وہ بتا رہے تھے کہ افغانستان کی خارجہ پالیسی اور سفارت کاری کی کامیابی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ امارت اسلامیہ نے نہایت کم وقت میں ان ممالک کے ساتھ روابطہ استوار کئے کہ جو طالبان مجاہدین کو دہشت گرد قرار دے کر انہیں بلیک لسٹ میں ڈال دیا کرتے تھے، آج وہی ممالک امارت اسلامیہ کے ساتھ مضبوط تعلقات استوار کرتے نظر آرہے ہیں۔ اصل میں امارت اسلامیہ کے تمام مخالفین نے اس حقیقت کا ادراک کرلیا ہے کہ امارت اسلامیہ افغانستان کے ساتھ تعلقات بنانے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں، یہ فعال سفارت کاری کا ہی نتیجہ تھا کہ امریکی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ وہ امارت اسلامیہ کے مخالف کسی مسلح گروہ کی حمایت نہیں کرے گی، امارت اسلامیہ نے کسی سے روزگار نہیں چھینا، نہ کسی پر ظلم کیا اور نہ زیادتی کی گئی، نہ کسی پہ تعلیم کے دروازے بند کئے، سابقہ انتظامیہ کے متعدد اہلکار کام کر رہے ہیں، بلکہ ان میں سے بہت سوں کو ان کی ملازمتوں میں کارکردگی کی بنیاد پر ترقیاں بھی دیں گئیں۔
امارت اسلامیہ کے لئے جو چیز بہت اہم ہے وہ افغان عوام کی فلاح و بہبود ہے، اس سلسلے میں فوری اور قابل عمل اقدامات اٹھائے جاتے ہیں، افغان عوام کی فلاح و بہبود کے حوالے سے امارت اسلامیہ نے کبھی غفلت نہیں برتی، افغان عوام کے جائز مطالبات جو ان کا بنیادی انسانی حق ہے کے لئے امارت اسلامیہ سنجیدہ جدوجہد کر رہی ہے، لڑکیوں کی تعلیم ، ان کو سکولوں، کالجوں میں جانے کی اجازت اور خواتین کو کام پر جانے کی اجازت بھی مل جائے گی، امارت اسلامیہ افغان عوام پر کسی قسم کا اضافی بوجھ ڈالنے کی قائل نہیں ہے، الحمدللہ افغانستان اب بدعنوانی سے محفوظ ہوچکا ہے اور اس میں مکمل شفافیت نظر آنا شروع بھی ہوچکی ہے، امارت اسلامیہ اس حوالے سے ملنے والے اچھے مشوروں کا خیرمقدم کرتی ہے، بعض ممالک مشورہ دینے کی بجائے حکم دینے کی کوشش کرتے ہیں، جوکہ ناقابل قبول ہے، کیونکہ موجودہ نظام افغانوں کو تحفے میں نہیں دیا گیا اور نہ ہی یہ کرپشن یا فراڈ کے ذریعے حاصل کیا گیا بلکہ اس اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے افغان قوم نے بے شمار جانیں قربان کی ہیں، اس لئے اپنے نظام کے متعلق افغان عوام کسی کا بھی دبائو قبول نہیں کریں گے، افغانستان کی خارجہ پالیسی کا اہم اصول یہ ہے کہ وہ مثبت انداز میں غیر جانبداری برقرار رکھے ہوئے ہیں، انہیں کسی سے کوئی مسئلہ نہیں ہے، امارت اسلامیہ کا واضح اعلان ہے کہ ہم پڑوسی اور خطے کے دیگر ممالک سے دوستانہ تعلقات چاہتے ہیں، ہم پڑوسی ممالک کی بھلائی چاہتے ہیں ہمارا کسی کو نقصان پہنچانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، امارت اسلامیہ دوحہ معاہدے کے اس فیصلے پر کاربند ہے کہ افغان سرزمین کسی کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور کسی کو افغانوں کے لئے احکامات یا پابندیاں لگانے کی بھی اجازت نہیں دی جائے گی، کابل میں افغان طالبان کی حکومت کو قائم ہوئے ابھی چھ ماہ ہی ہوئے تھے کہ امریکی خصوصی ایلچی کو یہ بات تسلیم کرنا پڑی کہ ’’افغانستان میں اس وقت نہ کوئی سیکورٹی رسک ہے نہ کوئی عسکریت پسندانہ سرگرمی‘‘ کراچی میں افغان قونصل جنرل ملا عبدالجبار تخاری کی گفتگو اس قدر پرمغز تھی کہ میں نے انہیں بیچ میں ٹوکنا مناسب نہیں سمجھا، پھر جب وہ خود رکے تو میں نے فوراً سوال اٹھایا کہ آج طالبان کے افغانستان کی اندرونی صورتحال کیا ہے؟ وہ بولے کہ الحمدللہ میں ابھی حال ہی میں کابل میں ایک ماہ گزار کے واپس اپنی ذمہ داریوں پر پہنچا ہوں، اب افغانستان میں نہ کوئی وارلارڈ ہے اور نہ ہی کسی قسم کا دوسرا جرائم پیشہ گروہ، چوری، ڈکیتی، زنا، رشوت، اغوا یا کسی دوسرے عام انسان پر ظلم کا اگر کوئی چھوٹا موٹا واقعہ ہو بھی جائے تو امارت اسلامیہ کی فورسز فوراً ایکشن لے کر مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لاکھڑا کرتی ہیں اور ہماری عدلیہ مضبوط شواہد کی روشنی میں مجرموں کو قرار واقعی سزائیں سناتی ہے، جس پر امارت اسلامیہ عملدرآمد یقینی بناتی ہے، اس لئے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ افغانستان میں جرائم کرنا یا اسلامی قوانین سے ٹکرانا کوئی آسان کام بھی نہیں ہے، افغان قونصل جنرل کا کہنا تھا کہ افغانستان میں اس وقت پٹرول 60 افغانی کرنسی فی لیٹر ہے، افغان کرنسی پاکستانی کرنسی سے بھی کافی مضبوط ہوچکی ہے، اشیائے خوردونوش سستی ہیں، سب سے بڑھ کر یہ کہ پورے افغانستان میں کوئی ظاہر یا چھپا ہوا ایک بھی مسلح گروہ نہیں ہے اور اگر کہیں سے سن گن ملتی بھی ہے تو امارت اسلامیہ کی فورسز فوراً حرکت میں آکر اسے غیر مسلح کر دیتی ہیں، عورتوں کے حقوق کے حوالے سے امارت اسلامیہ نہ صرف یہ کہ تسلیم کرتی ہے، بلکہ عورتوں کے حقوق کی ادائیگی کو یقینی بھی بناتی ہے، ہم افغان عوام کے بچوں اور بچیوں کی تعلیم و تربیت پہ خصوصی توجہ دے رہے ہیں، جمعہ کی نماز کا وقت قریب آن پہنچا تو وہ ہمیں ساتھ لے کر قونصلیٹ کی قریبی جامع مسجد صدیق اکبرؓ میں جا پہنچے، مسجد صدیق اکبرؓ میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد واپس قونصیلٹ پہنچے تو کھانے پر گفتگو کا نیا سلسلہ شروع ہوا، ملا عبدالجبار تخاری بولے، ہاشمی صاحب! ہم نے چار دہائیوں کے بحرانوں کے دوران لاکھوں جانیں قربان کرکے آزادی کی یہ نعمت حاصل کی ہے، افغان عوام امارت اسلامیہ کے شانہ بشانہ آزادی کی اس نعمت کی حفاظت کرتے رہیں گے، ہم اگر اپنے لئے آزادی پسند کرتے ہیں تو پڑوسی اور خطے کے دیگر ممالک کے لئے بھی دعا گو ہیں کہ ان کے عوام بھی اپنے اپنے ملکوں کے اندر آزادی کی دولت سے مالا مال رہیں۔