اہم خبریں

جنت میں سونے کے تختوں پر بیٹھنے والے!

(گزشتہ سے ییوستہ) اور اگر وہ بھی شہید ہوجائے تو پھر حضر ت عبد اللہ بن رواحہ ؓ امیر لشکر ہوں گے اور اگر وہ بھی شہید ہو جائے تو پھر لشکر والے جسے چاہے امیر بنالیں چنانچہ لشکر تیار ہوا۔ سیرت ابن ہشام میں لکھا ہے کہ مسلمانوں کی تعداد تین ہزار پر مشتمل تھی اور آپﷺ نے لشکر کو رخصت فرمایا جب سب رخصت ہوگئے تو حضر ت عبد اللہ بن رواحہ ؓآپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپﷺ نے انہیں رخصت کیا۔ جب سب رخصت ہونے لگے تو حضر ت عبداللہ بن رواحہ ؓ رونے لگے۔ صحابہؓ نے پوچھا اے عبد اللہ کیوں روتے ہو۔ فرمایا میں دنیا یا کسی چیز کی محبت میں نہیں رو رہا بلکہ مجھے آپﷺ سے سنی گئی ایک آیت رلا رہی ہے۔

ترجمہ:’’ یعنی تم میں سے کوئی ایسا نہیں جو دوزخ پر وارد نہ ہوگا یہ اللہ کا پکا وعدہ ہے۔‘‘ اس خوف سے رو رہا ہوں کہ کس طرح چھٹکارہ ملے گا۔ مسلمانوں نے تسلی دی ۔ جاتے ہوئے کچھ اشعار پڑھے جو کہ تاریخ کا سنہری حصہ ہے۔ ترجمہ: میں اللہ سے مغفرت مانگتا ہوں اور تلوار کا ایسا وسیع (بڑا) گھائو کھانے کی دعا کرتا ہوں جو خون کے جھاگ ڈال رہا ہو یا نیزے کی ایسی ضرب کہ جو انٹریوں اور جگر کے پار ہو جائے تاکہ جب لوگ میری طرف سے گزریں تو کہیں اللہ تعالیٰ اس کو نیکی دے یہ وہی شخص ہے جس نے جہاد کیا اور ہدایت پائی۔ غرض مختصراً یہ کہ لشکر چلتے چلتے موتہ کے قریب مقام معان پہنچا جو سرزمین شام کا علاقہ ہے۔ ہر قل بادشاہ نے روم اور شام سے ایک لاکھ فوج رومیوں کی اور1 لاکھ فوج قبائل لخم و جذام اور بہرا وغیرہ سے جمع کی تھی۔ اتنی بڑی فوج اوردوسری طرف صرف تین ہزار صحابہؓ مسلمان اس سوچ میں تھے کہ آپﷺ کو خط لکھ کر آگاہ کیا جائے کہ دشمن اس قدر کثیر تعداد میں ہے کہ آپﷺ ہماری مدد کے لئے لشکر روانہ فرمائیں یا کوئی اور حکم کریں تاکہ اس کے مطابق فیصلہ کیا جائے۔ اس موقع پر حضرت عبد اللہ بن رواحہ ؓ نے ایک زبردست ولولہ انگیز تقریر کی اور فرمایا۔ اے قوم تم شہادت کی تلاش میں آئے ہو پھر تم کو دشمن کی تعداد اور کثرت کا کیا اندیشہ ہے۔ تم لوگ تعداد اور شمار اور کثرت و قلت کے حساب سے جنگ نہیں کرتے تم تو دین حق کی اشاعت کے لئے نکلے ہو جس دین سے اللہ نے تمہیں بزرگی دی ہے اور شہادت تمہارا مقصود ہے۔ بسم اللہ پڑھ کر قدم بڑھا دو نیکیوں میں سے ایک نیکی تمہارے لئے ضرور ہے۔ یااللہ تم کو غالب کر دے گا یا تم شہید ہوگے۔ تمہارا مقصد ہر حال میں پورا ہوگا۔ یہ خطاب سن کر مسلمانوں کے لشکر کا جذبہ بڑھ گیا اور کہا عبد اللہؓ بے شک تم سچ کہتے ہو۔ زید بن ارقم کہتے ہیں موتہ کےقریب پہنچنےکے بعد ایک رات میں نےحضرت عبد اللہ بن رواحہ ؓ کوسنا وہ کچھ اشعار جن میں شہادت کا ذکر تھا پڑھ رہے تھےمیں رونے لگا تو حضرت عبد اللہ بن رواحہ ؓ نے غصےسے مجھے کہا تم کیوں روتے ہو اللہ مجھے شہادت نصیب کرے گا۔ بالآخر موتہ کے مقام پر تین ہزار مسلمانوں کا لشکر ہرقل کی عظیم الشان فوج سے جاٹکرایا اور ہر طرف لاشیں گرنے لگی۔ حضرت زید بن حارثؓ امیر لشکر بڑی بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔ ان کے بعد حضرت جعفر طیارؓ نے جھنڈا اٹھایا اور آخری شام تک لڑتے ہوئے وہ بھی شہید ہوگئے۔ حضرت جعفرؓ کی شہادت کے بعد حضر ت عبد اللہ بن رواحہ ؓ نے آپﷺ کے حکم کے مطابق اسلامی لشکر کا نشان (جھنڈا) اپنے ہاتھ میں لیا وہ اس وقت گھوڑے پر سوار تھے پھر گھوڑے سے نیچے اترے اس وقت ان کے چچا زاد بھائی نے بھنا ہوا گوشت کا ٹکڑا لیا اور کہا کہ ذرا اپنی کمر کو مضبوط کرو کیونکہ تم بھوکے ہو۔ اسی دوران لشکر کے ایک طرف سے شور کی آواز بلند ہوئی۔ بس گوشت کو پھینک کر لشکر کی طرف بڑھے اور اس قدر لڑے کہ شہید ہوگئے۔ ابن اسحاق نے لکھا ہے کہ جب یہ تینوں اس جنگ میں شہید ہو رہے تھے تو دوسری طرف آپﷺ نے مدینہ کے اندر بیٹھ کر فرمایا کہ حضرت زید بن حارثؓ نے نشان اپنے ہاتھ میں لیا اور لڑتے شہید ہوگئے۔ پھر جعفرؓ نے لیا وہ بھی لڑ کر شہید ہوگئے یہ کہہ کر آپﷺ خاموش ہوگئے اور انصار سمجھ گئے اور ان کے چہرے متغیر ہوئے کہ ضرور حضر ت عبد اللہ بن رواحہ ؓ بھی شہید ہوگئے ہیں۔ پھر آپﷺ نے فرمایا عبد اللہ بن رواحہ ؓ نے نشان لیا اور وہ بھی لڑے اور شہید ہوگئے۔ پھر مزید فرمایا میں نے ان لوگوں کو خواب میں جنت کے اندر سونے کے تختوں پر بیٹھے ہوئے دیکھا ہے اور میں نے عبد اللہ کے تخت میں بمقابلہ حضرت جعفرؓ اور زیدؓ کے تخت ایک قسم کی کمی دیکھی میں نے پوچھا کیا وجہ ہے۔ فرمایا ان دونوں نے تردد نہیں کیااور عبد اللہ نے تھوڑا سا تردد کیا۔ غرض یہ کہ اللہ کے محبوب نبیﷺ کی جماعت کا یہ بدری صحابی جمادی الاول 8 ہجری موتہ میں شہید ہوکر جنت کے تخت پر جابیٹھا۔ اللہ ہمیں بھی جنت نصیب کرے ۔ آمین

متعلقہ خبریں