جب میں مسلم لیگ (ج) کا عہدیدار تھا اور حکومت پی ڈی ایف کی تھی۔ درمیان میں ایک سینٹ انتخاب کا تجربہ تھا۔ لاہور میں کاغذات جمع ہونا تھے۔ میری خواہش تھی کہ پی ڈی ایف مجھے یہ چند ماہ کی سیٹ دے دے۔ میں ارشاد احمد حقانی سے رابطے میں تھا۔ ان دنوں میں اپنے نام کے ساتھ ’’پروفیسر‘‘ لکھنا چھوڑ چکا تھا اور خبر جو میرے حوالے سے نیوز ایجنسی جاری کرتی اس میں میرے نام سے پروفیسر کا لفظ حذف شدہ ہوتا مگر ان کے اخبار میں ایک دن میرے نام سے خبر فرنٹ بیچ پر شائع ہوئی جس میں اخبار میں ’’پروفیسر‘‘ کے لفظ کا اضافہ بھی شائع ہوا۔ میں نے رابطہ کرکے پوچھا کہ جب نیوز ایجنسی میری انتخابی خبر لفظ ’’پروفیسر‘‘ کے بغیر شائع ہونے کے لئے جاری کر چکی ہو تو آپ کے اخبار کے ذمہ داران خود کیوں میرے نام کے ساتھ ’’پروفیسر‘‘ کا اضافہ کرکے شائع کر دیتے ہیں؟ مجھے سمجھایا آپ خوش قسمت ہیں۔ آپ سیاست میں ہیں تب بھی آپ کا تعلق اہل علم اور اساتذہ سے تسلیم کیا جارہا ہے اور ہمارا سب ایڈیٹر چاہتا ہے کہ عوام کو اپ کی اسی حیثیت سے متعارف کرایا جائے۔ لہٰذا اس پر ناراض ہونے کی بجائے خوش ہونا چاہیے کہ عملی سیاست میں ہوتے ہوئے آپ کو صاحب علم اور استاذ کے منصب کے ساتھ شائع کیا جاتا ہے۔ میں ان کی علم دوستی اور اساتذہ کے لئے محبت پر حیران ہوتا۔ ایسا اس لئے تھا کہ وہ خود استاذ رہے تھے۔ پرنسپل کی ذمہ داریاں بھی ادا کر چکے تھے۔
میں نے پنجاب سے جس سینٹ سیٹ پر کاغذات جمع کرائے اس کی تائید چوہدری فاروق صوبائی وزیر نے کی اور تصدیق ڈسکہ سیالکوٹ سے تعلق رکھتے ایک رکن اسمبلی نیکی ‘ کاغذات آزاد امیدوار کے تھے۔ مہناز رفیع بیگم مسلم لیگ (ن) کی طرف سے کاغذات جمع کرانے آئی تو میں نے کہا آپ نے جیتنا تو ہے نہیں کہ مسلم لیگ (ن) کی عددی تعداد کم ہے اور پی ڈی ایف کی زیادہ۔ اگر آپ میرے حق میں ہو جائیں تو میں پی ڈی ایف کے اندر سے کچھ ووٹ لے کر جیت سکتا ہوں۔ مگر محترمہ نے میرے حق میں ہونے کو تسلیم نہ کیا۔ چنانچہ میں آخری رات کو دست بردار ہوگیا اور دست برادری کی خبر کے باوجود ایک ووٹ کسی رکن اسمبلی نے ڈال دیا۔ مجھے بہت بعد پتہ چلا کہ یہ کون تھے۔ مگر’’راز‘‘ ہی رہنے دیتا ہوں۔ مگر پنجاب ہائوس میں پی ڈی ایف کا اجلاس ہوا تو وزیراعظم بے نظیر نے دو ٹوک سوال کیا کہ پروفیسر کو ووٹ ڈالنے والا ذرا سامنے تو آئے میں دیکھنا چاہتی ہوں کہ ہمارا کون سا رکن اسمبلی ہم سے زیادہ پروفیسر محی الدین سے محبت کرتا ہے؟ مجھے یہ واقعہ سنا کر عطاء مانیکا نے قہقہہ لگایا اور بولے۔ اس لمحے مجھے بہت لذت آئی تھی اور کھٹکتا ہوا دل یزدان میں کانٹے کی طرح کا مطلب بھی سمجھ آیا تھا کہ ایک کمزور سا پروفیسر عملی سیاست میں کم مایہ ہو کر بھی حکمرانوں کے لئے کتنا بڑا خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ عطاء مانیکا پولٹیکل سائنس میں یونیورسٹی سے گولڈ میڈلسٹ ہیں۔ اگرچہ میں مسلم لیگ (ج) چھوڑ چکا تھا، پی ڈی ایف حکومت سے بھی لاتعلقی تھی مگر چوہدری حامد ناصر چٹھہ سے تعلق موجود تھا۔ آصف زرداری کے سبب بے نظیر شدید تنقید سے دوچار رہتی تھی۔ حتیٰ کہ پی ڈی ایف میں داراڑیں پڑ گئی۔ ایک دن یہ تصور بھی پیدا ہوا کہ حامد ناصر چٹھہ بے نظیر کا متبادل بن کر وزیراعظم بن جائیں۔ اپوزیشن میں بھی یہ سوچ موجود تھی۔ میں نے ارشاد احمد حقانی سے اس ’’سوچ‘‘ کا ذکر کیا۔ وہ بہت خوش ہوئے۔ میرے کہنے پر آمادہ ہوگئے کہ وہ اگلا کالم بے نظیر کی جگہ حامد ناصر چٹھہ کے لئے لکھ دیں گے اور مجھے اگلے دن حقانی صاحبہ کی بات 12 بجے تک چٹھہ سے کروانا ہوگی۔ اگلے دن صبح 9بجے حسب عادت لاہور میں اپنے دفتر میں موجود تھے اور حامد ناصر چٹھہ کو محترمہ کی جگہ متبادل پی ڈی ایف وزیراعظم بنانے کے فوائد لکھ رہے تھے۔ افسوس کوشش کے باوجود میں ان کی بات چٹھہ سے نہ کراسکا۔ لہٰذا انہوں نے مجھے 12بجے فون کرکے بتایا اب نہ کالم شائع ہوگا نہ تمہارا پی ڈی ایف اتحاد میں سے نیا وزیراعظم کا تصور حقیقت بن سکے گا۔ میں چٹھہ سے ملا۔ خاموشی کی وجہ پوچھی؟ انہوں نے بتایا وہ وزیراعظم کے ماتحت خفیہ ایجنسی کی نظروں میں ہیں ان کا فون ٹیپ کیا جارہا ہے اور ملاقاتیوں پر نظر کھی جارہی ہے اور بتایا تمہارا تصور پی ڈی ایف اتحادی حکومت کے لئے ایک نعمت تو ہوسکتا ہے مگر مجھے وزیراعظم بننے میں دلچسپی نہیں اور نہ ہی میں مسلم لیگ (ن) کی حمایت کی تمنا رکھتا ہوں۔ لہٰذا میں جان بوجھ کر خاموش رہا حالانکہ تم پی ڈی ایف کے لئے بہت قوت فراہم کرنے جارہے تھے۔ محترمہ پی ڈی ایف کا صدر چٹھہ کو بنانے پر اصرار کرتی رہی تھی مگر چٹھہ کی خواہش پر سردار فاروق لغاری کو محترمہ نے صدر بنوایا تھا۔ چٹھہ اور لغاری میں ذاتی تعلق بھی تھا۔ دونوں میں زرداری کے حوالے سے مگر کافی پریشانی تھی۔ مگر جب صدر فاروق لغاری نے اسمبلی توڑی تو زرداری لاہور میں اسی شام چٹھہ کے ہال ڈنر پر مدعو تھے۔ گورنر ہائوس میں واپسی پر وہ نظر بند ہوئے۔ مگر لغاری سے چٹھہ ہمیشہ کے لئے ناراض ہوگئے تھے۔ میں جلدی سو جاتا ہوں۔ آدھی رات کو مجھے چٹھہ کا فون ملا کہ میں اگلے دن صبح ان کے ہمراہ پنجاب ہائوس میں ناشتہ کروں۔ میں نے جا کر پوچھا کہ کیا بات ہے۔ بولے محترمہ بہت پریشان ہیں کہ سندھ میں ممتاز بھٹو کو سامنے لایا جارہا ہے۔ آپ وفاقی وزیر ارشاد احمد حقانی سے جا کر ملیں کہ فاروق لغاری یہ نہ کرے۔ میں نے جا کر ارشاد احمد حقانی سے بات کی۔ وہ ہنس پڑے۔ کچھ لینے کے لئے کچھ دینا بھی پڑتا ہے۔ میں یہ وزن اٹھانے کو تیار ہوں۔ میں متعلقہ قوتوں سے منوالوں گا کہ سندھ ممتاز بھٹو کے سپرد نہ کیا جائے بشرطیکہ حامد ناصر چٹھہ نگران وزیراعلیٰ پنجاب کا حلف اٹھا کر بے نظیر سے الگ ہو جائیں۔ جائو اگر وہ آج شام کو وزیراعلیٰ پنجاب بننے پر آماد ہوں تو فوراً میرے پاس چلے آنا۔ میں نے چٹھہ کو جا کر بات بتائی مگر انہوں نے نگران وزیراعلیٰ بننے اور محترمہ بے نظیر سے تعلق ختم سے دو ٹوک انکار کر دیا۔ یوں اگلے انتخابات میں چٹھہ انتخاب ہار گئے اور محترمہ کی پارٹی کو صرف 18سیٹیں ملیں۔