اہم خبریں

نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم!

اردو دانی کے حوالے سے سوشل میڈیا پر ایک دلچسپ سوال نظر سے گزرا، لکھا تھا کہ بتایا جائے‘مادہ پرست اور مادیت پرست میں کیا فرق ہے؟ ایک صاحب نے جواب دیا، “وہی فرق ہے جو’’نر‘‘ اور ’’مادہ‘‘ میں ہوتا ہے۔ ایک اور صاحب نے کہا، ایک میٹریلیسٹ ہے اور دوسرا فیمینسٹ ہے۔ شائد وہ مادہ کو فی میل کے معنوں میں سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ صاحب سوال نے اس پر یہ گرہ لگائی کہ، مادہ تو مٹیرئیل ہی ہوتا ہے یعنی ’’میٹر‘‘ جو ٹھوس، مائع اور گیس پر مبنی ہوتا ہے، تو مادہ پرست بھی مٹیرئلسٹ ہی ہوا۔ ایک اور اردو زبان دانی کے ماہر نے بتایا کہ مادہ پرست لالچی اور خود غرض کو کہتے ہیں جبکہ مادیت پرست ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جو یہ یقین رکھتا ہو کہ کائنات سدا سے ہے اور یہ از خود وجود میں آئی ہے، بہرکیف لفظوں کی معنویت نکالنا لکھنے والے کی صلاحیت پر منحصر ہے کہ وہ لفظوں کو کس خوبصورت ڈھنگ سے استعمال کرتا ہے۔ اس کی ایک معنویت یہ بھی ہے کہ مادے کو ہی سب کچھ سمجھنے والے کو مادہ پرست یا مادیت پرست کہتے ہیں، اسے عموما دہریا یا خدا کو نہ ماننے والا بھی کہا جاتا ہے مگر بہت سے مسلمان بھی مادہ پرست ہوتے ہیں جو زیادہ پیسہ جمع کرتے ہیں مگر وہ خدا کو بھی مانتے ہیں لہٰذا مادہ پرست یا مادیت پرست منکر خدا نہیں ہوتا۔ ایک فلسفیانہ ٹائپ کے تبصرہ نگار کی دلیل تھی کہ ’’مادیات‘‘ وہ نظریہ ہے جس کی رو سے سوائے مادے کے دنیا میں کوئی جوہر موجود نہیں ہے یعنی مادہ پرستی، جسمانیت یا جسمیت پر زور دیتی ہے جس میں اشیا کے ظاہری اور طبعی حسن پر اطلاق کیا جاتا ہے اور اصل سچائی وہ ہے جو چیزوں کی ظاہری حقیقت سے تعلق رکھتی ہے۔

اگر مادیات کو ایک سنجیدہ موضوع کے طور پر لیا جائے تو یہ تصوریت کا متضاد ہے جسے خیال پرست یا آئیڈلسٹ کہا جاتا ہے اور دنیا انہی دو قسم کے لوگوں پر مشتمل ہے یعنی لوگ مادہ پرست Materialist ہوتے ہیں یا وہ خیال پرست Idealist ہوتے ہیں۔ اس طرح مادے کی دنیا کو میٹریل ازم Materialism اور اس کی متضاد یا اس سے ماورا دنیا کو تصوریت Idealism کہا جاتا ہے۔ ‘تصوریت’ کو ‘عینیت’ بھی کہتے ہیں جس کا نام آتے ہی افلاطون PLATO یاد آتا ہے جس نے یونان میں چار ہزار سال قبل اس فلسفے کو متعارف کروایا تھا. افلاطون اپنے استاد سقراط کے فلسفیانہ افکار سے متاثر تھا جس کی جھلک اس کے نظریات میں واضح طور پر محسوس کی جا سکتی ہے۔ فلسفہ تصوریت کی اہمیت اور افادیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہر صدی کے فلسفہ کے ماہرین اس سے متاثر ہوئے اور ’’فلسفہ تصوریت‘‘ کو مزید ترقی دے کر نکھارتے رہے۔ ان عظیم فلسفیوں میں آگسٹائن، ڈیکارٹ، برکلے کانٹ، ہیگل اور برگساں وغیرہ کے نام قابل نمایاں ہیں۔ فلسفہ تصوریت کا مرکزی خیال یہ ہے کہ یہ کائنات اور اس کی تمام اشیا حقیقت نہیں بلکہ حقیقت کی پرچھائیں ہیں۔ حقیقی کائنات اور دنیا کہیں اور ہے جسے ہم تصوراتی یا روحانی دنیا کہہ سکتے ہیں یعنی یہ ظاہری اور مادی دنیا تصورات اور روحانی دنیا کا عکس ہے! فلسفہ تصوریت یا مثالیت دو مختلف دنیائوں کی بات کرتا ہے ایک ظاہری دنیا ہے جس میں ہم انسان رہتے ہیں اس دنیا کو مظاہرات کی دنیا قرار دیا جا سکتا ہے۔ دوسری دنیا وہ ہے جو حقیقی ہے لیکن ہمیں نظر نہیں آتی تاہم وہ ہمارے تصورات میں موجود ہوتی ہے۔ تصورات کی مدد سے اس حقیقی دنیا کو پہچانا جا سکتا ہے۔ حقیقت عالم بالا ہے اور یہ کائنات اس کا عکس ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ کائنات کی ہر چیز فانی ہے اور فنا ہونے والی چیزیں حقیقی نہیں ہو سکتی ہیں۔ انسان اپنی ذہنی صلاحیتوں کے استعمال سے حقیقت کا علم حاصل کر سکتا ہے یعنی عقل و فہم، ادراک، وجدان، جستجو اور تلاش سے روحانی بلندیوں تک پہنچا جا سکتا ہے۔ اخلاق حسنہ انسانی کردار کی تشکیل کرتے ہیں۔روحانیت انسان کی جبلی اور فطری تسکین کا باعث بنتی ہے۔ افلاطون تصور کو نیکی سے تعبیر کرتا ہے جو مادے سے بڑھ کر ہے، روحانیت تصورات پر مبنی ہوتی ہے جو غیر مادی ہے اور کبھی فنا نہیں ہوتی۔ گو کہ مادیت بنیادی حقیقت نہیں مگر اس سے گزرے بغیر حتمی حقیقت تک پہنچنا بھی ناممکن ہے۔ اس لئے اسلام کے مطابق مومن دنیا میں بھی کامیاب ہوتا ہے اور آخرت میں بھی، مگر آج کے ہم مسلمانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ ہم آخرت کے لالچ میں مادیات کو اگنور کر رہے ہیں اور یا پھر صرف اسی پر انحصار کر رہے ہیں۔

متعلقہ خبریں