقت کے عظیم پالیسی مباحثوں میں حصہ ڈالنے کے لئے واقعی کچھ زیادہ نہیں ۔مذاہب کی تاریخ پڑھ کر کوئی رائے قائم کر لینا کافی نہیں ہے۔مغرب اور مشرق کے دانشور کا المیہ یہ ہے مذاہب کو سمجھنے کے لئے ان کے بنیادی فلسفے ان کی مبادیات اور روح کا ادراک ضروری نہیں سمجھتے، خصوصاً اسلام کو سمجھنے کے لئے عربی زبان کا جاننا ضروری ہے ۔ قرآن جو آخری صحیفہ ہے اس کی ایک ایک آیت میں کائنات کا راز پوشیدہ ہے اور احادیث کا علم جو محدثین کی مشقت آمیز سعی کا نتیجہ ہے ،اسما الرجال کا علم جس نے متعدد (غیر متعصب) مغربی مستشرقین کو بھی حیرت میں ڈالا اور مسلمانوں کی اس کاوش کو انہوں نے سراہنے میں بخل کا مظاہرہ نہیں کیا ۔ مذاہب کی تاریخ پڑھنے والوں کی اسی روش نے بہت سارے اشکالات پیدا کردیئے ہیں اور ان اشکالات کے رد کے لئے جن علمائے امت نے قرآن و حدیث کی روشنی میں کام کیا ہے ان کی محنت کو قابل اعتنا گردانا ہی نہیں گیا۔ میں ایک جگہ پڑھا رہاتھا ” قدیم چین سے لے کر جدید یورپ تک سیکولر نظریہ سازوں نے اس سنہری اصول کو جائز قرار دیا ہے کہ “دوسروں کے ساتھ وہ نہ کریں جو آپ نہیں چاہتے کہ وہ آپ کے ساتھ کریں ‘ہمارے نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے تو اس سے بھی آگے بات کی ہے کہ’’ جو تم اپنے لئے پسند نہیں کرتے دوسروں کو وہ مت دو‘‘ اوراس کا تعلق تمام مذہبی روایات سے جڑا ہوا ہے،کہ تمام مذاہب کی کائناتی سچائیاں ایک ہی ہیں جبکہ یہ اور ایسے تمام امور مذہبی اخلاقیات کا لازمی جز ہیں مگر روشن خیال یا مذہب بیزار دانشور یہ کہتا ہے کہ ’’اخلاقی طرز عمل کے لئے مذہبی عقیدے کی کوئی ضروری شرط نہیں ‘‘ جبکہ یہ قواعد و ضوابط تو سکھلاتا ہی مذہب ہے ۔نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایاکہ ’’میں اخلاق سنوارنے کے لئے مبعوث کیا گیا ہوں ‘‘۔ مذہب انسان کے گرد اخلاقی اقدار کا ایک دائرہ کھینچ دیتا ہے ،جو ان اقدار کو توڑتا ہے ان روایات کی پابندی نہیں کرتا وہ ایسے ہی ہے جیسے ایک شخص ایک کلب کا ممبر بنا،جب وہ شخص کلب کے اصولوں اور ضوابط سے روگردانی کرتا ہے اس کی ممبر شپ منسوخ کردی جاتی ہے ۔اگر ایسا نہیں تو ڈسپلن کے لفظ کو لغت سے نکال دیا جائے۔