اہم خبریں

عالمی ثالثی عدالت میں پاکستان کی اہم کامیابی

(گزشتہ سے پیوستہ) ہندوستان کا کہنا ہے کہ کشن گنگا اور رتلے پراجیکٹس سے متعلق تنازعہ پر ایک غیر جانبدار ماہر پہلے ہی ”موجود” ہے۔غیر جانبدار ماہرین کی آخری میٹنگ 27-28 فروری 2023 کو دی ہیگ میں ہوئی تھی۔ غیر جانبدار ماہرین کے عمل کی اگلی میٹنگ ستمبر 2023 میں ہونے والی ہے۔بھارت اس بہانے ہیگ کی عدالت کے دائرہ اختیار پر سوال اٹھا کر حقائق پر پردہ دالنے اور سندھ طاس معاہدے کی کھلی خلاف ورزی کی راہیں تلاش کر رہا ہے۔ بھارت کے پاس ایک طاقتور اور تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہے جو جنوبی ایشیا میںآئیندہ چند برسوں میںایٹم بم سے بھی زیادہ موثراسلحہ کے طور پر متعارف ہو رہا ہے۔جدوجہد آزادی کو کچلنے کی سرتوڑ کوشش اورمسلہ کشمیر کی ہئیت تبدیل کرتے ہوئے پاکستان کی جانب بہنے والے دریائوں کا پانی روک کر یا ان کا رخ موڑ کر بھارت یہ ہتھیار پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے ۔
چین کے بارے میں بھی بعض رپورٹس میں بتایا گیا کہ وہ بھارت کی جانب بہنے والے دریائوں کا پانی روکنے یا ان کا رخ موڑرہا ہے۔چین کی طرف سے تبت کے راستے جو دریا بھارت کی جانب بہتے ہیں ان پر متعدد مقامات پر چین نے بجلی پروجیکٹ قائم کئے ہیں۔بھارت نے پاکستان کی جانب بہنے والے دریائوں کا رخ موڑنے کا عمل کئی سال پہلے شروع کیا ہوا ہے۔ لاہور میں دریائے راوی میں کشتیاں چلتی تھیں، وہاں آج صرف ریت دکھائی دیتی ہے۔بھارت نے خطے میں پانی کو بطور جنگی ہتھیار استعمال کرنے کی پہل کی ہے۔دریائے جہلم، دریائے چناب اور دریائے نیلم پر پہلے لا تعداد ڈیم تعمیر کئے اور پھر ان دریائوں کا رخ موڑنے کا سلسلہ شروع کیا۔ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کے حصے کا پانی بھی بند کردیا۔ اس معاہدے کی آڑ میںپاکستان کی جانب بہنے والے تین دریا مکمل خشک کر دیئے گئے۔ ہندوستان وسائل کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی راہیں ہموار کر رہا ہے۔آزاد کشمیر میں، چین پانچ ڈیموں کی مالی اعانت اور تعمیر کررہا ہے۔پانی کے اشتراک سے متعلق باہمی طے شدہ تنازعات کے حل کے میکانزم کی موجودگی، اور بین الاقوامی تنازعات کے حل سے انکار کے ساتھ، بھارت کے پاس کون سے سفارتی حل دستیاب ہو سکتے ہیں۔ جب پاکستان کے ماہرین کشن گنگا ڈیم کا جائزہ لینے سائٹ پر گئے تو اس کے فوری بعد بھارت نے پلوامہ دھماکے کئے جس میں اپنے ہی 50سے زیادہ فوجیوں کا ہلاک کر دیا گیا۔ پلوامہ کو مودی نے اپنی سیاست اور سفارتکاری کے لئے استعمال کیا۔ اس کے بعد پاکستان کے ماہرین کے دوروں پر روک لگا دی اور کشن گنگا ڈیم تعمیر کر لیا۔ دریا کا رخ بھی موڑا گیا۔ اگر چین بھی مصنوعی جھیل نما پانی چھوڑے توبھارت کے کئی علاقے زیر آب آکر تباہ ہو سکتے ہیں۔ پریچو جھیل کے جون 2020 میں اس وقت ٹوٹنے کا خدشہ پیدا ہوا جب دریا میں 12 سے 14 میٹر تک اضافے کا مشاہدہ کیا گیا۔بھارت نے بھی تعمیر کردہ ڈیموں کو ضرورت سے زیادہ اونچا کیا ہے۔ کشمیر اور آبی تنازعات کو بین الاقوامی تنازعہ کے تصفیے کے طور پر حل کرنے سے گریز کی راہ اختیار کی ہے۔ پاکستان اس صورتحال میں بہنے والے ندی نالوں، بارش کے پانی اور سمندر کے پانی کو پینے اور آبپاشی کے لئے بروئے کار لانے کی طرف ہنگامی طور پر توجہ دے۔ پاکستان ایسے ممالک کے اتحاد کی رہنمائی کر سکتا ہے جنھیں مشترکہ پانی سے متعلق ایسی صورتحال کا سامنا ہے۔اس طرح کا اتحاد اجتماعی طور پر کسی بھی طرح کی خلاف ورزیوں پر معاشی پابندیاں عائد کرسکتا ہے۔ مشترکہ آبی وسائل کے باہمی تعاون اور مساویانہ استعمال کے لئے بھارت، جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیاء کے دیگر ممالک پانی کو جنگی ہتھیار کے بطور استعمال نہیں کرسکیں گے۔ بھارت کے جیو پولیٹیکل شطرنج میں پانی ایک ہتھیار بن رہا ہے۔بھارت کا ڈیمز بنانے کا پروگرام ماحول کو بھی تباہ کر رہا ہے اور اسے اپنے ہمسایہ ممالک کو زیر کرنے کے قابل بنا رہا ہے۔ سند ھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارت کے نیلم پر کشن گنگا ڈیم،چناب اور جہلم پر درجنوں ڈیم تعمیرکرنے سے پاکستان کی طرف بہنے والا پانی کم ہوگیا ہے ۔ پنچاب میں ہزاروں ایکٹر زمین کے لئے آبپاشی ناممکن بن کر رہ گئی ہے اور اس طرح یہ زمین بنجر ہوتی جارہی ہے۔ غرض دونوں ملکوں کے درمیان دوسرے تنازعات سمیت آبی تنازعہ دیرینہ اورسرفہرست ہے جس کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ بھارت کو عالمی ثالث عدالت نے نیلم دریا میں 9کیوبک میٹر پانی فی سیکنڈ رواں رکھنے کو کہا تھا جس پر عمل نہیں ہو ا۔ یہی وجہ ہے کہ نیلم میں پانی کا بہائو بہت کم ہو چکا ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی دھمکیوں کی جانب دنیا متوجہ نہ ہوئی۔ عالمی بینک کا کردار بھی مثبت نہیں رہا۔ عالمی بینک نے آبی تنازعہ کے حل کے لئے غیر جانبدار ماہر تقرر کرنے کی بھارتی درخواست منظور کی۔بھارت کو کشن گنگا ڈیم کی تعمیر مکمل کرنے کا موقع دیا گیا۔ جب نریندر مودی نے کہا کہ وہ سند ھ طاس معاہدہ ختم کر دیں گے اور پاکستان کا پانی روک دیں کے تو عالمی بینک یا کسی بھی عالمی فورم نے کوئی نوٹس نہ لیا۔ بھارت یک طرفہ طور پرعاہدے ختم کرنا چاہتا ہے جب کہ ان کی عالمی ضمانت بھی موجود ہے۔ عالمی بینک سندھ طاس معاہدہ کا ضامن ہے۔ جہلم ، چناب اور نیلم پر ڈیم اور بجلی گھروں کی تعمیر پر پاکستان اس لئے اعتراض کرتا ہے کہ یہ معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تعمیر کئے گئے۔ دریائے چناب پر بگلیہار ڈیم پر بھی بھارت نے وہی پالیسی اختیار کی جو 1978میں سلال پروجیکٹ پر عملائی تھی۔ جہلم، چناب اور نیلم دریا مقبوضہ کشمیر سے پاکستان کی طرف بہتے ہیں۔ بھارت نے مقبوضہ ر یاست پرناجائز قبضہ جما رکھا ہے۔ بھارت کو کشمیر کا پانی، وسائل کی ضرورت ہے۔ اسے عوام سے کوئی غرض نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی فورسزکشمیریوں کا قتل عام کرتے ہیں۔ بھارت دریائے چناب پر مجوزہ’’میار‘‘ ڈیم اور بجلی گھر منصوبے کے ڈیزائن میں تبدیلی کرنے پر رضامند ہوا تھا۔مگر اس پرقائم نہ رہا۔ بھارت کی سیاست میں پاکستان کو ہر قیمت پر نقصان پہنچانا سر فہرست رہتا ہے۔ مسلہ ایک میار ڈیم کے ڈیزائن کا ہی نہیں بلکہ چناب پر تعمیر ہونے والے پکال گل، کلنال منصوبے بھی مسلہ ہیں۔ ان کے ڈیزائن بھی پاکستان کے مفادات کو شدید نقصان پہنچانے کے لئے تیار کئے گئے۔ اگر بھارت چناب پر 48 میگاواٹ کے لوئر کلنائی منصوبے پر پاکستان کے موقف کی تائید کرتا ، جیسے کہ دعویٰ کیا گیا تو وہ ایسا ڈیزائن تیار ہی نہ کرتا۔ بھارت نے ہمیشہ پاکستانی ماہرین کو خوش فہمیوں میں مبتلا کرتے ہوئے اپنا الو سیدھا کر لیا۔ مذاکرات میں چناب پر 1000 میگاواٹ کے پکال ڈل منصوبے پر پاکستانی اعتراضات کو بھارت نے کسی کاخاطر میں نہیں لایا۔ یہ منصوبہ ایک ہزار میگاواٹ بجلی پہلے فیز میںپیدا کرنے کے لئے شروع کیا گیا ۔اس کے سپل ویز اور سٹوریج پر پاکستان کو اعتراض ہے۔ میار بجلی گھر کا پہلا فیز 120میگاواٹ کا ہے۔ اس کے

متعلقہ خبریں