اسلام اور اسلامی ممالک ایک عرصے سے عذاب میں پھنسے ہوئے ہیں۔دھماکے کہیں ہو، بم کہیں پھٹیں اس کا الزام اسلام یا مسلمانوں پر لگا کر ایسا ظلم کیا جاتا ہے کہ اس کی ماضی قریب کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ اسلام پر تو چند لوگوں کا الزام لگا کر اتنا شدید ظلم و ستم کیا جاتا ہے کہ ہمارے دین کی سب سے مقدس چیز قرآن مجید کی تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد کسی نہ کسی ملک میں توہین کرکے ہم مسلمانوں کی دل آزاری کی جاتی ہے۔جس کی نہ تو مردود شخص خود معذرت کرتا ہے اور نہ ہی سفارتی سطح پر اس ملک کی حکومت معافی مانگتی ہے جب کہ ہماری کوئی غلطی نہ ہونے کے باوجود بھی ناکوں چنے چبوائے جاتے ہیں۔جب 2001ء میں 9/11 والا واقعہ ہوا اور اس کی سزا ہمارے پڑوسی اسلامی ملک افغانستان کو دی جانے لگی تو مجھے انڈیا کے مشہور شاعر (نام اب فوری طور پر یاد نہیں آ رہا) کا ایک شعر بار بار یاد آتا تھاوہ شاعر صاحب کسی کمرے میں موم بتی جلا کر اپنا دیوان لکھ رہے تھے کہ ایک پروانہ اڑتا ہوا آیا اور موم بتی پر گرا۔جس سے موم بتی بجھ گئی اور پروانہ جل کر راکھ ہو گیا تو شاعر صاحب نے کہا:
الٰہی آگ ہی لگ جائے اس ذوق محبت کو جلے کوئی مرے کوئی اندھیرا میری محفل میں اسلام کو شروع دن سے ناکردہ گناہ کی سزا دی جاتی رہی۔ہم اب بھی احتجاج ضرور کر رہے ہیں لیکن اس پرعملی اقدام کی ضرورت ہے۔ہم بحیثیت مسلمان مجموعی طور پر یہ فیصلہ کر لیں کہ جو بھی ملک ہمارے مذہب کی کسی صورت میں توہین کرے گا جب تک وہ سفارتی سطح پرمعافی نہیں مانگے گا تب تک اس ملک سے تمام مسلم ممالک کسی قسم کی کوئی تجارت نہیں کریں گے۔اگر وہ معافی نہ مانگیں تو کم از کم تب تک کوئی لین دین نہ کریں۔ہم کسی بات پر عمل نہیں کرتے بلکہ عمل کرنے سے ہمارا دور کا بھی واسطہ نہیں۔ مسلمانوں کے زوال نے کفار کو شہہ دی ہے، مرے کو مارے شاہ مدار والا معاملہ ہے۔ مغربی طاقتیں شاہ مدار کا کردار ادا کررہی ہیں اور مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچا رہی ہیں۔ مذہبی حوالے سے انھیں کوئی مسئلہ نہیں۔ مسلمان ویسے بھی اس معاملے میں بے ضرر ہیں وہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ انجیل مقدس کی بے حرمتی کریں۔ مسلمانوں کے لیے دنیا کے تمام مذاہب قابل احترام ہیں۔ تمام پیغمبروں اور آسمانی کتابوں پر ایمان لانا مسلمان ہونے کے لیے ضروری ہے، ایمان مجمل اور ایمان مفصل میں اس کی تفصیل موجود ہے۔عیسائی حضرت عیسیٰ کو اللہ کا بیٹا مانتے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی ذات رشتوں سے پاک ہے وہ واحد ہے، یکتا ہے اور بڑی قدرت والا ہے، سورہ اخلاص میں اللہ وحدہ لاشریک کی مکمل تعریف بیان کی گئی ہے۔اس بات سے مسلم اور غیر مسلم سب واقف ہیں کہ قرآن پاک کا ہر لفظ سچا ہے اسی لیے مخالف قوتیں خائف رہتی ہیں اور قرآن پاک کی بے حرمتی کرنے کے لیے شرپسندوں کو اکساتی ہیں کہ وہ مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کریں تاکہ فتنہ و فساد پھیلے اور ہنگاموں اور مسلمانوں کے احتجاج کو دہشتگردی کا نام دے کر طاقت کے بل پر انھیں جانی ومالی نقصان پہنچائیں۔تبلیغ دین کا فریضہ ہر مسلمان پر واجب ہے تاکہ جو غیر مسلم ہیں انھیں اسلام کی حقانیت سے آگاہ کیا جائے۔ ہمارے ملک کے قابل احترام علماء بیرون ممالک میں جاکر اسلام کا پیغام پہنچا رہے ہیں اس کوشش کے نتیجے میں اللہ کی مہربانی سے کفار دائرہ اسلام میں ندامت کے آنسو بہاتے ہوئے داخل ہوتے ہیں اور ماضی کے گناہوں کا احساس کرکے گھنٹوں اشکبار رہتے ہیں گو کہ اللہ تعالیٰ جو کہ بڑا مہربان اور رحیم ہے وہ نو مسلموں کو ایسی زندگی میں داخل کردیتا ہے جہاں وہ ہر گناہ سے پاک اور نوزائیدہ بچے کی مانند ہوجاتا ہے۔ پھر یہی مسلمان دین کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور افسوس جو نسلاً مسلمان ہیں وہ برے کاموں میں ملوث ہیں اور اپنے مذہب کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ہیں، جاننے کے لیے شوق اور ولولہ کی ضرورت ہے،۔قرآن پاک کا ترجمہ باوضو ہوکر توجہ سے سنیں تو یہ بات سو فیصد درست اور آزمودہ ہے کہ دنیا ہی بدل جائے گی۔ ایک ایسی دنیا خوش آمدید کہے گی جہاں سکون ہے، عزت و مرتبہ ہے، دولت ہے۔ اللہ فرماتا ہے کہ تم ایک قدم آگے بڑھاؤ میں دس قدم آگے آؤں گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مالک حقیقی کو انسان کی نیتوں کا علم ہے وہ علم و عرفان فتح ونصرت اور دولت و ثروت کے دروازے کھول دیتا ہے۔ صدقہ و خیرات رزق کو بڑھاتے ہیں، اللہ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ ”جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور خرچ کرکے پھر احسان نہیں جتاتے، نہ دکھ دیتے ہیں ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور ان کے لیے کسی رنج اور خوف کا موقع نہیں۔ ایک میٹھا بول اور کسی ناگوار بات پر ذرا سی چشم پوشی اس خیرات سے بہتر ہے جس کے پیچھے دکھ ہو اللہ بے نیاز ہے اور بردباری اس کی صفت ہے۔ (البقرہ263) آج کا دور فتنوں کا دور ہے، اقربا پروری، جھوٹ، بددیانتی عروج پر ہے۔ زندگی کے تمام معاملات میں یہ برائیاں خوب پنپ رہی ہیں۔ مسلمانوں نے آپس کی رنجشوں اور مختلف فرقوں میں بٹ کر اپنے آپ کو بے حد کمزور کرلیا ہے۔اب دشمنانِ اسلام جو چاہتے ہیں کرتے ہیں اور مسلمانوں کے جان و مال کے سخت ترین دشمن بن کر سامنے آتے ہیں۔ ویسے تو تاریخ گواہ ہے جب بھی مسلم حکمران اور عوام عیش و عشرت میں مبتلا ہوئے دشمنان اسلام نے ان سے ان کی عزت، خودداری، آزادی اور تعیشات زندگی کی ہر چیز چھین لی اور وہ سڑکوں پر آگئے۔ شہزادے، شہزادیاں بھیک مانگنے پر مجبور ہوئیں۔ بہادر شاہ ظفر جو کہ مغلیہ سلطنت کے آخری تاجدار تھے ان کی غفلت نے انھیں قید و بند کی صعوبتوں میں مبتلا کیا بلکہ شاہی خاندان بکھرگیا اور برے انجام کو پہنچا۔ ایک بار پھر تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے، مساجد میں مسلمانوں کا عبادت کرنا مشکل ہوگیا۔ واقعات تو پوری دنیا میں ایسے سامنے آرہے ہیں جن میں مسلمانوں کو ذلت سے دوچار کیا جارہا ہے۔ پیروں میں روندتے ہوئے کوئی جھجک نہیں ہے۔ اس قسم کے حالات پیش آنے کے باوجود مسلم حکومتیں خاموش ہیں بلکہ ان کی اسلام دشمنوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ان کے ساتھ تجارت کرنے میں مصروف ہیں۔ انھیں فائدے پہنچانے میں پیش پیش ہیں۔ اللہ نے سورہ نور میں فرمایا ہے کہ رسولﷺ کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ڈرنا چاہیے کہ وہ کسی فتنے میں گرفتار نہ ہوجائیں لیکن صد افسوس یہ زمین فتنوں کی آماجگاہ بن گئی ہے۔ اللہ ہی اپنا رحم عطا فرمائے آمین۔