ان کی آنکھوں میں مجھے امید کی ذرا سی رمق بھی دکھائی نہیں ،جو اداسی ، ناامیدی ،مایوسی اورغم انگیزی چہرے پر سجائے گئے تھے اتنے سال علاج ،معالجے کے باوجود بھی وہ اسی حالت میں واپسی کے سفر پر رواں ہیں اوروہ عدالت کے اجازت نامے سے ان حالات میں ملک سے باہر گئے تھے جب ملک سیاسی افراتفری کی لپیٹ میں تھا ،سیاسی کارکن گھبرائے ہوئے تھے ،انہیں اپنے قائدکااپنے درمیان ہونا اور ان کے حوصلوں کو قائم رکھنے کی ضرورت تھی مگر وہ حسب روایت اپنے کارکنوں کو کرلاتا ہوا چھوڑ کر لندن روانہ ہو گئے ،بس اس فرق کے ساتھ کہ اب کی بار سو صندوق اپنے ساتھ نہیں لے گئے۔کسی بھی جماعت کے قائدکا سیاسی انارکی کے دنوں میں اپنے کارکنوں کے درمیان ان کی سیاسی جدوجہد کو مہمیز لگانے کے مترادف ہوتا ہے ۔ان کا اپنے کارکنوں کو چھوڑ کر چلے جانا اس امر کی علامت تھا کہ ان کے ملک میں صحت کی سہولتوں کا فقدان ہے مگر انہوں نے تاحال اپنی حکومت پر دبائو نہیں ڈالا کہ عام آدمی کے لئے صحت کی سہولتوں کے لئے بہتر انتظام کرے انہوں نے اپنے بھائی وزیر اعظم کے پیش کئے گئے بجٹ پر غربت کے پہاڑ کھڑے کرنے اور ساری مراعات کا رخ پارلیمنٹیرین اور نوکر شاہی طرف یک سو رکھنے کے عمل پر کوئی تنقید نہیں کی۔
بہرحال وہ چوتھی بار وزیراعظم بننے کا خواب یا ارمان لئے لندن سے نکل کھڑے ہوئے ،اپنے پہلے پڑائو دبئی میں انہوں نے جہاں پارٹی کے سرکرددہ رہنمائوں سے ملاقات کی یقیناً وہ ایسے لوگوں سے بھی ضرور ملے ہو گے جو ان کے اپنے ملک آنے اور کی سیاسی سرگرمیوں کی ضمانت دیں ،اس کے بعد وہ سعودی عرب جائیں گے وہاں سے بھی اپنی سیاسی حرکت و عمل کی پیشگی ضمانت لیں گے اور ایک بار پھر لندن (شائد)پھر جاکر اپنے سیاسی مشیروں سے مشورہ کرنے کے بعد پاکستان واپس آئیں گے ،ویسے ان کے چہرے پر وطن واپسی کی خوشی اور انبساط کے کوئی اثار نہیں تھے ایک ملول سا چہرہ اس پر پریشانی و پشیمانی اور مردنی کے سائے ۔گو ا ن کے سارے قانونی معاملات پر نظر ثانی کی سند ان کو عطا کردی گئی ہے اور مقتدرہ کا اجازت نامہ بھی ان کے کشکول میں ہوگا تبھی وہ اپنے خواب کی تعبیر کے تعاقب میں عازم سفر ہوئے ہوں گے کہ کچی گولیاں ا نہوں نے کبھی نہیں کھیلیں ،ان کے سانحہ نگار جابجا ان کا یہ جملہ خصوصاً ریفرنس کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ’’میں کاروباری آدمی ہوں مجھے اشیا ہی نہیں انسانوں کی قیمت کابھی علم ہے‘‘۔ان کی زندگی کا یہ وہ گر ہے جو انہوں نے اپنے کامیاب کاروباری باپ سے سیکھا اور قدم قدم پر ان کی کامیابی کی ضمانت بنتا رہا ہے اور اب بھی یہی ’’گر‘‘ ان کے کام آئے گا۔ وہ حج کے بعد وطن واپس آجائیں گے ان کابھائی جن بیساکھیوں کے سہارے اقتدار کے سنگھاسن پر متمکن ہے یہ انہی بیساکھیوں کے سہارے شائد اقتدار کی کرسی پر بیٹھ جائیں کہ یہی ایک راستہ ہے ان کے پاس وگرنہ عوامی حمایت کے سہارے ان کا اقتدار میں آنا اتنا ہی ناممکن ہے جتنا کہ سورج کا مغرب سے طلوع ہونا ۔کیا سیاسی اثاثہ ہے ان کے پاس ؟ عدلیہ کے وقار کو مجروح کرنا،ووٹ کی عزت وحرمت کو پامال کرنا ،عوام کو غربت و افلاس کے گہرے کنویں میں ڈال دینا ، ملک کو آئی ایم ایف کے ہاتھوں بیچ دینا،عام آدمی کے سانس لینے تک پر ٹیکس لگا دینا ،ملک کے خزانے کوذاتی تشہیر پر لٹادینا، اندرون اور بیرون ملک قومی وقار کسی قابل نہ چھوڑنا ،اپنی ہونہار بیٹی کے ذریعے ملک کے سیاسی کلچر کو یاواگوئی کاایک نمونہ بنادینا۔یہی ان کی جماعت کے اثاثے ہیں۔ سیاسی کارکنوں کو ووٹ کی عزت کی چوسنی تھما کرخود عیش وعشرت شبستانوں میں زندگی گزارنا اوروطن آنے کے لئے ایسی صورت بنالینا جیسے شب غم گزار کے آرہا ہو۔ نیب نے انہیں صادق امین ہونے کی سند سے سرفراز کردیا ،پلاٹس کے مقدمات ہوں یا دیگر بدعنوانیوں کے سب سے انہیں بری کردیاگیا ،عدلیہ کے ہدیہ تبریک کے لئے فائز عیسیٰ کو وقت سے پہلے چیف جسٹس بنائے جانے کا فیصلہ ہوچکا ،کوئی عدالتی سقم باقی رہ گیا ہے تو وہ دور کردیں گے ،سب فیصلے لکھے پڑےہیں شائد ان کی ہونہار بیٹی ان فیصلوں کی کاپیاں لئے دبئی میں پہنچ چکی ہیں اب ان کے ساتھ حجاز کا سفر کریں گی ۔اب یہ معلوم نہیں وزیراعظم کا قرعہ ان کے نام نکلتا ہے یا ان کی ہونہار بیٹی کے نام جو ہمارے تہذیبی زوال کی چلتی پھرتی تصویر ہے مگر ہے تو میاں نواز شریف کی دختر نیک اختر ناں ،اس کے لئے یہی اعزاز ہی کافی ہے ورنہ اب مسلم لیگ ن کے لئے عوام کی حمایت کا خواب تو چکنا چور ہو ا میاں نواز شریف کی باڈی لینگویج میں تھکاوٹ کااحساس کوٹ کوٹ کربھراہواہے۔اس احساس کو کیسے مٹا پائیں گے ،ضمیر کا بوجھ بھی تو سامان سفر کے لئے ضروری ہے فقط سانسیں ہی بہت نہیں ہے۔