کیسویں صدی کے 21سبق اور مسلم دانشور
’’اکیسویں صدی کے اکیس سبق‘‘ کا مصنف یووال نوح ہراری کہتا ہے کہ ’’کیا لبرل ازم اپنے آپ کو ایک بار پھر نئے سرے سے ایجاد کرسکتا ہے ،جیسا کہ اس نے 1930 ء اور 1960ء کی دہائیوں کے بحرانوں کے بعد کیا تھا،پہلے سے کہیں زیادہ پرکشش بن کر ابھرا ؟ کیا روایتی مذہب اور قوم پرستی ایسے جوابات فراہم کرسکتے ہیں جو لبرلز سے بچ جاتے ہیں اور کیا وہ قدیم حکمت کوجدید ترین عالمی نظریہ بنانے کے لئے استعمال کرسکتے ہیں ؟ یا شائد اب وقت آگیا ہے کہ ماضی کو توڑ کر ایک بالکل نئی کہانی تیار کی جائے جو نہ صرف پرانے دیوتائوں اور قوموں بلکہ آزادی اور مساوات کی بنیاد جدید اقدار سے بھی بالا تر ہو ؟ ’’ذرا ٹھہریئے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ لبرل ازم ہے کیا۔؟لبرل ازم جدید دور کے سیاسی نظریات میں سے ایک سیاسی نظریہ ہے جس کی جڑیں روشن خیالی کے دور میں ملتی ہیں ،جسے لبرل ورڈ آرڈر اقدار ،قواعد اوراداروں ہا ایک نظام بھی کہاجاتا ہے جو دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد سے بین الاقوامی تعلقات پر حکومت کرتا رہاہے ۔اس کی خصوصیت جمہوریت ،انسانی حقوق، آزاد تجارت اور دیگر کئی سیاسی معاملات ہیں۔لبرل ورڈ آرڈر اس مطمح نظر پر مبنی ہے کہ جوممالک جمہوریت ،انسانی حقوق اور آزاد تجارت جیسی اقدار پر متفق ہیں وہ زیادہ پر امن،خوشحال اور ایک دوسرے کے ساتھ باہمی ہم آہنگی کے رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں اور یہ دیگر ممالک کے درمیان بڑی جنگوں اور تنازعات کو بڑھنے سے روکتے ہیں ۔‘‘ آپس میں اور دیگر ممالک کے ساتھ مستحکم تعلقات ان کا بنیادی مقصد ہے۔
حقیقت پسندانہ نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو لبرل ازم یا لبرل ورڈ آرڈر دنیا میں امن و امان اور سیاسی استحکام کے حوالے سے کسی کردار کاحامل دکھائی نہیں دیتا ۔ وہ ممالک جو ان تھیوریز کا نعرہ لگاتے ہیں وہ خود اس وقت پسپائی پراتر آئے ہیں ، جب کسی بھی حوالے سے ان کے کسی بھی نوعیت کے مفادات پر زد پڑتی ہے ،وہ امن کا معاملہ ہو تجارت کا یا سیاست کا ۔جبکہ اس کے مقابلے میں اسلام اپنی اصل ہیئت کے اعتبار سے اپنے اندر وہ صلاحیت رکھتا ہے جس پر عملدرآمد کی صورت میں فقط امن ہی نہیں تجارت اورسیاست میں بھی بہتر نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں ،مگر المیہ عصبیت کاجو کہیں کسی کی بھی جان نہیں چھوڑتی ۔اسلامی دنیا بے بہا وسائل رکھنے کے باوجود ان معاملات کی جانب نظر اٹھا کر دیکھنے کے لئے آمادہ نہیں ،جبکہ دیگر اقوام کے دانشور خود پر غیر جانبدار ہونے کے ٹیگ لگا کر دراصل اپنے نقطہ ہائے نظر کو اپنے بنیادی مذہبی سیاسی نظریات کو بین السطور میں رکھے بغیر بات ہی نہیں کرتے ۔توجہ اور لاپرواہی کا یہی فقدان ہے جو اُمت مسلمہ کوراہ زوال سے ہٹنے نہیں دیتا اس نے سیاسی ،سماجی اور معاشی ترقی کو ہی نہیں روکا ہوا اس کے تہذیبی وثقافتی عروج کے راستے کی بھی دیوار بناہوا ہے ۔ اسلامی دنیا کا دانشور اس مسئلے کو باور ہی نہیں کررہا ۔جن سوالات کا اسے جواب تلاش کرکے دینا تھا ان سوالات ہی کو درخور اعتنا نہیں گردانا، جبکہ دنیا کے دیگر ممالک میں قیام پذیر یہودی دانشور اور ادیب ہوں یادیگرمذاہب کے نظریہ ساز وہ اپنے بنیادی مقاصد سے روگردانی نہیں کرتے ۔ آج ایک یہودی دانشور تو اس موضوع پر قلم اٹھاتا ہے کہ ’’پیئر ٹو پیئر بلاک چین نیٹ ورکس اور بٹ کوائن جیسی کریپٹو کرنسیزمالیاتی نظام کو مکمل طور پر بہتر کرسکتی ہیں تاکہ ٹیکس میں بنیادی اصلاحات ناگزیر ہوجائیں‘‘مگر کوئی اسلامسٹ دانشور ایسانہیں جو اسلامی ممالک کی حکومتوں کو اس بارے اصلاحات سے متعلق مشورے فراہم کرسکے یہی المیہ اسلامی دینا کی پہلی ایٹمی قوت پاکستان کا ہے جہاں حکمرانوں کو لوٹ مار سے فرصت نہیں اور دانشور کو یہ فکر لاحق نہیں کہ ایک نظریاتی مملکت کس ڈگر پر چل رہی ہے اس کے بنیادی مسائل اور ان کا حل کیا ہے ،ہمارا بجٹ اعدادوشمار کا ایک گورکھ دھندا ہوتا ہے جس میں غربت کی سطح بڑھانے کے سارے امکانات کی گنجائش پے در پے موجود ہوتی ہے مگراس کے سنبھالنے کی کوئی ٹیکنیکی مہارت نہیں ہوتی کہ جوانفوٹیک اور،بائیوٹک انقلابات کی روشنی میں معیشت اور معاشرت کی تشکیل نو کا فریضہ سرانجام دے سکے۔ ایک زرعی ملک کے حوالے سے آبپاشی کے نظام کو نئے سرے سے ڈیزائن کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کی گئی، یہاں کسی خاطر خواہ ڈیم کا ذکر تو خام ہے کہ کالاباغ جیسے ڈیم کے منصوبے کو سول اور فوجی حکومتوں کی طرف سے تکمیل کے قابل نہیں سمجھا گیا۔جبکہ ہمارے سیاسی نظام میں تو اتنی صلاحیت بھی نہیں کہ ریاستی بحرانوں سے نمٹ سکے۔دراصل یہ ہماری ذاتی نفسیات میں پایا جانے والاخلل ہے جوہمارے سیاسی ،سماجی اور معاشی نظام کو سنبھلنے نہیں دے رہا اور اس پر مستزاد ہمارا سیاستدان اپنے مفادات میں غرق رہتا ہے ،اسے کچھ خبر نہیں باہر کی دنیا میں کیا ہورہاہے ،اس صورت حال میں ہمارا دانشور ہی اپنے آپ کو اچھے خواب دیکھنے اور ان کی تعبیر کے پیچھے بھاگنے کی عادت ڈال لے تو سیاسی مضمرات میں کچھ نہ کچھ کمی ضرور آجائے گی۔