٭ روس میں فوجی بغاوت، سڑکوں پرٹینک آگئے۔ صدر پیوٹن کی51 ہزار نجی ’’ویگنر‘‘ فوج کے سربراہ ’’ویوگنی پری گوزن‘‘نےپیوٹن کےخلاف ہی بغاوت کااعلان کردیا ہے، یوکرائن سےبڑی تعدادمیں روسی فوجی واپس بلا لئےہیں اورروسی فوج کاایک ہیلی کاپٹرگرالینےکااعلان بھی کیاہے۔ ’ویگنر‘ کی نجی فوج کوروس کی وزارت دفاع باقاعدہ مکمل فوجی سہولتیں،اسلحہ، وردیاں اور فنڈزفراہم کرتی ہے۔ یہ فوج 2014ء میں پیوٹن نے اپنے ذاتی کنٹرول اورحفاظت کے لئےتشکیل دی تھی۔ اس کا ہیڈ کوارٹر ’’سینٹ پیٹرز برگ‘‘ میں ہے۔ اس کاسرکاری فوجی ’لوگو‘ بھی ہے اس میں ’’خون، عزت، جرأت‘ کے الفاظ درج ہیں۔
٭ملک کی تاریخ میں پہلی بار صدر،چیئرمین سینٹ اور قومی اسمبلی کےسپیکرحج پرجارہےہیں۔ مکہ معظمہ میں ان کی نوازشریف اورشہبازشریف کےخاندانوں سے بھی ملاقاتیں ہوں گی۔ آئین کےمطابق صدرمملکت بیرون ملک جارہے ہوں توسینٹ کاچیئرمین، وہ نہ ہو توسپیکر اوروہ بھی نہ ہوتوسپریم کورٹ کاچیف جسٹس قائم مقام صدرکاعہدہ سنبھالتا ہے۔ موجودہ صورتحال میں یہی منظردکھائی دےرہا ہےیہ دلچسپ بات ہوگی کہ صدرکے طور پر ان کے سامنے ایسے قانونی بِل منظوری کےلئے پیش ہوسکتے ہیں جن کے بارے میں سپریم کورٹ امتناعی حکم جاری کرچکی ہےیاوہ عدالت میں زیر سماعت ہو سکتی ہیں۔ حج کی ادائیگی میں کم ازکم پانچ چھ روزلگ سکتے ہیں۔ یوں تقریباً چھ روز تک سپریم کورٹ چیف جسٹس کےبغیررہےگی اس دوران آئین کی دفعہ 180کے تحت ’’صدر مملکت‘‘ سپریم کورٹ کے سینئرترین جج کوقائم مقام چیف جسٹس مقرر کرے گا۔ یہ مزید اہم بات ہو گی کہ موجودہ چیف جسٹس عمر عطابندیال قائم مقام صدر کےطور پرجسٹس فائز عیسیٰ کو کم ازکم چھ سات دنوں کےلئےقائم مقام چیف جسٹس مقررکریں گےجنہیں چیف جسٹس کے مکمل اختیارات حاصل ہوں گے اور وہ موجودہ چیف جسٹس کے ناقابل قبول فیصلے بھی تبدیل کر سکیں گے۔ بہرحال اگلے چند روز دلچسپ ثابت ہوں گے! ٭اس بار انتخابات اکتوبر یانومبر میں یقینی دکھائی دیتے ہیں۔ ضروری فنڈزریزروکر دیئے گئے ہیں، پوسٹل ووٹوں کی چھپائی شروع ہو رہی ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں نے تیاریاں شروع کردی ہیں۔ آصف زرداری نےباقاعدہ انتخابی منشورکااعلان کردیاہے۔ نوازشریف کو واپس لانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔نئی سیاسی پارٹی ’’استحکام پاکستان‘‘ کا منشور تیارکیاجارہا ہے (منشورکےبغیر پارٹی!!!) جے یو آئی، اور ق لیگ بھی سرگرم ہو گئی ہیں۔ تحریک انصاف ابھی ٹوٹ پھوٹ کے عمل سے دوچار ہے، اسکی باقی رہنے والی شکل ہی واضح نہیں ہو رہی۔ موجودہ 13پارٹیوں کی اتحادی حکومت کا شیرازہ بکھرنے والا ہے۔ اِس میں شامل پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی بڑی پارٹیاں ابھی سے ایک دوسرے کے مدمقابل آ گئی ہیں۔ پیپلزپارٹی نےواضح اعلان کیا ہے کہ وہ کسی سے انتخابی اتحادیاسیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں کرے گی اور سِنگل آزاد پارٹی کی حیثیت سےالیکشن لڑے گی۔ اس پارٹی کو اپنی کامیابی اور نئی حکومت بنانے کا اتنا پختہ یقین ہو گیاہےکہ بلاول زرداری بارباراپنے وزیراعظم ہونے کا اعلان کررہاہے۔ جماعت اسلامی فی الحال کراچی کے میئر کے انتخابی تنازع میں الجھی ہوئی ہے، عام انتخابات کے بارے میں سرگرم دکھائی نہیں دے رہی۔ ٭ لاہور میں کچھ شہریوں اور ٹریفک پولیس نے ایک 13 سالہ بچی کوٹریفک سے بھری مال روڈ پر موٹر سائیکل چلاتے دیکھااور روک لیا۔اس کے پیچھے اس کا سات سالہ بھائی بھی بیٹھاہوا تھا۔ لڑکی بالکل ہراساں نہیں ہوئی بلکہ مختلف سوالات کےبڑے شوخ جوابات دیئے۔ اس نے بتایاکہ وہ شہر کےایک کونے سےدوسرے کونےتک تقریباً 10 کلومیٹر کافاصلہ روزانہ طے کرتی ہے اور ایک گھر سے دوسرے گھرتک آتی جاتی ہے، اسے کبھی کسی نے نہیں روکا۔ اس نے کہا کہ موٹرسائیکل اسکےباپ نےاسے دیاہواہے اور اسے اس کی سڑکوں پرڈرائیونگ کا علم ہے، مزید یہ کہ اس کے محلے میں دوسرے چھوٹے چھوٹے بچے بھی موٹر سائیکل لئے پھرتے ہیں۔ اس بچی کے باپ کو بلایاگیا تو اس نے 13 سالہ بچی کی ڈرائیونگ کو معمولی واقعہ قراردیا۔ پولیس نےاسےبتایاکہ یہ موٹرسائیکل تھانے میں ضبط کیاجائےگا اور بچی کے باپ سے تحریری ضمانت نامہ تحریرکرایاجائےگا کہ آئندہ اس کاکوئی بچہ ایسی حرکت نہیں کرےگا۔ اس پر وہ شخص نرم ہوااور پولیس اسےاور دونوں بچوں کو تھانے لے گئی۔ ٭پنجاب کے آئی جی پولیس ڈاکٹرعثمان انورکابھی تبادلہ متوقع ہے۔ عمران خان نےعثمان بزدارکوپنجاب کا وزیراعلیٰ بنایاتھا۔ عثمان بزدارکا کوئی اہم سیاسی پس منظر نہیں تھا، دوردراز کےایک چھوٹے سے گائوں سے تعلق تھا۔ عمران خان نے حکومت کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ اسے کام کرنےکا موقع دینے کی بجائے وفاق میں ساڑھے تین برسوں میں چار وزیرخزانہ، پنجاب میں پانچ چیف سیکرٹری اور 6 آئی جی پولیس تبدیل کئے۔ بزدار نے مختصرعرصے میں سینکڑوں سیکرٹریوں،کمشنروں، ڈپٹی کمشنروں اوردوسرے بڑے بڑے افسروں کے تبادلے کر کےصوبے کی انتظامیہ کو مفلوج کرکےرکھ دیا۔ اب یہ شخص اربوں کی اراضی کے سکینڈل بھگت رہا ہے! اس کا واضح نتیجہ وفاق اورصوبے میں سیاسی و انتظامی عدم استحکام۔ سیاست میں کھیل تماشے کے شوق کا عالم یہ کہ کسی باقاعدہ وزیراطلاعات کےتقرر کی بجائےسیالکوٹ سے الیکشن میں ہارنے والی ایک خاتون کو وزارت اطلاعات کاچارج دے دیاگیا۔ وہ خاتون دن رات عمران خان کی تعریفیں کرنے کے لئےباقاعدہ صبح و شام پریس کانفرنسیں کیاکرتی تھی۔ اب وہی خاتون نئی عمران مخالف ’استحکام پارٹی‘ سے چپک گئی اور دن رات عمران خان کی خرابیاں اور خامیاں بیان کرتی رہتی ہے۔ گزشتہ روز اس نےعمران خان کےبارےمیں گالی نماجوکچھ کہا میں اسے بیان کرنامناسب نہیں سمجھتا! ٭سرکشی کی انتہاہوگئی ہےکہ وفاقی حکومت کے وزیراعظم،وزراء اورخصوصی معاونین کھلے عام سپریم کورٹ کےخلاف گالیوں کی حد تک نیچےاترآئے ہیں۔ قومی سطح پربعض اداروں کومجبوراً ’’مقدس گائے‘‘ کی شکل دیناپڑتی ہے تاکہ ان کی ساکھ،ان کے وجود کا تقدس اور احترام برقرار رہے۔ اس ضمن میں فوج،عدلیہ اوراساتذہ کےنام نمایاں ہیں۔ بلاشبہ ان تینوں اداروں کا اپناعمل اور کارکردگی بھی ایسی مثالی نہیں رہی، انگریزوں کے دور میں عدلیہ کااتنا رعب اور رکھ رکھائو ہوتا تھا کہ ضلع کچہریوں کے اردگرد کسی گاڑی حتیٰ کہ موٹر سائیکل کا ہارن بھی نہیں بجایا جا سکتا تھا۔ عدالتوں کے باہراوراندراونچی آواز سے بات نہیں کی جا سکتی تھی۔ دروازے آہستگی سے کھولنے اور بند کرنے کا حکم تھا۔ ٭فوج میں نظم وضبط کا عالم یہ تھا کہ قانون کے تحت فوج کےبارے میں کوئی تضحیک آمیز یا تمسخرانہ بات نہیں کہی یا لکھی جا سکتی تھی۔ پاکستان کے آئین کی دفعہ 63 (ج) میںاب بھی درج ہے کہ عدلیہ اور مسلح افواج کی تضحیک کرنےوالاشخص کسی اسمبلی کا انتخاب نہیں لڑ سکتا اوراگر اسمبلی کارکن ہے تو نااہل ہو جائے گااور رکنیت ختم ہو جائے گی۔ ٭ہمارا سماجی نظام: راولپنڈی کے علاقہ ’مغل سراں‘ میں 1970ء میں پانچ کنال ایک مرلہ سرکاری زمین پر ایک قبضہ گروپ نے قبضہ کر کے مارکیٹ بنا لی۔ متعلقہ محکمے نےتھانے میں جگہ خالی کرانے کی رپورٹ درج کرا دی۔ 1970ء کے 53 سال بعد یہ مارکیٹ سربمہر کر دی گئی ہے۔ صرف 53 سال بعد!!کیا کہا جائے؟