وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہاہے کہ ’’ناموس رسالتﷺ پر کسی قسم کی مصلحت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا‘ عشق رسالتؐ ہر مسلمان کی رگ رگ میں ہے‘ ناموس رسالتؐ کا تحفظ ہر مسلمان کا دینی فریضہ ہے‘ انہوں نے کہا کہ ختم نبوتؐ پر ایمان نہ رکھنے والا مسلمان نہیں ہوسکتا۔‘‘ بے شک‘ ان کی یہ ساری باتیں سو فیصد درست ہیں‘ پاکستان میں سوشل میڈیا کے ذریعے بدترین گستاخانہ مواد شیئر کرکے جس طرح سے ناموس رسالتؐ پر حملے کئے جارہے ہیں‘ اس کی نشاندہی یہ خاکسار اوصاف کے انہی صفحات پر اپنے کالموں پر وقتاً فوقتاً کرتا چلا آرہاہے‘ عد التوں میں گستاخوں کے خلاف مقدمات لڑنے والی تنظیم تحریک تحفظ ناموس رسالتؐ پاکستان کے مطابق ناموس رسالتﷺ پر حملوں اور دیگر مقدس شخصیات کی توہین کا جرم ثابت ہونے پر اب تک عدالتوں سے 9 ’’ملعون‘‘ سزائے موت پاچکے ہیں۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن گستاخوں کو عدالتیں موت کی سزا سناتی ہیں‘ حکومت ان سزائوں پر عملدرآمد یقینی کیوں نہیں بناتی؟ جبکہ سوشل میڈیا پر بدترین گستاخانہ مواد شیئر کرنے کے جرم میں اب تک ملک بھر سے سینکڑوں گستاخ گرفتار کئے جاچکے ہیں‘ اللہ تحریک تحفظ ناموس رسالتؐ پاکستان کے بانی صدر محترم طارق اسد ایڈووکیٹ مرحوم کی قبر کو نور سے بھر دے‘ صلیبی‘ یہودیوں اور ملحدین کی پشت پناہی سے 2017 ء میں ملعون بلاگرز نے آقا و مولیٰ ﷺ‘ امہات المومنینؓ‘بنات رسول اللہﷺ اور صحابہ کرامؓ کے خلاف بدترین گستاخانہ مواد شیئر کرنا شروع کیا‘ تو وہ تڑپ اٹھے‘ سپریم کورٹ سے سیدھے آبپارہ روزنامہ اوصاف کے دفتر تشریف لائے‘ اور اپنا درد دل ہمارے سامنے رکھا‘ اور پھر انہوں نے تحریک تحفظ ناموس رسالتﷺ کے پلیٹ فارم سے گستاخ ملعونوں کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں جدوجہد شروع کر دی‘ طارق اسد ایڈووکیٹ نوراللہ مرقدہ مولوی‘ پیر‘ علامہ یا کسی مدرسے کے مہتمم تو نہ تھے‘ وہ سپریم کورٹ کے سینئر ترین وکیل تھے‘ مگر وہ ’’مدینہ‘‘ کی مٹی میں گندھا ہوا ’’دل‘‘ لے کر پیدا ہوئے تھے‘ عشق مصطفیﷺ‘ عشق صحابہ کرامؓ و اہل بیت اطہارؓ‘ ان کی رگ رگ میں سمایا ہوا تھا‘ ناموس رسالتﷺ کے تحفظ کے لئے وہ ہر ’’حد‘‘ سے گزر جانا اپنے لئے راحت اور سعادت سمجھا کرتے تھے‘ 2017 ء میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں جسٹس شوکت صدیقی کی عدالت میں اس وقت کے گستاخ بلاگرز کے خلاف مقدمے کی سماعت ہو رہی تھی‘ یہ خاکسار طارق اسد ایڈووکیٹ کے ہمراہ جسٹس شوکت صدیقی کی عدالت میں حاضر تھا‘ دوسری طرف سے یعنی گستاخ بلاگرز کی حمایت میں آنجہانی عاصمہ جہانگیر چند خواتین سمیت مقدمے کی سماعت کے دوران اپنی موجودگی ثابت کرنا ضروری سمجھتی تھیں‘ جبکہ بلاگرز کے خلاف ناموس رسالتﷺ کے تحفظ کے لئے جامعہ حفصہ کی مہتم اُم احسان صاحبہ اپنی برقعہ پوش بچیوں کے ساتھ عدالت میں موجود رہتیں‘ اس دوران ایک دلچسپ واقعہ بھی پیش آیا‘ جناب جسٹس شوکت صدیقی نے مقدمے کی سماعت ختم کی تو ہم سب باہر نکل آئے‘ محترمہ عاصمہ جہانگیر نے بڑبڑاتے ہوئے کہا کہ یہ ’’مسجد‘‘ نہیں ’’عدالت‘‘ ہے‘ عدالت میں ملاگیری نہیں چلے گی‘ محترم طارق اسد ایڈووکیٹ نور اللہ مرقدہ ان کی گفتگو سنتے سنتے جب گاڑی کے پاس پہنچے تو عاصمہ جہانگیر اپنی گاڑی کی پچھلی نشست سنبھال چکی تھیں‘ ڈرائیور کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر ان کا گارڈ بیٹھا ہوا تھا‘ اسی اثناء میں طارق اسد نے ان سے مخاطب ہوکر اونچی آواز سے کہا کہ ’’محترمہ‘‘ اب تو آپ کو یقین آگیا ہوگا کہ واقعی ناموس رسالتﷺ پر حملے ہو رہے ہیں‘ ’’محترمہ‘‘ نے خشمگین نگاہوں سے محترم طارق اسد ایڈووکیٹ کو گھورا‘ مگر بولیں نہیں‘ طارق اسد ایڈووکیٹ کا اگلا سوال کسی قادیانی کے حوالے سے تھا‘ جسے سن کر عاصمہ جہانگیر شدید غصے میں آگئیں‘ اور فرنٹ سیٹ پر بیٹھے ہوئے اپنے گارڈ سے گن چھیننے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ ٹھہر طارق میں تیرا علاج کرتی ہوں‘ بہرحال قریب ہی موجود وکلاء نے معاملہ رفع دفع کروا دیا‘ مجھے یاد ہے کہ اسی ناخوشگوار واقعہ کی خبر اگلے دن کے اخبارات کی زینت بھی بنی ‘ مطلب یہ کہ محترم طارق اسد نور اللہ مرقدہ نے عدالتوں کے اندر باہر ہر جگہ تحفظ ناموس رسالتﷺ کے لئے اپنے آپ کو وقف رکھا‘ محترمہ عاصمہ جہانگیر ایڈووکیٹ اور محترمہ طارق اسد نور اللہ مرقدہ‘ دونوں ہی دنیا سے رخصت ہوکر رب کے دربار میں پیش ہوگئے‘ اس لئے ان کامعاملہ اللہ کے سپرد‘ لیکن ہم اپنے ’’اللہ جی‘‘ سے التجا تو کرسکتے ہیں کہ یارب العالمین! جیسے تیرے ایک عاجز بندے طارق اسد نے دنیا میں تیرے پاک نبیﷺ کی ناموس کے تحفظ کے لئے بڑے دبنگ اور جرات مندانہ انداز میں اپنے آپ کو وقف کیے رکھا‘ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے وہ عدالتوں کی خاک چھانتا رہا‘ رسوا کن ڈکٹیٹر پرویز مشرف کو مسلم نوجوانوں کو امریکہ کے حوالے سے کرنے سے کیسے روکا جائے‘ اس جدوجہد کے لئے وہ عدالتوں کے دھکے کھاتا رہا‘ ’’اللہ جی‘‘ اپنے اس بندے طارق اسد کی قبر کو نور سے بھر دیجئے ‘ تاحد نگاہ وسیع فرما دیجئے‘ ان کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرما دیجیئے۔ یاد رکھیئے! تحفظ ختم نبوتؐ اور تحفظ ناموس رسالتﷺ کوئی معمولی کام نہیں ہے‘ اس کام کے لئے اللہ اسے ہی منتخب کرتے ہیں کہ جسے لاکھوں‘ کروڑوں انسانوں میں سے چن لیتے ہیں‘ یہاں کسی کو جمہوریت کے محافظ کے طور پر ‘ کسی کو گھروں سے بھاگ کر شادیاں رچانے والیوں اورکسی کوگستاخوں کے حامی کے طور پر یاد رکھا جائے گا‘ مگر طارق اسد نور اللہ مرقدہ‘ مجاہد ناموس رسالتﷺ اور عدالتوں میں مظلوم انسانوں کے مددگار کے طور پر ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گے‘ آج ہر پاکستانی مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ سوشل میڈیا پر بدترین گستاخانہ مواد شیئر کرنے کے فتنے کا ڈٹ کر مقابلہ کرے‘ جو شخص اپنے پاک نبیﷺ کی ناموس کا دفاع نہیں کرسکتا‘ اور نہ ہی کرنا چاہتا ہے ایسے شخص کو مسلمان کہلوانے کا کوئی حق نہیں۔ (وما توفیقی الا باللہ)