عید کا معنی خوشی ہے اور مسلمان کے لیے خوشی کا سب سے بڑا مقام اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی ہے۔ دنیا میں قومیں اپنا اپنا خوشی کا دن اجتماعی طور پر مناتی ہیں اور ان کا کوئی نہ کوئی پس منظر ہوتا ہے۔ ہماری خوشی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی سے بہرہ ور ہو جائیں۔ اس سلسلہ میں دو تاریخی حوالوں کی طرف آج توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ہماری اجتماعی خوشی اور عید کس بات میں ہے۔
بخاری شریف کی روایت ہے کہ امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ان سے ایک یہودی عالم نے کہا کہ آپ کے قرآن کریم میں ایک آیت ہے اگر وہ ہم پر نازل ہوتی تو ہم نے اس کے نزول کے دن کو عید بنا لینا تھا۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا کون سی آیت؟ تو اس نے کہا ’’الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا‘‘۔ جس میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ آج کے دن میں نے تمہارا دن مکمل کر دیا ہے اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی ہے اور میں تم سے اسلام کے دین پر راضی ہوں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ جس دن یہ آیت نازل ہوئی وہ ہمارا پہلے سے ہی عید کا دن تھا، یہ یومِ عرفہ کو میدانِ عرفات میں نازل ہوئی تھی، اور یہ جمعہ کا دن بھی تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عید کا سب سے بڑا سبب دین اور اس کی تکمیل ہے۔ دوسرا حوالہ یہ عرض کروں گا کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو وہاں یہودی آباد تھے جو دس محرم یعنی عاشورا کو روزہ رکھا کرتے تھے۔ ان سے پوچھا گیا کہ اس دن روزہ کیوں رکھتے ہیں؟ تو انہوں نے بتایا کہ اس روز فرعون کے ظلم و جبر سے بنی اسرائیل کو آزادی ملی تھی، فرعون سمندر میں اپنے لشکر سمیت غرق ہو گیا تھا، اور حضرت موسٰی و ہارون علیہما السلام کی قیادت میں بنی اسرائیل نے سمندر پار کر لیا تھا۔ گویا یہ ان کا ’’یومِ نجات‘‘ یا ’’یومِ آزادی‘‘ ہے جس کی خوشی میں وہ اس دن روزہ رکھ کر اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتے ہیں۔ اس پر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’نحن احق بموسیٰ منکم‘‘ ہمارا موسٰی علیہ السلام کے ساتھ تعلق تم سے زیادہ ہے۔ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے حکم پر صحابہ کرامؓ نے بھی اس دن روزہ رکھنا شروع کر دیا جو حضرت موسٰی علیہ السلام اور بنی اسرائیل کے ساتھ یکجہتی کا اظہار تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ’’آزادی‘‘ بھی دین کی طرح ایک بڑی نعمت ہے اور اس پر اجتماعی خوشی کا اظہار ہونا چاہیے۔ یہ میں نے اس لیے عرض کیا ہے کہ عید کی اصل خوشی دین کی تکمیل اور آزادی کے حصول میں ہے، اور ہمیں ان دونوں حوالوں سے اپنی موجودہ صورتحال کا آج کے دن جائزہ لینا چاہیے۔ جہاں تک آزادی کا تعلق ہے، قوم کا ہر طبقہ اور ہر شخص قومی معاملات میں بیرونی دخل اندازی پر پریشان اور بے چین ہے۔ مگر اس کی روک تھام کی کوئی سنجیدہ اور عملی صورت دکھائی نہیں دے رہی۔ قیامِ پاکستان کے بعد پہلے وزیر خارجہ چودھری ظفر اللہ خان نے ہمیں اس طرف دھکیلا تھا اور ہم امریکی کیمپ کا حصہ بن کر موجودہ دگرگوں صورتحال کا شکار ہیں۔ حتٰی کہ ہماری معیشت کا کنٹرول ہمارے پاس نہیں ہے اور ہم عالمی ایجنڈے میں بری طرح جکڑے ہوئے ہیں۔ ہمارا قومی بینک اسٹیٹ بینک آف پاکستان ہمارے ریاستی نظم کا حصہ نہیں ہے بلکہ خودمختاری کے نام پر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی نگرانی میں جا چکا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ دکان ہماری ہے، سامان ہمارا ہے، کاروبار ہمارا ہے مگر ہمارے گلَے کی چابی قرض خواہوں کے پاس ہے اور ہم اپنے خزانے میں اپنی رقم میں اور اپنے اثاثوں میں کوئی تصرف از خود کرنے کے حق سے محروم ہو چکے ہیں۔ یہ معاشی غلامی کی بدترین صورت ہے جو ہم پر مسلط ہے، جس پر قوم کا ہر طبقہ چیخ چلا رہا ہے۔ مگر اس چیخنے چلانے کے باوجود اس دلدل سے واپسی کی طرف ہمارا رخ تبدیل نہیں ہو رہا۔ ہم اس دلدل میں مزید آگے بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ جبکہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ قومی معیشت میں بیرونی مداخلت کو روکے بغیر ہم اپنے حالات کو کسی طرح بھی بہتر نہیں بنا سکتے۔ اور روکنے کی ایک ہی صورت ہے کہ ہم آئی ایم ایف اور اس طرز کے دیگر اداروں کو صاف طور پر ’’نہ‘‘ کہہ دیں، انہیں کہیں کہ بس کرو ہم یہ جبر مزید نہیں سہہ سکتے۔ وہ ’’ڈو مور‘‘ کا مطالبہ کر رہے ہیں جس کا جواب ہمیں بالآخر ’’سٹاپ‘‘ کے نعرہ مستانہ کے ساتھ دینا ہی ہوگا۔ یہ آسان کام نہیں ہے اور ایسا کرنے کے بعد ہمیں عالمی قوتوں کی ناراضگی برداشت کرنا ہو گی، مصائب اور قربانی کے دور سے گزرنا ہو گا۔ ہم اس سے آج گزرنے کا فیصلہ کر لیں یا بیس سال بعد کریں، اس کے سوا ہمارے پاس نجات اور آزادی کا کوئی راستہ باقی نہیں رہا۔ میں اس موقع پر یہ بھی عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ سب کچھ سیاسی قیادتیں نہیں کر سکیں گی، یہ ان کے بس کی بات نہیں ہے اور نہ ہی ان کا یہ مزاج ہے، یہ کام دینی قیادتوں کو کرنا ہو گا اور انہیں وہی کردار ادا کرنا ہو گا جو تحریک آزادی، تحریک پاکستان اور تحریک ختم نبوت میں ادا کیا تھا۔ ہم سب کو اس کے لیے تیار ہو جانا چاہیے اور اپنی اگلی نسلوں کو غلامی اور بے بسی کی دلدل سے نکالنے کے لیے قربانیاں دینا ہوں گی۔ یہ تو ہماری آزادی کا حال ہے، جبکہ دوسری طرف دین اور اس کی تکمیل کا معاملہ بھی دیکھ لیں۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر دین کی تکمیل کا معنی یہ تھا کہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام پر مسلسل وحی آتی رہی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مکمل ہو گئی، اور نسل انسانی کے لیے اللہ تعالیٰ کی ہدایات و احکام اور دین و شریعت کا اتمام ہو گیا۔ اس کے بعد تکمیل کا مطلب اس کے نفاذ اور معاشرہ میں اس کی عملداری ہے جو امت مسلمہ کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ ہم نے پاکستان کے نام سے الگ ملک اسی لیے قائم کیا تھا اور ملک بن جانے کے بعد ’’قراداد مقاصد‘‘ اور ’’دستورِ پاکستان‘‘ کی صورت میں اس کا اعلان کیا تھا کہ ہم پاکستان میں شریعت کا نظام نافذ کریں گے۔ جبکہ ہمارے ملک کے بانی قائد اعظم مرحوم نے اعلان کیا تھا کہ ہم اپنے ملک میں مغربی نظام معیشت کو جاری رکھنے کی بجائے اسلامی تعلیمات کے مطابق معاشی نظام رائج کریں گے۔ اس کی موجودہ صورتحال بھی ہمیں دیکھ لینی چاہیے کہ نہ ملک سے ابھی تک سودی نظام ختم ہوا ہے، اور نہ ہی قرآن و سنت کے احکام کی عملداری قائم ہوئی ہے۔ یہ بات سب کہہ رہے ہیں کہ ہماری معاشی بدحالی کی سب سے بڑی وجہ سودی نظام اور بیرونی مداخلت ہے۔ جس کے باعث مہنگائی کے عذاب سے قوم کا ہر طبقہ پریشان ہے۔ وفاقی شرعی عدالت، سپریم کورٹ، پارلیمنٹ، دستور، اسلامی نظریاتی کونسل اور پوری قوم متفق ہے کہ سودی نظام کو جلد از جلد ختم ہونا چاہیے۔ مگر حکمران طبقات اس کے لیے سنجیدہ نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ ملک میں بے حیائی کو فروغ دیا جا رہا ہے اور مغربی فکر و فلسفہ اور تہذیب طوفانِ بدتمیزی کی طرح نئی نسل کو گھیرے میں لے رہی ہے مگر ہم سب اپنے اپنے کاموں میں مگن ہیں۔ آج عید کے دن میں قوم سے یہی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ دین کی تکمیل اور آزادی کسی قوم کے لیے خوشی اور عید کا سب سے بڑا سبب ہوتے ہیں۔ آج یہ دونوں کسمپرسی کے عالم میں ہیں۔ جب تک ہم غیر ملکی مداخلت سے آزادی حاصل کر کے خود اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کا راستہ اختیار نہیں کریں گے، دستورِ پاکستان کے مطابق سودی نظام سے نجات اور قرآن و سنت کے احکام و قوانین کی عملداری کا اہتمام نہیں کریں گے، اس دلدل سے نہیں نکل سکیں گے۔ اور ایک بات یہ بھی شامل کر لیں کہ ہم سب لوگ اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگتے رہتے ہیں کہ یا اللہ! ہمارے حالات کو ٹھیک کر دے، ہمیں یہ دعائیں ضرور کرنی چاہئیں مگر یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’لا یغیر ما بقوم حتٰی یغیروا ما بانفسہم‘‘۔ اللہ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک قوم خود اپنی حالت بدلنے کا فیصلہ نہ کر لے۔ فیصلہ ہم نے کرنا ہے اور اس پر عمل کی توفیق اور مدد اللہ تعالیٰ نے فرمانی ہے۔ آج عید کا دن ہم سے اس عہد کا تقاضہ کرتا ہے کہ ہم اپنی آزادی اور خودمختاری کو بحال کریں گے اور قرآن و سنت کے احکام و قوانین کی عملداری قائم کریں گے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔