معارف القرآن جلد ہفتم (تفسیر سورۃ المئومن‘‘ زیر مطالعہ ہے۔ مفتی محمد شفیع کی یہ تفسیر قرآنی قدیم انداز فکر ثقہ تدریسی مشغلہ بھی ہے۔ سورۃ المئومن کی آیات51سے 60 تک کی تفسیر صفحات607 سے613 ہے۔ آیت نمبر57 کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں نصرت الٰہی کا ذکر ترجمہ آیت ملاحظہ فرمائیے ۔ ’’ہم مدد کرتے ہیں اپنے رسولوں کی اور ایمان والوں کی دنیا کی زندگانی میں اور جب وہ کھڑے ہوں گے گواہ بن کر مراد قیامت کا د ن ہے‘‘ مفتی محمد شفیع احمد اللہ نے دعاء کی حقیقت‘ فضائل و درجات اور شرط قبولیت کو بہت تفصیل سے لکھا ہے‘ ملاحظہ فرمائیے۔
دعا کے لفظی معنی پکارنے کے ہیں اور اکثر استعمال کسی حاجت و ضرورت کے لئے پکارنے میں ہوتا ہے۔ کبھی مطلق ذکر اللہ کو بھی دعاء کہا جاتا ہے۔ یہ آیت امت محمدیہ کا خاص اعزاز ہے کہ ان کو دعا مانگنے کاحکم دیا گیا اور اس کی قبولیت کا وعدہ کیا گیا اور جو دعا نہ مانگے اس کے لئے عذاب کی وعید آئی ہے۔ حضرت قتادہؒ نے کعب احبارؒ سے نقل کیا ہے کہ پہلے زمانے میں یہ خصوصیت انبیائؑ کی تھی ‘ کہ ان کو اللہ تعالیٰ کی طر ف سے حکم ہوتا تھا کہ آپ دعا کریں میں قبول کروں گا۔ امت محمدیہؐ کی یہ خصوصیت ہے کہ یہ حکم تمام امت کے لئے عام کر دیا گیا۔ (ابن کثیر) حضرت نعمان بن بشیرؓ نے اس آیت کی تفسیرمیں یہ حدیث بیان فرمائی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ان الدعاء ھو العبادۃ۔ یعنی دعاء عبادت ہی ہے۔ تفسیر مظہر میں ہے کہ جملہ ان الدعاء ھو العبادۃ میں باقاعدہ عربیت (قصر المسند) یہ مفہوم بھی ہوسکتاہے کہ دعاء عبادت ہی کا نام ہے یعنی ہر دعا عبادت ہی ہے اور یہ مفہوم بھی ہوسکتا ہے کہ ہر عبادت ہی دعا ہے۔ یہاں دونوں احتمال ہیں اور مراد یہاں یہ ہے کہ دعا اور عبادت اگرچہ لفظی مفہوم کے اعتبار سے دونوں جدا جدا ہیں مگر مصداق کے اعتبار سے دونوں متحد ہیں کہ ہر دعاء عبادت ہے او ر ہر عبادت دعاہے۔ وجہ یہ ہے کہ عبادت نام ہے کسی کے سامنے انتہائی تذلل اختیار کرنے کا اور ظاہر ہے کہ اپنے آپ کو کسی کا محتاج سمجھ کر اس کے سامنے سوال کے لئے ہاتھ پھیلانا بڑا تذلل ہے جو مفہوم عبادت کا ہے۔ اسی طرح ہر عبادت کا حاصل بھی اللہ تعالیٰ سے مغفرت اور جنت اور دنیا اور آخرت کی عافیت مانگنا ہے۔ اسی لئے ایک حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو شخص میری حمدو ثنا میں اتنا مشغول ہو کہ اپنی حاجت مانگنے کی بھی اسے فرصت نہ ملے ‘ میں اس کو مانگنے والوں سے زیادہ دوں گا۔ (یعنی اس کی حاجت پوری کر دوں گا)۔ یعنی جو شخص تلاوت قرآن میں اتنا مشغول ہو کہ مجھ سے اپنی حاجات مانگنے کی بھی اسے فرصت نہ ملے تو میں اس کو اتنا دوں گا کہ مانگنے والوں کو بھی اتنا نہیں ملتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہر عبادت بھی وہی فائدہ دیتی ہے جو دعا کا فائدہ ہے‘ اور عرفات کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ عرفات میں میری دعا اور مجھ سے پہلے انبیاء علیہم السلام کی دعا کلمہ ہے۔ اس میں عبادت اور ذکر اللہ کو دعا فرمایا ہے اور اس آیت میں عبادت بمعنے دعاء کے ترک کرنے والوں کو جو جہنم کی وعید سنائی گئی ہے وہ بصورت استکبار ہے یعنی جو شخص بطور استکبار کے اپنے آپ کو دعاء سے مستغنی سمجھ کر دعاء چھوڑے یہ علامت کفر کی ہے اس لئے وعید جہنم کا استحقاق ہوا۔ ورنہ فی نفسہ عام دعائیں فرض واجب نہیں‘ ان کے ترک سے کوئی گناہ نہیں۔ البتہ باجماع علماء مستحب اور افضل ہے۔ (مظہری) اور حسب تصریح احادیث موجب برکات ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اللہ سے اپنی حاجت کا سوال نہیں کرتا‘ اللہ تعالیٰ کا اس پر غضب ہوتا ہے۔ (ترمذی۔ ابن حبان۔ حاکم) ان سب روایات کو تفسیر مظہری میں نقل کرکے فرمایا کہ دعاء نہ مانگنے والے پر غضب الٰہی کی وعید اس صورت میں ہے کہ نہ مانگنا تکبر اور اپنے آپ کو مستغنی سمجھنے کی بنا پر ہو جیسا کہ آیت مذکورہ ان الذین یستکبرون کے الفاظ سے ثابت ہوتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا جس شخص کیلئے دعا کے دروازے کھول دیئے گئے اس کے واسطے رحمت کے دروازے کھل گئے اور اللہ تعالیٰ سے کوئی دعاء اس سے زیادہ محبوب نہیں مانگی گئی کہ انسان اس سے عافیت کا سوال کرے۔ (ترمذی) لفظ عافیت بڑا جامع لفظ ہے‘ جس میں بلاء سے حفاظت اور ہر ضرورت و حاجت کا پورا ہونا داخل ہے۔ مسئلہ۔ کسی گناہ یا قطع رحمی کی دعا مانگنا حرام ہے وہ دعا اللہ کے نزدیک قبول کبھی نہیں ہوتی۔ (کمافی الحدیث) قبولیت دعاء کی شرائط۔ آیت مذکورہ میں تو بظاہر کوئی شرط نہیں۔ یہاں تک کہ مسلمان ہونا بھی قبولیت دعا کی شرط نہیں۔ کافر کی دعا بھی اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے ۔ یہاں تک کہ ابلیس کی دعاء تاقیامت زندہ رہنے کی قبول ہوگئی۔ نہ دعا کے لئے کوئی وقت شرط نہ طہارت اور نہ باوضو ہونا شر ط ہے۔