دیوانوں کے قافلے رواں دواںمنزل ایک بیاباں۔جہاں نہ تو کوئی ہریالی ہے اور نہ ہی کوئی سبزہ زار،نہ تو وہاں دریا ہیں اور نہ ہی نہریں،گرم ریت کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ وہاں کی پہچان ہے گرمی ہے کہ انسان کے لئے ناقابل برداشت مگر پوری دنیا وہاں بھاگے چلے جارہی ہے جس کا نصیب کھل رہا ہے وہ رخت سفر باندھ رہا ہے۔جی ہاں یہ وہی بستی ہے کہ جہاں کچھ نہ تھا۔لق و دق سہرا تھے،پھر حضرت ابراہیم ؑاپنے شہر بابل سے چلے تو پہلے مصر شام و فلسطین آئے اور پھر مکہ مکرمہ کی طرف آنے کا حکم ملا،وہ دیوانہ وار اپنے لخت جگر نور نظر اور اپنی اہلیہ کے ہمراہ مکہ جاپہنچے اور وہاں ایک بے آب وگیاہ وادی میں بیت اللہ شریف کے قریب ٹھہر گئے۔ اس وقت بیت اللہ شریف نہ تھا صرف ٹیلے کی طرح ابھری ہوئی زمین تھی۔مسجد حرام کے بالائی حصے میں زم زم کے پاس ایک بہت بڑا درخت تھا آپ نے اسی درخت کے پاس حضرت ہاجرہؓ اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کو چھوڑا تھا اور ان کے پاس پانی کا ایک مشکیزہ،توشہ دان اور کھجور وغیرہ رکھ کر واپس فلسطین تشریف لے گئے۔جب مال و متاع ختم ہونے لگا تو اللہ کی قدرت سے وہاں زم زم پھوٹ پڑا جس سے کئی سالوں کے لئے متاع زندگی کا سامان ہوگیا۔ابھی کچھ دن ہی چشمہ پھوٹے گزرے تھے کہ وہاں یمن سے ایک قبیلہ آکر آباد ہوگیا۔ روایات میں اس قبیلہ کا نام جرہم بتایا جاتاہے۔
حضرت اسماعیل علیہ السلام چونکہ عربی زبان نہیں جانتے تھے لہٰذا قبیلہ جرہم والوں سے عربی سیکھنے لگے۔تب وہ عربی زبان میں ماہر ہوگئے تو قبیلہ جرہم کی نظروں میں جچنے لگے۔اسی دور میں حضرت بی بی ہاجرہؓ کا انتقال ہوگیا،اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی شادی قبیلہ جرہم کی ایک خاتون عمارہ بنت سعید سے ہوئی، ایک مرتبہ حضرت ابراہیم ؑاپنے بیٹے حضرت اسماعیل ؑ کے گھر تشریف لائے۔ حضرت اسماعیل ؑ گھر پر موجود نہیں تھے۔ خیریت معلوم کی تو آپ کی اہلیہ نے مصائب و آلام اور تنگ دستی کا اظہار کیا، حضرت ابراہیم ؑ نے جاتے ہوئے فرمایا اسماعیل ؑ سے میرا سلام کہہ دینا اور کہنا کہ دروازے کی چوکھٹ تبدیل کر دے۔حضرت اسماعیل ؑ گھر آئے تو بیوی نے پیغام پہنچا دیا۔ حضرت اسماعیل ؑ سمجھ گئے کہ آنے والے مہمان ان کے والد حضرت ابراہیم ؑ تھے اور وہ ہدایت دے گئے ہیں کہ بیوی کو چھوڑ کر دوسری شادی کر لی جائے۔(معلوم ہوا کہ عورت کا شوہر کی ناشکری کرنا کس قدر عظیم جرم ہے،جو انبیا کی نظروں میں بھی معیوب ہے،اسی لئے نبی کریم ﷺنے عورتوں کو جہنم میں زیادہ پایا ۔جب صحابہؓ نے وجہ پوچھی تو حضور نے فرمایا کہ وہ شوہروں کی نافرمانی کرتی ہیں رواہ البخاری) حضرت اسماعیل ؑ کی دوسری شادی سیدہ بنتِ مضاض جرہمی سے ہوئی، حضرت ابراہیم ؑ حضرت اسماعیل ؑ کی غیر موجودگی میں دوبارہ تشریف لائے تو آپ کی زوجہ نے خوب خاطر مدارت کی۔ حضرت ابراہیم ؑنے حال احوال پوچھا تو سیدہ بنت مضاض نے فراخی رزق اور خوشحالی کا تذکرہ کیا اور اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کا شکر ادا کیا،حضرت ابراہیم ؑ جاتے ہوئے پیغام دے گئے،اسماعیل ؑ سے کہنا کہ اپنے دروازے کی چوکھٹ کو محفوظ رکھے۔حضرت اسماعیل ؑ کے گھر واپس آنے پر ان کی اہلیہ نے تمام روداد بیان کی تو حضرت اسماعیل ؑنے فرمایا کہ وہ میرے باپ حضرت ابراہیم ؑ تھے اور مجھے ہدایت کر گئے ہیں کہ میں تمہیں اپنے سے جدا نہ کروں۔ حضرت اسماعیل ؑ کے بارہ بیٹے تھے جو اپنے اپنے قبیلے کے سردار کہلائے اور قبیلے اپنے سرداروں کے ناموں سے مشہور ہوئے اور اسماعیل ؑ کے بیٹوں کے نام یہ ہیں۔ یہ نام ترتیب وار ان کی پیدائش کے مطابق ہیں۔-1نبایوت-2 قیدار -3ادبئیل -4 مبسام -5 مشماع -6 دومہ -7مسا۔ -8حدد-9 تیما -10 یطور -11نفیس -12 قدمہ۔ یہ اسماعیل علیہ السلام کے بیٹے ہیں اور انہی کے ناموں سے ان کی بستیاں اور چھانیاں نامزد ہوئیں اور یہی بارہ بیٹے اپنے اپنے قبیلے کے سردار ہوئے۔(توریت بابا پیدائش13-17)حضرت اسماعیل ؑ کے بیٹوں میں سے بڑے دو بیٹے نبایوت اور قیدار بہت مشہور ہیں۔ نبایوت کی نسل اصحاب الحجر کہلائی اور قیدار کی نسل اصحاب الرس کے نام سے مشہور ہوئی۔ قیدار کی اولاد خاص مکہ میں رہی اور اسی سلسلہ نسب میں نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفیﷺ کا ظہور ہوا۔جب تیسری بار سیدنا ابراہیم علیہم السلام تشریف لائے تو زم زم کے کنوئیں کے پاس حضرت اسماعیل ؑ کو پالیا۔باپ بیٹا سالوں بعد ملے تو فرط جذبات سے سرشار ہوگئے اور خوب محبت و عقیدت سے ایک دوسرے سے پیش آئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل ؑسے فرمایا کہ بیٹا!اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک حکم دیا ہے، کیا تو میری مدد کرے گا؟ کہا کیوں نہیں۔ حضرت ابراہیم ؑنے کہا اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ یہاں ایک گھر بنائوں۔پھر کیا تھا۔گھر کی تعمیر شروع ہوگئی۔حضرت اسماعیلؑ پتھر لاتے جاتے تھے اور حضرت ابراہیم ؑاللہ کا گھر تعمیر کرتے جاتے تھے، جب تعمیر ذرا بلند ہوگئی تو حضرت اسماعیل ؑ ایک پتھر اٹھاکر لائے تاکہ حضرت ابراہیم ؑاس پر کھڑے ہوکر تعمیر کریں۔یہی مقام ابراہیم ؑہے۔دونوں باپ بیٹے دیوار اٹھاتے جاتے تھے اور دعا کرتے جاتے تھے۔اے پروردگار!ہماری محنت کو قبول فرما، تو سننے اور جاننے والا ہے۔مقام ابراہیم ؑ وہ پتھر ہے جو بیت اللہ کی تعمیر کے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے قد سے اونچی دیوار قائم کرنے کے لیے استعمال کیا تھا تاکہ وہ اس پر کھڑے ہوکر دیوار تعمیر کریں۔( 1)مقام ابراہیم خانہ کعبہ سے تقریباً سوا 13 میٹر مشرق کی جانب قائم ہے۔ مقام ابراہیم کا ذکر قرآنِ حکیم کی سور البقرہ کی آیت 125 میں بھی موجود ہے،نوجوان مفتی غیور کے مطابق1967ء سے پہلے اس مقام پر ایک کمرہ تھا مگر اب سونے کی ایک جالی میں بند ہے،اس مقام کو مصلے کا درجہ حاصل ہے اور امام کعبہ اسی کی طرف سے کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھاتے ہیں، طواف کے بعد یہاں دو رکعت نفل پڑھنے کا حکم ہے۔ احناف کے نزدیک طواف کے بعد دو رکعت واجب ہیں، نفل نہیں۔ابراہیم علیہ السلام کے پائوں کے نشانات اسلام کی ابتدا تک اس چٹان پر موجود تھے،حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں،مقام ابراہیم سے وہ پتھر مراد ہے جس پرابراہیم علیہ السلام کے پائوں کے نشانات ہیں ۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے ،اس پتھر میں پائوں کے نشانات ظاہرتھے اورآج تک یہ بات معروف ہے اورجاہلیت میں عرب بھی اسے جانتے تھے، اورمسلمانوں نے بھی یہ نشانات پائے، جس طرح کہ انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے مقام ابراہیم دیکھا کہ اس میں ابراہیم علیہ السلام کی انگلیوں اور ایڑیوں کے نشانات موجود تھے ۔لیکن یہ بات ہے کہ لوگوں کے ہاتھ لگنے سے وہ نشانات جاتے رہے ۔ ابن جریر نے قتادہ رحمہ اللہ تعالیٰ سے روایت بیان کی ہے کہ قتادہ کیا بیان ہے کہ’’اورمقام ابراہیم کونماز کی جگہ بنا‘‘اس میں حکم یہ دیا گیا ہے کہ اس کے قریب نماز پڑھیں اوریہ حکم نہیں کیا کہ اسے ہاتھ پھیریں اورمسح کریں اوراس امت نے بھی وہ کام شروع کردیا جو پہلی امت کرتی تھی، ہمیں دیکھنے والے نے بتایا کہ اس میں ابراہیم علیہ السلام کی انگلیوں اورایڑیوں کے نشانات موجود تھے اور لوگ اس پرہاتھ پھیرتے رہے حتیٰ کہ وہ نشانات مٹ گئے۔ تفسیر ابن کثیر ( 1 / 117 )
دیوانوں کے قافلے رواں دواںمنزل ایک بیاباں۔جہاں نہ تو کوئی ہریالی ہے اور نہ ہی کوئی سبزہ زار،نہ تو وہاں دریا ہیں اور نہ ہی نہریں،گرم ریت کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ وہاں کی پہچان ہے گرمی ہے کہ انسان کے لئے ناقابل برداشت مگر پوری دنیا وہاں بھاگے چلے جارہی ہے جس کا نصیب کھل رہا ہے وہ رخت سفر باندھ رہا ہے۔جی ہاں یہ وہی بستی ہے کہ جہاں کچھ نہ تھا۔لق و دق سہرا تھے،پھر حضرت ابراہیم ؑاپنے شہر بابل سے چلے تو پہلے مصر شام و فلسطین آئے اور پھر مکہ مکرمہ کی طرف آنے کا حکم ملا،وہ دیوانہ وار اپنے لخت جگر نور نظر اور اپنی اہلیہ کے ہمراہ مکہ جاپہنچے اور وہاں ایک بے آب وگیاہ وادی میں بیت اللہ شریف کے قریب ٹھہر گئے۔ اس وقت بیت اللہ شریف نہ تھا صرف ٹیلے کی طرح ابھری ہوئی زمین تھی۔مسجد حرام کے بالائی حصے میں زم زم کے پاس ایک بہت بڑا درخت تھا آپ نے اسی درخت کے پاس حضرت ہاجرہؓ اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کو چھوڑا تھا اور ان کے پاس پانی کا ایک مشکیزہ،توشہ دان اور کھجور وغیرہ رکھ کر واپس فلسطین تشریف لے گئے۔جب مال و متاع ختم ہونے لگا تو اللہ کی قدرت سے وہاں زم زم پھوٹ پڑا جس سے کئی سالوں کے لئے متاع زندگی کا سامان ہوگیا۔ابھی کچھ دن ہی چشمہ پھوٹے گزرے تھے کہ وہاں یمن سے ایک قبیلہ آکر آباد ہوگیا۔ روایات میں اس قبیلہ کا نام جرہم بتایا جاتاہے۔
حضرت اسماعیل علیہ السلام چونکہ عربی زبان نہیں جانتے تھے لہٰذا قبیلہ جرہم والوں سے عربی سیکھنے لگے۔تب وہ عربی زبان میں ماہر ہوگئے تو قبیلہ جرہم کی نظروں میں جچنے لگے۔اسی دور میں حضرت بی بی ہاجرہؓ کا انتقال ہوگیا،اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی شادی قبیلہ جرہم کی ایک خاتون عمارہ بنت سعید سے ہوئی، ایک مرتبہ حضرت ابراہیم ؑاپنے بیٹے حضرت اسماعیل ؑ کے گھر تشریف لائے۔ حضرت اسماعیل ؑ گھر پر موجود نہیں تھے۔ خیریت معلوم کی تو آپ کی اہلیہ نے مصائب و آلام اور تنگ دستی کا اظہار کیا، حضرت ابراہیم ؑ نے جاتے ہوئے فرمایا اسماعیل ؑ سے میرا سلام کہہ دینا اور کہنا کہ دروازے کی چوکھٹ تبدیل کر دے۔حضرت اسماعیل ؑ گھر آئے تو بیوی نے پیغام پہنچا دیا۔ حضرت اسماعیل ؑ سمجھ گئے کہ آنے والے مہمان ان کے والد حضرت ابراہیم ؑ تھے اور وہ ہدایت دے گئے ہیں کہ بیوی کو چھوڑ کر دوسری شادی کر لی جائے۔(معلوم ہوا کہ عورت کا شوہر کی ناشکری کرنا کس قدر عظیم جرم ہے،جو انبیا کی نظروں میں بھی معیوب ہے،اسی لئے نبی کریم ﷺنے عورتوں کو جہنم میں زیادہ پایا ۔جب صحابہؓ نے وجہ پوچھی تو حضور نے فرمایا کہ وہ شوہروں کی نافرمانی کرتی ہیں رواہ البخاری) حضرت اسماعیل ؑ کی دوسری شادی سیدہ بنتِ مضاض جرہمی سے ہوئی، حضرت ابراہیم ؑ حضرت اسماعیل ؑ کی غیر موجودگی میں دوبارہ تشریف لائے تو آپ کی زوجہ نے خوب خاطر مدارت کی۔ حضرت ابراہیم ؑنے حال احوال پوچھا تو سیدہ بنت مضاض نے فراخی رزق اور خوشحالی کا تذکرہ کیا اور اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کا شکر ادا کیا،حضرت ابراہیم ؑ جاتے ہوئے پیغام دے گئے،اسماعیل ؑ سے کہنا کہ اپنے دروازے کی چوکھٹ کو محفوظ رکھے۔حضرت اسماعیل ؑ کے گھر واپس آنے پر ان کی اہلیہ نے تمام روداد بیان کی تو حضرت اسماعیل ؑنے فرمایا کہ وہ میرے باپ حضرت ابراہیم ؑ تھے اور مجھے ہدایت کر گئے ہیں کہ میں تمہیں اپنے سے جدا نہ کروں۔ حضرت اسماعیل ؑ کے بارہ بیٹے تھے جو اپنے اپنے قبیلے کے سردار کہلائے اور قبیلے اپنے سرداروں کے ناموں سے مشہور ہوئے اور اسماعیل ؑ کے بیٹوں کے نام یہ ہیں۔ یہ نام ترتیب وار ان کی پیدائش کے مطابق ہیں۔-1نبایوت-2 قیدار -3ادبئیل -4 مبسام -5 مشماع -6 دومہ -7مسا۔ -8حدد-9 تیما -10 یطور -11نفیس -12 قدمہ۔ یہ اسماعیل علیہ السلام کے بیٹے ہیں اور انہی کے ناموں سے ان کی بستیاں اور چھانیاں نامزد ہوئیں اور یہی بارہ بیٹے اپنے اپنے قبیلے کے سردار ہوئے۔(توریت بابا پیدائش13-17)حضرت اسماعیل ؑ کے بیٹوں میں سے بڑے دو بیٹے نبایوت اور قیدار بہت مشہور ہیں۔ نبایوت کی نسل اصحاب الحجر کہلائی اور قیدار کی نسل اصحاب الرس کے نام سے مشہور ہوئی۔ قیدار کی اولاد خاص مکہ میں رہی اور اسی سلسلہ نسب میں نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفیﷺ کا ظہور ہوا۔جب تیسری بار سیدنا ابراہیم علیہم السلام تشریف لائے تو زم زم کے کنوئیں کے پاس حضرت اسماعیل ؑ کو پالیا۔باپ بیٹا سالوں بعد ملے تو فرط جذبات سے سرشار ہوگئے اور خوب محبت و عقیدت سے ایک دوسرے سے پیش آئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل ؑسے فرمایا کہ بیٹا!اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک حکم دیا ہے، کیا تو میری مدد کرے گا؟ کہا کیوں نہیں۔ حضرت ابراہیم ؑنے کہا اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ یہاں ایک گھر بنائوں۔پھر کیا تھا۔گھر کی تعمیر شروع ہوگئی۔حضرت اسماعیلؑ پتھر لاتے جاتے تھے اور حضرت ابراہیم ؑاللہ کا گھر تعمیر کرتے جاتے تھے، جب تعمیر ذرا بلند ہوگئی تو حضرت اسماعیل ؑ ایک پتھر اٹھاکر لائے تاکہ حضرت ابراہیم ؑاس پر کھڑے ہوکر تعمیر کریں۔یہی مقام ابراہیم ؑہے۔دونوں باپ بیٹے دیوار اٹھاتے جاتے تھے اور دعا کرتے جاتے تھے۔اے پروردگار!ہماری محنت کو قبول فرما، تو سننے اور جاننے والا ہے۔مقام ابراہیم ؑ وہ پتھر ہے جو بیت اللہ کی تعمیر کے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے قد سے اونچی دیوار قائم کرنے کے لیے استعمال کیا تھا تاکہ وہ اس پر کھڑے ہوکر دیوار تعمیر کریں۔( 1)مقام ابراہیم خانہ کعبہ سے تقریباً سوا 13 میٹر مشرق کی جانب قائم ہے۔ مقام ابراہیم کا ذکر قرآنِ حکیم کی سور البقرہ کی آیت 125 میں بھی موجود ہے،نوجوان مفتی غیور کے مطابق1967ء سے پہلے اس مقام پر ایک کمرہ تھا مگر اب سونے کی ایک جالی میں بند ہے،اس مقام کو مصلے کا درجہ حاصل ہے اور امام کعبہ اسی کی طرف سے کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھاتے ہیں، طواف کے بعد یہاں دو رکعت نفل پڑھنے کا حکم ہے۔ احناف کے نزدیک طواف کے بعد دو رکعت واجب ہیں، نفل نہیں۔ابراہیم علیہ السلام کے پائوں کے نشانات اسلام کی ابتدا تک اس چٹان پر موجود تھے،حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں،مقام ابراہیم سے وہ پتھر مراد ہے جس پرابراہیم علیہ السلام کے پائوں کے نشانات ہیں ۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے ،اس پتھر میں پائوں کے نشانات ظاہرتھے اورآج تک یہ بات معروف ہے اورجاہلیت میں عرب بھی اسے جانتے تھے، اورمسلمانوں نے بھی یہ نشانات پائے، جس طرح کہ انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے مقام ابراہیم دیکھا کہ اس میں ابراہیم علیہ السلام کی انگلیوں اور ایڑیوں کے نشانات موجود تھے ۔لیکن یہ بات ہے کہ لوگوں کے ہاتھ لگنے سے وہ نشانات جاتے رہے ۔ ابن جریر نے قتادہ رحمہ اللہ تعالیٰ سے روایت بیان کی ہے کہ قتادہ کیا بیان ہے کہ’’اورمقام ابراہیم کونماز کی جگہ بنا‘‘اس میں حکم یہ دیا گیا ہے کہ اس کے قریب نماز پڑھیں اوریہ حکم نہیں کیا کہ اسے ہاتھ پھیریں اورمسح کریں اوراس امت نے بھی وہ کام شروع کردیا جو پہلی امت کرتی تھی، ہمیں دیکھنے والے نے بتایا کہ اس میں ابراہیم علیہ السلام کی انگلیوں اورایڑیوں کے نشانات موجود تھے اور لوگ اس پرہاتھ پھیرتے رہے حتیٰ کہ وہ نشانات مٹ گئے۔ تفسیر ابن کثیر ( 1 / 117 )