اہم خبریں

قصہ سائیکل پر سفر کرنے والی بڑے کالج کی پرنسپل خاتون کا

٭ …قصہ بڑے کالج کی خاتون پرنسپل کاجو سائیکل پر روزانہ 26 کلو میٹر کا سفر کر کے کالج آتی جاتی ہےO آئی ایم ایف کا 12 اکتوبر کا ایگزیکٹو اجلاس، ایجنڈے میں پاکستان کا نام ہی نہیں تھا، آج دوسرے اجلاس میں امکان ہےO عمران خان کے خلاف تین دہشت گردی کے تین نئے مقدمہ، کل تعداد83 ہو گئی!!O وزیراعظم سے آزادی صحافت کے سوالپر رپورٹر کی ملازمت ختم!! وزیراطلاعات کی تاویلات!O اگلا وزیراعظم بلاول زرداری ہو گا، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا اعلانO طوفانی بارشیں، راوی، چناب، ستلج میں سیلاب سے ہزاروں ایکڑ فصلیں زیرآب، 14سے 17 جولائی تک مزید بارشوں کی پیش گوئی، بھارت میں بارشوں، پہاڑی سلائڈنگ سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 91 ہو گئی، بھارتی پنجاب میں زیادہ نقصان O کویت: سویڈن کی زبان میں قرآن مجید کے ایک لاکھ نسخے شائع اور تقسیم کرنے کا اعلانO سٹاک ایکس چینج، حد 45155 تک بڑھ گئی، مزید اضافہ کا امکانO اسمبلیاں 8 اگست کو تحلیل کی جائیں، پیپلزپارٹیO پختونخوا، اے این پی اور مولانا کے سمدھی گورنر میں سخت کلامی، بدتہذیبی کے الزاماتO مولانا اور پختونخوا، اے این پی اور مولانا کے سمدھی گورنر میں سخت کلامی، بدتہذیبی کے الزامات O مولانا اور ن لیگ میں مفاہمت کا امکان، دبئی میں نظر انداز ہونے کے بعد مولانا کو ایک اور جھٹکے کا امکان، نگران وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کے تقرر کے لئے آئینی طور پر مولانا سے مشاورت کی ضرورت نہیں، صرف وزیراعظم اور اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر مشاورت کریں گےO چودھری شجاعت حسین کی جیل میں پرویزالٰہی سے تیسرے ملاقات، پرویزالٰہی عمران خان کا ساتھ چھوڑنے پر رضا مند، بینکنگ کورٹ نے ضمانت منظور کر لیO پشاور، ایک تقریب، طالب علم نے تقریر میں وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھنے کی خواہش اور جدوجہد کا اعلان کیا، وزیراعظم شہباز شریف نے اسی وقت اپنی کرسی پر بٹھا کر شوق پورا کر دیاO ’’میں جہاں جاتا ہوں، استقبال کرنے والے سمجھتے ہیں بھیک مانگنے آ گیا ہوں‘‘ شہباز شریف کا کھلا اعترافO ستلج میں پانی کی سطح 20 فٹ سے زیادہ ہو گئیO سینٹ کمیٹی میں نئے صوبوں کا بِل! جنوبی پنجاب، ہزارہ کے نئے صوبے! آئین میں ترمیم ضروری ہو گیO جھنگ: عمران خان کی بہن عظمیٰ خان کے خلاف 300 کنال اراضی پر ناجائز قبضہ کا نیا مقدمہ، 9 ملزم نامزد، نائب تحصیلدار اور پٹواری گرفتار۔
٭ …محترم معزز قارئین، بُرا ہو بے تکی سیاسی فضولیات کا، میرا اصل زندگی آمیز صحافت سے دھیان ہٹا دیا! شرم سار ہو رہا ہوں کہ پانچ چھ روز سے ایک اہم زندگی آموز واقعہ کی تشہیر ہو رہی ہے اور میں اسے نظر انداز کر کے تیسرے چوتھے درجے کی نام نہاد سیاست پر کالم ضائع کرتا رہتا ہوں! واقعہ یہ ہے لاہور کے ایک بڑے اور معروف ’’مردانہ گورنمنٹ ایم اے او کالج‘‘ کی اعلیٰ ترین تعلیم یافتہ خاتون پرنسپل محترمہ ’عالیہ رحمان‘ سرکاری اور ذاتی گاڑیاں ہونے کے باوجود بائیسکل پر روزانہ 13 کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے کالج آتی اور پھر 13کلو میٹر کا بائیسکل پر ہی واپس سفر کر کے گھر جاتی ہیں۔ انہیں سرکاری طور پر اعلیٰ گاڑی، سرکاری ڈرائیور اور مفت پٹرول کی سہولت میسر ہے مگر وہ اپنے سائیکل پر سفر کرنا پسند کرتی ہیں۔ پہلے ان کا تعارف سن لیجئے، جناب محترمہ عالیہ رحمان نے پنجاب یونیورسٹی سے ’’بائیو فزکس‘‘ میں ایم ایس اور ’ایم فل‘ کے بعد اسی ایم اے او کالج میں چھ سال (1967ء سے 2003ء) لیکچرار رہیں۔ 2004ء میں آسٹریا کی سائنس کی مشہور یونیورسٹی سے چار سال میں پی ایچ ڈی (PHD) کی ڈگری لی، ملائیشیا، شارجہ، لَمز لاہور اور پنجاب کی یونیورسٹیوں میں پڑھایا۔ تین سال قبل ایم اے او کالج کی پرنسپل کے طور پر کام سنبھال لیا۔ مکمل پروفیسر بن چکی ہیں۔ پانچ زبانیں، اُردو، انگریزی، جرمن، ہندی اور پنجابی جانتی ہیں (جرمن آسٹریا کی سرکاری زبان ہے) بین الاقوامی سطح پر متعدد سائنس کی کانفرنسوں میں شرکت کی ہے۔ عالمی سطح پر بڑے بڑے سائنس دانوں سے رابطے ہیں۔ درجنوں اعلیٰ پایہ کے مضامین چھپ چکے ہیں۔ اور اہم ترین بات کی جوں جوں علم و فضل میں اضافہ ہوتا چلا گیا، طبیعت میں سادگی اور درویشی بڑھتی گئی۔ ان کی علمی شان اور فضیلت کے سامنے ظاہری رسمی شان و شوکت کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔ ان کے آنے کے بعد ان کی مادرانہ شفقت اور طالب علموں کی مخلصانہ رہنمائی اور محبت کا اثر یہ ہوا ہے کہ ایم اے او کالج جہاں آئے دِن ہنگاموں اور لڑائی جھگڑوں کا مرکز بنا رہتا تھا وہاں محترمہ عالیہ رحمان صاحبہ کے آنے کے بعد آج تک کوئی ہنگامہ نہیں ہوا، تمام طالب علم انن کی حقیقی ماں کی طرح عزت کرتے ہیں۔ نہ صرف طلبا، کالج سے باہر ٹریفک کا عملہ بھی ان کا اتنا احترام کرتا اور خیال رکھتا ہے کہ ان کا سائیکل آتا دیکھ کر ٹریفک روک کر انہیں سلام کرتے اور بحفاظت سڑک پر سے گزارتے ہیں۔ تین برسوں میں انہیں ٹریفک میں رکنے کا کوئی مسئلہ پیش نہیں۔ یہاں علامہ اقبال یاد آ گئے، گھر میں دھوتی اور بنیان پہنے بیٹھے ہوتے تھے اور بڑے بڑے وزیر، زمیندار اور سیٹھ لوگ انہیں سلام کرنے آتے تھے۔ جس روز علامہ کا انتقال ہوا، پورے انڈیا کے 29 صوبوں کی ہائی کورٹیں بند ہو گئی تھیں۔ یہی عالم عبدالستار ایدھی کا! کبھی نئے کپڑے اور جوتے نہیں پہنے، جن لاوارث لاشوں کو نہلا کر کفن پہناتا اور دفن کرتا ان کے اترے ہوئے کپڑے اور جوتے پہن کر زندگی گزار دی، اور جب اپنا انتقال ہوا تو پاکستان کی تینوں مسلح افواج کے سربراہوں نے تابوت کو کندھوں پر اٹھایا!! یہ شان قلندری ہے۔ اس شان اور مرتبے والے لوگ عام دنیاوی رسمی شان و شوکت سے بے نیاز ہو جاتے ہیں۔ میں دلی طور پر محترمہ عالیہ رحمان صاحبہ کو سلام کرتا ہوں! ٭ …اور عام سیاسی باتیں!! پاکستان کے وزیرخارجہ یکم سے چار جولائی تک جاپان میں رہے، نجی کام انجام دیئے، ایک آدھ سرکاری ملاقات دکھادی، دورہ سرکاری ہو گیا۔ پھر جاپان سے ہی نجی دورہ پر ایک ہفتہ کے امریکہ چلے گئے، وہاں کیا نجی کام تھا؟ کچھ پتہ نہیں، دنیا بھر کا واحد وزیرخارجہ جو11 روز ملک سے غیر حاضر رہا۔ گزشتہ روز اسلام آباد کی ایک کانفرنس سے ذاتی طور پر نہیں، رسمی ورچوئل خطاب کیا۔ یہ معلوم نہیں ہو سکا، کہاں سے کیا؟ اب ذرا وزارت خارجہ کا حال دیکھیں! وزیرخارجہ امریکہ میں، نائب وزیرخارجہ حنا ربانی لاپتہ، سیکرٹری خارجہ اسد مجید انڈونیشیا میں، غالباً حنا ربانی کھر نے بھی انڈونیشیا ہی جانا تھا۔ وفاقی کابینہ میں 91 وزرا، مشیران اور وزارت خارجہ میں ہُو کا عالم! کوئی والی وارث نہیں! ٭ …لاہور میں ایک تماشا: وزیراعظم شہبازشریف نے گورنر ہائوس میں پریس کانفرنس کی۔ لاہور پریس کلب کے صدر اعظم چودھری نے سوال کیا کہ ’’ملک میں آزادی صحافت اور آزادی رائے پر پابندیاں کب ختم کی جائیں گی۔‘‘ وزیراعظم نے تفصیل سے پابندیوں کی تردید کی۔ اعظم چودھری پریس کلب واپس پہنچے تو اطلاع ملی کہ سرکاری ٹیلی ویژن ’پی ٹی وی‘‘ پر سیاسی تجزیاتی کمیٹی میں ان کی رکنیت ختم کر دی گئی ہے، آئندہ پی ٹی وی آنے کی زحمت نہ کریں۔ خبر ابھری تو وزیراطلاعات مریم اورنگزیب کی وضاحت آ گئی کہ ’’اعظم چودھری پی ٹی وی کے باقاعدہ ملازم نہیں تھے ان کی ملازمت ختم کرنے کی بات بے معنی ہے۔‘‘ میں اس پر صرف ایک لائن میں رائے کا اظہار کر رہا ہوں کہ مجھے یوں لگا ہے جیسے فردوس عاشق اعوان پھر وزارت اطلاعات پر قابض ہو گئی ہے! آزادی اظہار! ابھی کل ہی ایک لاپتہ نجی ٹی وی رپورٹر کو چھ دن لاپتہ رکھنے کے بعد گزشتہ رات نصف رات کے وقت ان کے گھر پر چھوڑا گیا ہے۔

متعلقہ خبریں