یہ بات 1965ء کی جنگ کے دوران بہت مشہور ہوئی جب زیادہ تر سفر ٹرین کے ذریعے کیا جاتا تھا۔ اس دور میں ہائیکورٹ کے ایک جج کو ایک ضروری کام سے کسی دوسرے شہر جانا تھا اور جب اسے درجہ اول میں جگہ نہ ملی تو وہ مجبورا درجہ دوم میں بیٹھ گیا۔ اس کلاس کے مسافر بہت جذباتی انداز میں جنگ کی باتیں کر رہے تھے اور ہر ایک اس بات پر متفق تھا کہ انڈیا کی اس دفعہ خوب درگت بننے والی ہے۔ اس وقت ریڈیو پاکستان قومی گیت، اشفاق احمد کے فیچر، صدر ایوب خان اور محاذ جنگ سے اعجاز بٹالوی کی جذباتی تقریریں بار بار نشر کر رہا تھا۔ اس جنگ میں عنائت حسین بھٹی کا ایک جنگی ترانہ ’’رگڑا‘‘بہت مشہور ہوا جو بعد میں 1971ء کی جنگ میں بھی گایا جاتا رہا۔ تب نور جہاں جاپان گئی ہوئی تھی اور واپس آئی تو عنایت حسین بھٹی اپنی دھاک بٹھا چکے تھے۔ اس گیت کو نازش کشمیری نے ترتیب دیا تھا جس کا ایک دہرا مصرہ’’دیو رگڑا ایناں نوں دیو رگڑا‘‘ زبان زد عام تھا۔’’کسی نے جج صاحب کی طرف دیکھ کر کہا کہ یہ پڑھے لکھے ہیں ان سے رائے لیتے ہیں کہ جنگ کون جیتے گا؟ جج صاحب نے جواب دیا‘‘چونکہ انڈیا ایک بڑا اور طاقتور ملک ہے اس لئے ہم زیادہ دنوں تک جنگ لڑ نہیں سکتے۔’’یہ سننا تھا کہ مجمعے نے جج صاحب کو انڈین ’’ایجنٹ‘‘کہتے ہوئے خوب پھینٹی لگا دی اور بڑی مشکل سے جج صاحب کو وہاں سے نکالا گیا۔ بعد میں کسی نے جج صاحب سے پوچھا کہ آپ نے اس سفر سے کیا سبق حاصل کیا؟
جج صاحب نے کہا،صرف ایک بنیادی سبق سیکھا ہے کہ فرسٹ کلاس کی باتیں سیکنڈ کلاس میں نہیں کرنی چایئے۔ موجودہ سیاسی صورتحال پر ایک خبر یہ موصول ہوئی ہے کہ قوم و ملک کو گزشتہ تقریباً نصف صدی سے ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں پیپلزپارٹی، ن لیگ اور بعد میں پی ٹی آئی نے جتنا رگڑا لگایا ہے اب آرمی کسی بھی پارٹی کو اسے جاری رکھنے کی اجازت دینے کو تیار نہیں ہے۔ پاکستان میں ہمیشہ سے الٹی گنگا بہتی رہی ہے اور ملک پر سیکنڈ کلاس قسم کے سیاستدان مسلط ہو کر عوام کو دے رگڑا تے دھر رگڑا لگاتے رہے ہیں اور عوام بھی خاموشی سے سہتی رہی ہے مگر اس سے عوام نے بھی یہی سبق سیکھا ہے کہ ’’اب نہیں تو کبھی نہیں‘‘کیونکہ سیاست تو ایسی خدمت خلق کا نام ہے کہ نااہل اور کرپٹ لوگ اسے انجام ہی نہیں دے سکتے: خاصاں دی گل عاماں اگے نہیں مناسب کرنی مٹھی کھیر پکا محمد کتیاں اگے دھرنی گزشتہ روز تین بجے دبئی میں بزنس مینوں کے ایک وفد نے میاں نواز شریف سے ملاقات کی جس کا اندرون خانہ خلاصہ یہ ہے کہ عمران خان کو سیاسی میدان میں ’’مائنس‘‘ پوائنٹ ’’پر نہیں لے جایا جا رہا ہے۔ پہلے عموماً یہ افواہیں گردش کر رہی تھیں کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کو عید یا عید کے فورا ًبعد گرفتار کر لیا جائے گا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ فوج ان تینوں جماعتوں سے سیاسی استحکام کی ضمانت حاصل کرنے کے بعد انتخابات کروانے پر راضی ہوئی ہے جس کے لئے نواز شریف، آصف علی زرداری، مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری صلاح مشورے کے لئے دبئی میں اکٹھے ہوئے ہیں۔ اس مقصد کے لئے میاں نواز شریف نے مختلف سیاسی رہنمائوں سے ملاقاتوں کے لئے دبئی میں ایک ہفتے کے لئے اپنا قیام مزید بڑھا دیا ہے۔ ایک اہم ترین انکشاف یہ بھی ہوا ہے کہ پی ٹی آئی کو بھی انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی جائے گی مگر ان تینوں جماعتوں کی قیادتوں کو فوج پر الزام تراشی بند کرنے اور آپس میں نئے جمہوری و اخلاقی میثاق کا پابند کیا جا رہا ہے جس میں معیشت کی بحالی بھی سرفہرست ہے۔ 9 مئی کے واقعات سے ہٹ کر دیکھا جائے تو عمران خان نے عوام میں جتنا سیاسی شعور بیدار کر دیا ہے اب عوام کو کسی اور ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانا تقریبا ً ناممکن ہو گیا ہے۔ پی ٹی آئی میں پڑھی لکھی نوجوان نسل، سابق سینئر ریٹائرڈ فوجیوں اور سمجھدار سمندر پار پاکستانیوں کا ایک مخلص طبقہ شامل ہے۔ اس میں بھی کوئی شک و شبہ والی بات نہیں کہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ دونوں جماعتوں کے مقابلے میں عمران خان کو دیوانہ وار چاہنے والے لوگ اکثریت میں ہیں، جبکہ عمران خان عالمی سطح کے لیڈروں میں بھی اپنا ایک مضبوط امیج پیدا کر چکے ہیں۔ اگر عمران خان کو طاقت کے زور پر دبانے کی کوشش کی گئی تو عوام کے اس اکثریتی طبقے میں سیاسی مایوسی پیدا ہو گی۔ بے شک ان واقعات کے بعد فوج پہلے سے زیادہ مضبوط ہو گئی ہے۔ اگر مین سٹریم کی سیاسی شخصیات نے عقل کے ناخن نہ لئے تو اگلی کم از کم دو دہائیوں تک ’’سول بالادستی‘‘ قائم ہونا مشکل ہو جائے گا۔ دنیا بھر میں سوشل میڈیا بہت زیادہ طاقتور ہو گیا ہے۔ اب رائے عامہ کی سچی آواز کو زیادہ دیر تک دبایا جا سکتا ہے اور نہ ہی سیاسی رہنمائوں کی نااہلیت اور بدعنوانیوں کو چھپایا جا سکتا ہے۔ پاکستان کی عوام کو اچھی طرح معلوم ہو چکا ہے کہ 75 سال تک پاکستان پر صرف 12خاندانوں نے نام اور چہرے بدل بدل کر حکومت کی ہے جس دوران پاکستان بد سے بدتر معاشی حالات کی دلدل میں دھنستا چلا گیا یے۔ آئی ایم ایف سے معاہدہ کی بحالی عین آخری روز رو رو کر ہوئی اور پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کاری کے لئے پاکستان کے حساس اداروں کو گروی رکھنا پڑا اور تب جا کر پاکستان دیوالیہ ہونے سے بچا!اس جنگ ہنسائی کو عوام، فوج اور تینوں جماعتوں نے بھی دیکھا۔ اس پس منظر میں شائد اب جمہوریت اپنا موروثیت کا چولا زیادہ دیر تک نہیں پہن سکتی، کیونکہ اب دیوار پر واضح لکھا نظر آ رہا ہے کہ اس نوع کی ’’ڈرٹی پالیٹکس‘‘میں بلاول بھٹو اور مریم نواز آخری نشانی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان کو مزید وقت دیا جا رہا ہے کیونکہ اس بار فوج کوئی کچی گولیاں نہیں کھیلنا چاہتی۔ اگر خفیہ مذاکرات کی یہ بیل منڈھے چڑھ گئی تو پاکستان کی تقدیر بدلنے کا آغاز ہو جائے گا۔ عمران خان کو بھی آئینہ دیکھا دیا گیا ہے۔ امید ہے کہ عمران خان کو سیاست سے آئوٹ نہیں کیا جا رہا۔ پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے ساتھ ’’لکھ لکھا‘‘ہو گیا ہے۔ اس وقت گیند دوبارہ عمران خان کی کورٹ میں چلی گئی ہے، وہ اسے کیسے کھیلتے ہیں یہ واضح ہونا بس چند ہفتوں کی بات ہے۔ بہتر ہو گا کہ ماضی کی سیاست کو دفن کر دیا جائے۔