انسانی سمگلنگ
(گزشتہ سے پیوستہ) لیبیا میں پاکستان کا سفارت خانہ جاں بحق افراد کی شناخت کے عمل میں سہولت فراہم کر رہا ہے۔ مقامی حکام اور ہلال احمر کی انٹرنیشنل کمیٹی کے تعاون سے لاشیں پاکستان لائی گئیں۔ اسی طرح کا ایک تیسرا واقعہ چند ماہ قبل جنوبی اٹلی کے ساحل میں پیش آیا تھا، حادثے کی شکار کشتی میں پاکستان، افغانستان، ایران اور دیگر کئی ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد سوار تھے۔
کشتی ڈوبنے کے اس واقعہ سے ایک روز بعد ہی امریکی محکمہ خارجہ نے انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے لئے نمایاں کردار ادا کرنے پر پاکستانی پولیس افسر ظہیر احمد کو ایوارڈ سے نوازا۔انہیں 2023ء کے 8 انسداد اسمگلنگ ہیروز میں سے ایک کے طور پر اعزاز سے نوازا گیا اور اس بات کا اعتراف کیا گیا کہ پاکستان نے انسانی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے کوششوں میں اضافہ کیا ہے۔اعزازی فہرست کا اعلان جمعرات (15 جون) کو واشنگٹن میں ایک خصوصی تقریب میں کیا گیا جہاں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے 2023ء کے لیے انسانی اسمگلنگ کی سالانہ رپورٹ جاری کی۔رپورٹ میں پاکستان کو دوسرے درجے کے ممالک میں شامل کیا گیا جہاں کی حکومتیں انسداد اسمگلنگ کے معیارات پر پورا نہیں اترتیں لیکن ان معیارات تک پہنچنے کے لیے اہم کوششیں کر رہی ہیں۔امریکی محکمہ خارجہ تسلیم کر رہا ہے کہ 2022 ء میں پاکستان نے انسانی اسمگلروں کے خلاف تحقیقات، مقدمہ چلانے اور سزا دینے کے لیے کوششوں میں مجموعی طور پر اضافہ ظاہر کیا۔پاکستان کی پولیس سروس میں ایک ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) ظہیر احمد کو قانون نافذ کرنے والے ممتاز اداروں اور کارکنوں کی عالمی فہرست میں سے منتخب کیا گیا جنہوں نے 2023 ء میں انسانی اسمگلنگ کی روک تھام میں کلیدی کردار ادا کیا، اس سے قبل وہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے انسداد انسانی اسمگلنگ یونٹ کے ڈائریکٹر کے طور پر کام کر چکے ہیں۔امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ ظہیر احمد نے اس یونٹ کے ڈائریکٹر کے طور پر اپنے دور میں انسانی اسمگلنگ سے نمٹنے کے لیے پاکستان کی کوششوں کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔رپورٹ میں پاکستان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں میں بدعنوانی سے نمٹنے اور اسمگلنگ کے تفتیش کاروں اور پراسیکیوٹرز کو بیرونی اثر و رسوخ سے بچانے کے لئے اقدامات کرے اور ہر قسم کی اسمگلنگ کی سزاؤں میں اضافہ کریں۔ ان جرائم کی روک تھام کے حوالے سے قانون نافذ کرنے والے اداروں، ججوں اور پراسیکیوٹرز سمیت اہلکاروں کو تربیت دینے کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔یہ پاکستان کے لئے بلا شبہ اعزاز کی بات ہے مگر جب بھی کوئی حادثہ رونما ہوتا ہے تو دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ایف آئی اے نے پاکستانیوں کو غیرقانونی طریقوں سے باہر بھیجنے والے افراد کے خلاف تفتیش کا آغاز کردیا ہے۔ تحقیقات اور متاثرین کو غیرقانونی راستوں سے باہر بھیجنے والوں کو گرفتار کرنے کے لیے ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں۔ جاں بحق افراد کے لواحقین سے رابطے ہو رہے ہیں۔ عالمی ہیومن ٹریفکنگ نیٹ ورک سے کریک ڈاؤن کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔مگر حکومت اس سلسلے میں ایک جامع حکمت عملی وضع نہیں کر سکی ہے کہ جس سے انسانی اسمگلنگ کے نیٹ ورکس پر کریک ڈاؤن تیز کیا جاسکے۔اطالوی وزارت داخلہ کے اعدادوشمار کے مطابق، 2022ء میں105000 تارکین وطن اطالوی ساحلوں پر اترے، جوگزشتہ سال کے مقابلے میں38000زیادہ ہیں۔یو این ایچ سی آر نے کہا کہ ترکی سے تعلق رکھنے والے افراد نے اٹلی میں سمندر کے راستے آنے والوں کا تقریبا 15 فیصد حصہ لیا۔ایف آئی اے نے لیبیا کے راستے غیر قانونی طور پر پاکستانیوں کو یورپ بھیجنے میں ملوث مشتبہ افراد کو ئی بارگرفتارکرنے کا دعویٰ کیا۔ مرکزی ملزم کو گرفتارکئے گئے۔ تارکین وطن کو یورپ لے جانے والی کشتی کے ڈوبنے کے بعد ملک میں اس سنگین معاشی صورتحال کے بارے میں ایک بار پھر بحث چھیڑ دی ہے کہ کس طرح نوجوان بیرون ملک بہتر حالات کی تلاش میں خطرناک سفر پر مجبور ہو رہے ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے پہلے بھی اسی طرح کے ایک سانحہ کے حقائق جاننے کا حکم دیا تھا اورایف آئی اے نے کہا تھا کہ اس نے انسانی سمگلنگ کی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔تا ہم ہر مرتبہ ایسا ہی کہا جاتا ہے۔ مگر زیادہ تر مجرم بچ جاتے ہیں۔ ملک کا معاشی بحران اس سانحہ کی ایک بڑی وجہ سمجھا جاتا ہے کہ لوگ خطرناک اور غیر قانونی طریقوں سے بھی بیرون ملک ہجرت کرنا چاہتے ہیں۔ملک میںتباہ کن سیلاب نے 30 ارب ڈالر سے زیادہ کے معاشی نقصانات اور لاکھوں لوگوں کو بے گھر کر کے بحران پیدا کیا۔حکومت کی عدم دلچسپی کے باعث خوراک کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ غذائی عدم تحفظ کا سامنا کرنے والے افراد کی تعداد دوگنی ہو کر 14.6 ملین ہو گئی ہے۔ورلڈ بینک نے اندازہ لگایا ہے کہ سیلاب کی وجہ سے مزید 90 لاکھ افراد غربت کی طرف گھسیٹ سکتے ہیں۔ (جاری ہے )