ہیگ ، ہالینڈ میں قائم مستقل عدالت برائے ثالثی یاعالمی ثالثی عدالت نے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشن گنگا اور رتلے پن بجلی منصوبوں سے متعلق پانی کی تقسیم کے6 دہائیوں پرانے معاہدے سے جڑے تنازع پربھارت کا پرمیننٹ کورٹ آف آربیٹریشن کے دائرہ اختیار پر اعتراض مسترد کرتے ہوئے سات سال بعد پاکستان کی درخواست منظور کرلی۔جو کہ حکومت پاکستان کو بڑی کامیابی ہے۔اس پیش رفت کو پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات پر اپنی اہلیت کو آگے بڑھانے کا راستہ قراردیا جا رہا ہے جو کہ سندھ طاس معاہدے کی تشریح اور اطلاق پر مبنی ہے۔ثالثی عدالت نے اہلیت کو برقرار رکھتے ہوئے یہ طے کیا کہ اب وہ تنازعات اور مسائل حل کرنے کے لیے آگے بڑھے گی۔ سندھ طاس معاہدہ پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی تقسیم کا ایک بنیادی معاہدہ ہے، پاکستان تنازعات کے حل کے طریقہ کار سمیت معاہدے کے نفاذ کے لئے پرعزم ہے۔بھارت سے امید کی جا رہی ہے کہ وہ بھی نیک نیتی کے ساتھ معاہدے پر عمل درآمد کرے گا۔پاکستان نے 19 اگست 2016 کو سندھ طاس معاہدے کے آرٹیکل 9 کے مطابق ایڈہاک ثالثی عدالت کے قیام کی درخواست کرکے قانونی کارروائی کا آغاز کیا تھا۔پاکستان نے یہ قدم بھارت کی جانب سے 2006 میں کشن گنگا (دریائے نیلم)پراجیکٹ اور 2012 میں دریائے چناب پر رتلے پروجیکٹ کے لئے شروع ہونے والے ’پرمننٹ انڈس کمیشن‘ میں اپنے تحفظات کو سختی سے اٹھانے اور پھر جولائی 2015 میں نئی دہلی میں ہونے والے حکومتی سطح کے مذاکرات میں ناکامی کے بعد اٹھایا ۔پاکستان نے کارروائی شروع کرنے کا فیصلہ تحفظات دور کرنے سے بھارت کے مسلسل انکارکے ردعمل میں کیا۔یہ معاہدہ تنازعات کے حل کے لئے دو فورم فراہم کرتا ہے، ایک ثالثی عدالت ہے جو قانونی، تکنیکی اور انتظامی مسائل حل کرتی ہے اور دوسرا ایک غیر جانبدار ماہر ہے جو صرف تکنیکی مسائل کو حل کرتا ہے۔مستقل عدالت برائے ثالثی کا خیال ہے کہ کشن گنگا، رتلے پروجیکٹس کے تنازعہ میں ثالثی کرنا اس کے دائرہ اختیار میں ہے۔اہم بات یہ ہے کہ تمام فریق اس عدالت کے متفقہ فیصلے کے پابندہیں جس کے خلاف اپیل نہیں کی جاسکتی ہے۔
پاکستان نے اگست اور بھارت نے جولائی 1950میںعالمی ثالثی عدالت کے پہلے کنونشن پر دستخط کر رکھے ہیں۔ اس وقت عدالت کے سربراہ سیکریڑی جنرل ڈاکٹر مرسن چپلاک ہیں جنھیں گزشتہ سال پانچ برس کے لئے ایڈمنسٹریٹیو کونسل نے منتخب کیا ہے۔ ان کا تعلق پولینڈ سے ہے۔ بھارت کا موقف عدالت نے اس لئے مسترد کر دیا کہ یہ عدالت ممالک کے درمیان ثالثی اور تنازعات کے حل کی دیگر صورتوں میں سہولت فراہم کرنے کے لئے ہی قائم نہیں کی گئی بلکہ یہ ایک جدید، کثیر جہتی ثالثی ادارے کے طور پر کام کر رہی ہے جو بین الاقوامی برادری کی بڑھتے ہوئے تنازعات کے حل کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ہے۔
عدالت بھارتی موقف مسترد کرتے ہوئے اپنے بیان میں کہا ، ”ایک متفقہ فیصلے میں، جس کے فریقین پابند ہیں اور اپیل نہیں کی جا سکتی، عدالت نے ہندوستان کے ذریعہ اٹھائے گئے ہر اعتراض کو مسترد کردیا اور اس بات کا عزم کیا کہ عدالت پاکستان کی ثالثی کے لئے درخواست میں پیش کردہ تنازعات پر غور اور اس کا تعین کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔” پاکستان کی نمائندگی بین الاقوامی ماہرین کی ایک ٹیم نے کی۔ بیرسٹر احمد عرفان اسلم نے پی سی اے میں پاکستان کے ایجنٹ کی حیثیت سے کام کیا۔بھارت دریائے نیلم یا کشن گنگا کا رخ موڑ کر اس پر 330 میگا واٹ ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹ تعمیر کر رہا ہے۔ بھارت دریائے چناب پر 850 میگاواٹ رتلے پن بجلی گھر تعمیر کر رہا ہے۔اسلام آباد نے 19 اگست، 2016 کو انڈس واٹرس معاہدے کے آرٹیکل IX کے تحت ثالثی کی ایک ایڈہاک کورٹ کے قیام کی درخواست کرتے ہوئے قانونی کارروائی کا آغاز کیا۔ پاکستان نے جولائی 2015 میں نئی دہلی میں منعقدہ سرکاری سطح کے مذاکرات کے ذریعہ ایک قراردادپیش کی۔عدالت جانے کا فیصلہ ہندوستان کی طرف سے اٹھائے جانے والے خدشات کو دور کرنے سے انکار کے جواب میںکیا گیا۔ 12 دسمبر، 2016 کو ورلڈ بینک نے ثالثی عدالت کے قیام یا غیر جانبدار ماہر کی تقرری کے عمل کو معطل کردیا اور دونوں ممالک کو ایک فورم پر بات چیت اور اتفاق رائے کی دعوت دی۔تاہم، پاکستان اور ہندوستان، اس سے اتفاق نہ کر سکے اور ورلڈ بینک، چھ سال کے بعد آخر کار معطلی ختم کردی ، ثالثی کی عدالت تشکیل دی اور غیر جانبدار ماہر مقرر کیا۔تا ہم بھارت نے معطلی کے دوران کشن گنگا پروجیکٹ کی تعمیر مکمل کر لی – عدالت نے اپنے بیان میں کوئی تفصیلات نہیں بتائیں، لیکن بتایا کہ ہائیڈرو الیکٹرک منصوبوں سے متعلق دفعات کے ساتھ دو طرفہ سندھ طاس معاہدے کی تشریح اور اطلاق پر توجہ دی جائے گی۔پی سی اے کے فیصلے کے بعدپاکستان کے دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان انڈس واٹرس معاہدے پر عمل کے لئے پوری طرح پرعزم ہے، جس میں اس کے تنازعات کے تصفیے کا طریقہ کار بھی شامل ہے۔دفتر خارجہ کے ترجمان نے امید ظاہر کی کہ ہندوستان بھی اس معاہدے کو نیک نیتی سے نافذ کرے گا۔مگربھارت نے ثالثی کی مستقل عدالت کے اس فیصلے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔عدالت کا 2016 کے مقدمے پر ایک ایوارڈ سندھ طاس معاہدے کے آرٹیکل IX اور Annexure G کے تحت لایا گیا تھا۔ ہندوستان نے اسی سال عالمی بینک سے اسی معاملے پر ایک غیر جانبدار ماہر کی تقرری کے لئے کہا۔دسمبر 2016 میں، ورلڈ بینک نے ثالثی عدالت اور غیر جانبدار ماہر کے چیئرمین کی تقرری کے عمل کو روک دیا۔ چھ سال کے بعد پابندی ہٹا دی گئی اور دونوں عمل – ثالثی عدالت اور غیر جانبدار ماہر – کو قائم کیا گیا۔ہندوستان نے دسمبر 2022 میں عالمی بینک کو ایک خط لکھا جس میں ثالثی عدالت کی اہلیت پر شک ظاہر کیا گیا۔ اس کے بعد یہ خط ثالثی عدالت کو پہنچایا گیا۔ ہندوستان نے عدالتی کارروائی میں حصہ نہیں لیا اور پینل میں دو ثالثوں کی تقرری کے اپنے حق کا استعمال بھی نہیں کیا۔خط میں ہندوستان کے اعتراضات کی بنیاد پر، ثالثی عدالت نے ایک پریس ریلیز میں مشاہدہ کیا کہ وہ اس معاملے پر فیصلہ دے سکتی ہے۔ عدالت نے کہا ’’عدالت ہندوستان کی طرف سے اٹھائے گئے ہر اعتراض کو مسترد کرتی ہے اور یہ طے کیا جاتا ہے کہ عدالت پاکستان کی ثالثی کی درخواست میں درج تنازعات پر غور کرنے اور ان کا تعین کرنے کی مجاز ہے ۔ہندوستان کی وزارت خارجہ نے کہاکہ یہ نئی دہلی کا ’’مسلسل اور اصولی‘‘ موقف رہا ہے کہ ”نام نہاد ثالثی عدالت کا آئین سندھ طاس معاہدے کی دفعات کے منافی ہے”۔ ”ہندوستان کو غیر قانونی اور متوازی کارروائیوں کو تسلیم کرنے یا اس میں حصہ لینے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا ہے جس کا اس معاہدے میں تصور نہیں کیا گیا ہے”۔ ہندوستانی حکومت پاکستان کے ساتھ ”معاہدے کے آرٹیکل XII (3) کے تحت سندھ طاس معاہدے میں ترمیم کے بارے میں” بات چیت کر رہی ہے۔ ”یہ حالیہ پیش رفت صرف اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اس طرح کی ترمیم کیوں ضروری ہے،” ۔(جاری ہے)