عباسی خلفا کےدورمیں جب بدعت وظلم کی سیاہ وحشت ناک راتوں نے دین اسلام کے اجالے میں عظیم فتنہ ’’خلق قرآن‘‘کے نام سے بگاڑ پیداکرنے کی کوشش کی تواس زمانے کی ظالم حکومت نے اپنے پورے قہروجبرکے ساتھ کلمتہ الحق کہنے والوں کی زبانیں کاٹ کران کے منہ زرو جواہرسے بھرناشروع کردیئے۔اپنے اقتدار کی طوالت کی خاطررسن وداراور فولادی زنجیروں کی بھرمارکرڈالی اوراہل دہشت کی بنا پرخوفِ خدا کی شاہراہ کوسنسان کرنے کاہمہ وقتی عمل شروع کر دیا۔جہادوغیرہ کادرس دینے والے سہمی ہوئی بھیڑوں کی طرح ایک کونے میں سرچھپائے ہوئے تھے۔اس زمانے میں عام مسلمان ’’علما‘‘ کو گوشہ سکوت میں سرچھپائے ہوئے دیکھ کربڑی دلسوزی کے ساتھ اس بات کی گڑگڑا کر دعا مانگ رہے تھے کہ کوئی توخداکابندہ ایساہوجواس ظلم وباطل کاحق وراستی کے ساتھ مقابلہ کرسکےاوراس امت کو آخرت میں محمد عربیﷺکے سامنے شرمندہ ہونےسےبچالے۔
تاریخ گواہ ہے کہ اس لرزہ خیزمحاذپراللہ نےاپنے بندو ں کی مناجات،التجائیں بہت قریب سے سنیں اوراس بستی میں سے ایک مجاہد نے اس جہاد میں کود کر اس خون آشام جابراور ایمان کش اقتدار پرکلمتہ الحق کی ایسی بجلیاں گرائیں کہ کفرکاسارا سیاہ دامن اور بدعت وظلمت کا پوراوجود لرزنے لگا۔جب اس بندہ خدانے ظلم وجبرکی آندھیوں میں حق پرستی اورحق گوئی کے چراغ اپنے لہو اوراشکوں سےجلانےشروع کئےتوان دنیادار، ظلمتوں کے علمبرداروں نے اپنی پوری کوشش کرڈالی کہ اس روشنی کوزروجواہر، اقتدار اور منصب کی لالچ سےڈھانپ کربجھا دیا جائےلیکن “وہ” جان چکا تھاکہ’’خوف خدا‘‘ دنیا کےتمام مصائب سےنجات دلا دیتاہے۔اس لئے اس نے’’خوفِ خدا‘‘ سے اپنے دل کومزین کر لیا۔اس مردِ مومن نے خوفِ خداکی ضربِ کلیمی سے خوفِ دنیاکے پرخچے اڑادیئے۔اس مردِ مومن کویہ علم تھا کہ اس عمل کے بعد اس کے وجودکے پرزے اڑادیئے جائیں گے لیکن ایمانی جوش دنیاوی ہوش پرہمیشہ سبقت لیجاتاہے اوراس کے دل پریہ پیغام پہنچ چکاتھاکہ: یہ قدم قدم بلائیں یہ سواد کوئے جاناں وہ یہیں سے لوٹ جائے جسے زندگی ہوپیاری جاہ واقتدارکی مکروہ پیشانی جس کی نگاہوں نے ہمیشہ اپنے سامنے سرجھکتے ہوئے دیکھے تھے،ایک مردِ حق کا باطل کے سامنے اٹھا ہوا سردیکھاتو بیشماربل آگئے،نخوت وتکبرنے اس تنہا گردن وجبیں کوجھکانے کیلئے اپنی پوری طاقت کا اظہار اس طرح کیاکہ منوں وزنی لوہے کی زنجیروں میں پابجولاں کرکے شہرکی گلیوں میں گھمایا۔ موت کی ہلاکت آفرینیاں ہر وقت اس مردِ حق کے سرپرمنڈلارہی تھیں،اس وقت بھی اس عظیم الشان مردِ مجاہد کے چہرے پرایسی مسکراہٹ تھی جس نے اس کے چہرے کے بےحجاب حسن وجمال میں اس قدر اضافہ کردیاکہ باطل کے پروردہ منافقین اپنے چہروں کی سیاہی کوچھپانے کیلئے گھروں کے تاریک کونوں کھدروں میں چھپ گئے لیکن اس مردحق کی عاجزی اورانکساری کا جلال پکارپکارکرکہہ رہاتھاکہ حق کومٹانےوالےخودمٹ جاتے ہیں اورحق کی خاطرموت کو گلےلگانے والے ابدی زندگی سے ہمکنارہوتے ہیں اوررہتی دنیاتک امرہوجاتے ہیں۔ عقوبت گاہ میں جب اس مردِ حق پرزندگی ہرطرح سے تنگ کردی گئی،رمضان المبارک کے صبرآزمامہینے میں اس فولادی عزیمت کے پیکر پرکوڑوں کی بارش نے خون کے چھینٹے اڑانے شروع کئے اورپھر کوڑے بھی ایسے کہ ہاتھی کی پشت پراگر برسیں تووہ بھی بلبلااٹھے لیکن اس عظیم شخص کے منہ سے کوئی کراہ،کوئی آہ اورنہ ہی کوئی بددعا کے الفاظ جاری ہوئے بلکہ وہ توان تمام چیزوں کواپنے دردکی توہین اوراس راستے پرچلنے کاانعام سمجھ رہاتھا۔اگراس کے منہ سے کوئی آوازنکلی تو یہی کہ: کتاب وسنت سے کوئی دلیل لاؤ،حالانکہ اس بھاری ابتلا کے موقع پرجب کہ خون آشام جبڑے ان کی ہڈیوں کوچبانے کیلئے اپنی پوری قوت صرف کرچکے تھے،حاکمِ وقت نےخودان کی عظمت کوسلام کرکےاپنی ہارماننے کیلئےیہ تجویز رکھی کہ اس معاملے پرخاموش ہوجاؤ،اس کی اگرتائیدنہیں کرسکتے توتردیدبھی نہ کرولیکن عزیمت کے اس پیکرنے آسمان کی طرف منہ اٹھا کراپنی اشک آلودنگاہیں اٹھاکراپنے رب سے فضل ورضاکی درخواست کی اورپھرزمین پرجھک کرقبروبرزخ کی دنیامیں جھانک کراپنی مظلومیت کے حسین ترین انجام کودیکھ کرجب حاکمِ وقت پرنگاہ ڈالی تواس کاساراشاہی رعب ودبدبہ،اس کاتخت وتاج اور اس کااپناوجودان نظروں کی تاب نہ لاسکا اوراس مغروربادشاہ کاساراوقاراس درویش کے قدموں میں ڈھیرہوگیا۔وہی ظلم وقہر کاپہاڑ جس نے تمام علمائے سوکواپنے گردجمع کر رکھاتھااورشرعی آڑکی رخصت میں تمام علمائےسوکوزرو جواہر کے بدلے اپناہمنوا بنارکھاتھا،منت سماجت پراترآیا لیکن اس مردِ مومن کی ایک ہی پکار تھی کہ: اگرکوئی دلیل کتاب اللہ اورسنت رسول اللہﷺ سے لے آؤتویہ سرنہ صرف اطاعت کیلئے جھک جائے گابلکہ قربان بھی ہوجائے گا وگرنہ ہم دونوں کے راستے بالکل الگ الگ ہیں۔ جب کوڑوں کی بارش نے جسم کی کھال ادھیڑدی، فولادی زنجیروں نے جسم پرخونچکاں بسیرا کرلیا،بھوک وپیاس کی اذیت نے قیامت کا ساماں پیداکردیا تو جسم پرغشی کی حالت طاری ہوگئی۔ آنکھ کھلنے پرکچھ علمائے سوکے ہاتھوں میں ٹھنڈا پانی دیکھاجو شریعت میں اس موقع پرپانی پینے کی گنجائش بتارہے تھے تاکہ زندگی بچ جائےلیکن عزیمت کےاس امام نےتاریخ سازجواب دے کر ’’میں روزے کی حالت میں اپنے رب سے ملنے کی خواہش وتڑپ رکھتاہوں ‘‘پانی کے اس پیالے کو نظروں سے دورکردینے کوکہا،انہی زخموں سے چوراپنے خالقِ حقیقی کے سامنے سجدہ ریزہوگئے اور دل سے جوہوک اٹھی کہ’’شریعت میں صرف رخصت ہی نہیں عزیمت بھی ہے۔اگرمیں رخصت کی راہ پکڑلوں توآخراس حدیث نبویﷺ پرکون عمل کرےگاکہ جس میں وضاحت کے ساتھ ختم الرسلﷺنے اپنے صحابہ اکرام کے مصائب کی فریادپرفرمایا کہ:تم سے پہلے ایسے لوگ گزر چکے ہیں جن کے سروں پرآرے چلادیئے گئے اور جسم لکڑی کی طرح چیردیاگیا،لوہے کے کنگھوں سے ان کے جسم کے گوشت کو نوچ ڈالا گیاپھربھی یہ تکالیف ان کوحق کے راستے سے نہ ہٹاسکیں‘‘۔ وہ علما جوشرعی رخصتوں کی آڑلے کر اس فانی دنیا میں چندروزخیریت سے زندگی گزارناچاہتے تھے وہ بھی اس مردِ مجاہدکو اپنا ہمنوانہ بناسکے کیونکہ ان کوعلم ہوگیاتھاکہ یہ اللہ کا سچارفیق طے کرچکا ہے کہ محض چندروزہ فانی زندگی کے مقابلے میں اخروی زندگی بدرجہا بہتر ہے۔ (جاری ہے)