اہم خبریں

پاکستان کیسے بدلے گا؟

پاکستان مسائل کی دلدل میں کیسے دھنسا؟ یہ ایک لمبی کہانی ہے۔ میری فکر یہ ہے کہ پاکستان کو درپیش مسائل سے نمٹنے کا کوئی لائحہ عمل کیا موجود ہے؟ مسائل کی ایک لمبی فہرست ہے جس کے حل کیلئے سنجیدہ اور مربوط کوشش کی ضرورت ہے‘ قیادت کے پیش نظر ‘مگر اپنے مفادات ہیں چنانچہ ’’سیاست‘‘ ریاست کے مفادات پر مقدم اور حاوی دکھائی دیتی ہے۔
پاکستان کے مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ معاشی سے زیادہ انصاف کی فراہمی کا نظام ہے۔ جس طرح کسی ملک کا سیاسی نظام دیگر نظاموں کی بنیاد یا خشت اول کا فریضہ سرانجام دیتا ہے بعینہ انصاف کانظام کسی معاشرے کی معاش و معاشرتی ترقی میں بنیادی اہمیت کاحامل ہے۔ ایک فرد کی زندگی کو بدلنا ہو تو سچ بولنے کی ایک خصوصیت فرد کے مجموعی کردار کو سنوار دیتی ہے‘ معاشرے کی ترقی و تعمیر درکار ہو تو انصاف کے ستونوں پر معاشرے کی عمارت کھڑی کی جاتی ہے‘ انسانوں کی معلوم تاریخ کا سبق یہی ہے۔ ظلم کا نظام قائم نہیں رہ سکتا‘ ظلم کرنے والے اپنے نظام سمیت آخرکار اپنے انجام کو پہنچتے ہیں۔ پاکستان قائم ہوا تو قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق یہاں معاشی و سماجی انصاف قائم کرنا مقصود تھا۔ مغرب کے معاشی نظام نے انسانیت کے لئے ناقابل حل مسائل کو جنم دیا ہے۔ قائداعظم نے اس کا توڑ ایسے اقتصادی نظام کی صورت میں پیش کیا جو اسلام کے صحیح تصور مساوات اور سماجی انصاف کے اصولوں پر مبنی ہو۔ افسوس پاکستان بتدریج اس منزل سے دور ہوتا گیا جس کا خواب پاکستان کے قیام کے وقت دیکھا گیا تھا۔ یہ منزل سے دوری کوئی اتفاقی یا حادثاتی امر نہ تھا‘ اس کے لئے باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی۔ شہید ملت لیاقت علی خان کا قتل‘ اس کے محرکات اور مضمرات‘ منصوبہ بندی کی گتھی کو سلجھانے میں مددگار ہوسکتے ہیں۔ لیاقت علی خان کو راستے سے ہٹانے کے بعد پاکستان کو ایک ایسی راہ پر ڈال دیا گیا جس کی کوئی منزل نہیں تھی۔ لہٰذا ہم آج تک راہ میں بھٹک رہے ہیں اور آج بزبان شاعر کیفیت کچھ یوں ہے۔ نہ کسی کو فکر منزل نہ کہیں سراغ جادہ یہ عجیب کارواں ہے جو رواں ہے بے ارادہ پاکستان کو درست سمت میں آگے بڑھنا ہے تو سب سے پہلے اپنے آپ کو اس چنگل سے آزاد کرنا ہے جس میں اس کو سازش کے تحت ابتدا میں ہی پھنسا دیا گیا۔ یہ بظاہر آسان دکھائی دینے والا لیکن درحقیقت ایک مشکل کام ہے۔ یہ مشکل کام آسان تب ہوگا جب پاکستان کی بھاگ دوڑ ایسی قیادت کے ہاتھ میں ہو جس کو بیرونی قوتیں کنٹرول اورمنیج نہ کرسکیں۔ ہمارا ’’المیہ‘‘ ہماری قیادت ہے۔ قیادت کے منصب پر فائز لوگ ’’کٹھ پتلیاں‘‘ ہوں گی تو قوم کی کشتی ہمیشہ بیچ منجدھار ہی رہے گی ‘ گزشتہ76 برسوں میں ہم نے ایسے ہوتے دیکھا ہے۔ منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ پاکستان میں سب سے پہلے کرنے والا کام ’’جیوڈیشل ریفارمز‘‘ کا ہے۔ نظام انصاف میں اصلاحات کا مطلب ہے کہ عوام کو سستا اور فوری انصاف فراہم کیا جائے اور اس کے لئے بڑی اور انقلابی تبدیلیوں سے گریز نہ کیا جائے۔ قانون کی زبان انگریزی کی بجائے اردو کی جائے‘ زیادہ تر مقدمات میں ذاتی پیشی یعنی ذاتی وکالت کو ترجیح دی جائے اور کوشش کی جائے کہ زیادہ مقدمات ’’پہلی پیشی‘‘ پر ہی نمٹا دیئے جائیں۔ یونین کونسل کی سطح پر جج‘مجسٹریٹ یا قاضی کا تقرر کیا جائے تاکہ انصاف کی فراہمی عوام کی دہلیز پر ممکن ہو اور جھوٹی گواہیوں سے بچا جاسکے۔ پولیس کو بے لگام ہونے سے بچانے کیلئے پبلک سیفٹی کمیشن جیسے اور مینجمنٹ کو فعال کیا جائے۔ پولیس کی انوسٹی گیشن بہتر بنانے اور جھوٹے مقدمات سے نجات کیلئے احتساب کا کڑا نظام وضع کیا جائے۔ قانون آسان فہم بنانے اور اس کی پیچیدگیاں ختم کرنے کیلئے قوانین کو ازسر نولکھا جائے۔ قانون کی گرفت اور امیر و غریب اور طاقتور و کمزور پر یکساں رکھنے والے نظام انصاف سے ہی ایک خوشحال معاشرے کی تشکیل کی توقع کی جاسکتی ہے۔ پولیس نظام کو بہتر بنانے کیلئے ایک سنجیدہ کوششیں2018 ء میں کی گئی جب عدالت عظمیٰ کی ہدایت پر لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کے تحت ریٹائرڈ پولیس افسران پر مشتمل پولیس ریفارمز کمیٹی بنائی گئی جس نے اکیسویں صدی کے تقاضوں کے مطابق پولیس کو ڈ ھالنا تھا۔ اس کمیٹی کو تین ایریاز میں اپنی سفارشات مرتب کرنا تھیں جن میں ماڈل پولیس لاء کا ڈرافٹ تیار کرنا اور پولیس کے احتساب اور آپریشنل معاملات کو بہتر بنانا شامل تھا۔ اس کمیٹی کی سفارشات لاء اینڈ جسٹس کمیشن کے پاس موجود ہیں جن پر تاحال عملدرآمد نہیں کیا جاسکا۔ یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ انصاف کے نظام کو بہتر بنائے بغیر پاکستان کا مستقبل مخدوش ہی رہے گا۔ معیشت اور معاشرت کی درستگی کی باتیں ہوا میں قلعہ بنانے کے مترادف ہیں جب تک کہ انصاف کی برق رفتار فراہمی کا نظام تشکیل نہیں پاتا۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق قائم کردہ نظام انصاف ایک مضبوط اور خوشحال پاکستان کی ضمانت ہوگا۔

متعلقہ خبریں