بلائیں اورآفتیں جب نازل ہوتی ہیں تو وقت سے پہلے لوگوں کے دل دھڑکنے لگتے ہیں۔ دروازوں کے کواڑذراسے ہلیں توکسی غیرمرئی چیز کی آمدکااحساس ہوتاہے۔ذراسی تیز ہوا ہوتو خوفناک آندھی کاگمان ہونے لگتاہے۔اچانک کوئی غیرمعمولی واقعہ باربار ہونے لگے توبدشگونیاں نکالی جاتی ہیں۔انسان مدتوں سے بلکہ جب سے اس نے اس کائنات میں ہوش سنبھالاہے،آفتوں اور بلاؤں کے خوف سے آزادنہیں ہوسکا۔نصیب اور بدنصیبی ایک ایساگورکھ دھنداہے جسے انسان ازل سے آج تک حل کرنے کی کوشش کر رہاہے۔ ہر دفعہ بدنصیبی کی کوئی نہ کوئی تعبیرضرورہوتی ہے۔ کوئی اسے کسی ظلم،بربریت اوردرندگی کا شاخسانہ سمجھتاہے تو کہیں اسے ظلم پرطویل خاموشی اور چپ کی وجہ سے ایک سزاتصورکیاجاتا ہے۔ مدتوں لال آندھی کامطلب یہ سمجھاجاتاتھاکہ کہیں قتل ناحق ہوگیاہے۔
پھرگلیوں،بازاروں اورچوراہوں پراتنے ناحق لوگ قتل کئے جانے لگے کہ لال آندھی نے بھی شرمسار ہوکر نکلنا چھوڑ دیا۔مدتوں بڑے بوڑھے کسی شخص یا خاندان کے اجڑنے کی کہانی سناتے توبتاتے کہ اس خاندان کے فلاں شخص نے کسی پرظلم کیا۔کسی کاحق مارا،کسی یتیم کامال کھایا یاکسی مظلوم اوربے آسراشخص کاخون کیا۔ ایک ایسے ڈاکواورقاتل کی کہانی میرے اپنے بچپن میں میرے شہرمیں زبان زدعام ہوئی جسے پھانسی کی سزاہوئی تھی۔اس کی لاش گھرپہنچی تو اس کے خاندان کے لوگوں نے حیرت میں ڈال دینے والی داستان بیان کی۔اس کے والدنے پلوسے پسینہ پونچھتے ہوئے کہاکہ جب اسے پھانسی کی سزا ہوئی تومیں اس کے پاس گیا۔میں نے اسے کہاکہ تم قرآن پرقسم کھاکرکہوکہ یہ قتل تم نے کیاہے یا نہیں۔اس لئے کہ اگرتم نے قتل نہیں کیاتومیں اللہ کے کسی نیک بندے کے پاس جاکرعرض کروں کہ وہ تمہارے لئے دعاکرے تاکہ تم بے گناہی کے جرم اورسزاسے بچ جاؤ۔اس نے قرآن پر ہاتھ رکھ کرکہاکہ میں نے بہت قتل کئے، چوریاں کیں،مال لوٹالیکن جس قتل میں مجھے سزا ہو رہی ہے وہ میں نے نہیں کیا۔
باپ نے کہاکہ میں وہیں سے اٹھا اور ایک صاحب بصیرت بندے کے پاس چلاگیا۔اس نے دعاکیلئے ہاتھ اٹھانے چاہے توپھرجھٹک دئیے اورکہاوہ گائے کی بچی بہت تنگ کررہی ہے۔وہ بہت بلبلارہی ہے۔میں نے پوچھاحضرت یہ کیا فرما رہے ہیں؟کہنے لگے یہ تم اسی سے پوچھ لو۔وہاں جاکرپوچھاتواسے یادآیاکہ ایک دفعہ وہ کسی گاؤں سے ایک گائے چوری کرکے ساتھیوں کے ساتھ بھاگ رہا تھاکہ اس گائے کے پیچھے پیچھے ایک اس کی دودھ پیتی گائے کی بچی بھی آرہی تھی۔گائے اسے مڑمڑکردیکھتی اوراپنے پاؤں زمین میں گاڑ دیتی، جس سے ہمیں اسے کھینچنامشکل ہو رہا تھا اورپکڑے جانے کاخوف دامن گیرہوگیا۔میں نے بندوق نکالی اوراس گائے کی بچی پرفائرکرکے مار دیا۔ تھوڑی دیرتڑپ کربچی مرگئی ۔گائے خاموش سی رہی لیکن ایک دفعہ کچھ دیرآسمان کی طرف دیکھااورہمارے ساتھ چل پڑی۔باپ نے کہا بس میں اٹھ کرآگیاکیونکہ فیصلہ اس مالک کائنات کی طرف سے ہوچکا تھاجودکھی دلوں کی فریاد سنتاہے۔مجھے یقین تھاکہ اب اسے کوئی پھانسی سے نہیں بچاسکتا۔
گزشتہ چنددنوں سے جوخوف سراسیمگی میں اپنے اردگرددیکھ رہاہوں،لوگ ایک دوسرے سے سوال کرتے پھرتے ہیں کہ کیاہونے والا ہے؟ ہرکوئی آنے والے دنوں سے پریشان ہے۔ جس صاحب نظرسے ملووہ کہتاہے بلائیں نازل ہونے والی ہیں،آفتیں گھیرچکی ہیں۔ کوئی کہتاہے صفائی کاوقت ہے توکسی کی زبان پریہ لفظ ہیں کہ دو بہت بڑے سانحے ہمارے انتظارمیں ہیں۔اس ساری بے یقینی اور سارے خوف کے عالم میں یوں لگتا ہے کہ میری حالت بھی اس باپ کی طرح ہے جو پوچھتاپھررہاہوکہ کوئی توقسم اٹھاکر کہہ دے کہ اس نے کوئی جرم نہیں کیا۔کسی ظلم پربے حسی اورخاموشی اختیارنہیں کی لیکن ہمارے گزشتہ اور موجودہ صاحبان اقتداراور طاقت کے نشے میں بدمست حکمرانوں کے نامہ اعمال پرتو نامعلوم اور بے گناہ انسانوں کے خون کے ایسے دھبے ہیں کہ ڈرتا ہوں کہ آفتیں اوربلائیں یہاں گھرنہ کرلیں۔
لوگوں کوگھروں سے اٹھانے،غائب کرنے کاسلسلہ تاحال جاری ہے لیکن پتانہیں کیوں مجھے وہ دوننھے منھے معصوم بچے یاد آ رہے ہیں۔ یہ بچے اپنی ماں کی آغوش میں لپٹے سورہے تھے، دنیا ومافیہاسے بے خبران کی ماں بھی اسی طرح ان پر باربارلحاف اڑھا رہی ہوگی جیسے ساری دنیاکی مائیں کرتی ہیں کہ اچانک ان کے والدکی گرفتاری کیلئے گھرپرچھاپہ پڑا۔ باپ توگرفتارہوگیالیکن ان معصوم ننھے ننھے بچوں کوبھی ان کی ماں کی آغوش سے کھینچ کراس کے ساتھ ایسے مقام پر پہنچا دیا گیاجہاں سے ان کی آہوں ، ہچکیوں اورسسکیوں کی آواز بھی ماں تک نہ پہنچ سکی۔کیااس ماں نے اوراس جیسی ہزاروں ماؤں نے آسمان کی طرف منہ اٹھاکر آنسو بھری آنکھوں سے نہیں دیکھاہوگا۔وہ جن کی بیٹیوں کوکفن تک نصیب نہ ہو سکاجواپنی بیٹیوں کے چہرے تک نہ دیکھ سکے کہ انہیں جلاکر بھسم کردیاگیاتھا۔وہ مائیں جوننگے پائوں برفانی پہاڑوں میں اپنے بچوں کواٹھائے خوف سے بھاگی ہوں گی۔کس کس نے اس آسمان کی طرف منہ اٹھا کر نہیں دیکھاہوگا۔پتہ نہیں کس کے آنسو اورکس کی بے کسی اس رب کائنات کے غضب کاباعث بنی ہے کہ ارضِ وطن پربلاؤں کی بارش تھمنے کانام ہی نہیں لے رہی۔ہرکوئی ایک دوسرے سے سوال کرتاپھررہاہے،کیاہونے والا ہے، آفت کے آثارکیوں ہیں،بلاؤں کاخوف کیوں ہے؟محشر بدایونی کا شعر یادآرہاہے:
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کافیصلہ
جس دئیے میں جان ہوگی وہ دیارہ جائے گا
ہواؤں کے فیصلے کوٹالنے کاایک ہی راستہ میرے اللہ نے بتایا ہے، گڑگڑا کر، آنسو بہاکر، عجزوانکسارکے ساتھ پوری قوم معافی کی طلبگار ہوتو غضب رحمت میں بدل جاتاہے لیکن قوم کو یہ درس کون دے جودرس دے سکتاہے وہ توحالات کو خود بدلنے کے دعوے کررہے ہیں۔