بھارت کاوزیراعظم نریندر مودی 22جون سے امریکہ کے دورے پر جارہے ہیں۔ اس کادورہ بھارت اور امریکہ کے مابین اسٹرٹیجک تعلقات کو اور زیادہ مضبوط اور مستحکم بنانے سے مشروط ہے ۔ تاہم اس کا یہ دورہ’’آرام دہ‘‘ نہیں ہوگا۔ کیونکہ امریکہ اور کینیڈا سے کشمیری مسلمان اس دوران واشنگٹن میں پہنچیں گے اور نریندر مودی کے خلاف بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں خصوصیت کے ساتھ مقبوضہ کشمیر میں جوکچھ ہورہاہے‘ اس پر سخت احتجاج کریںگے۔ نیز بھارت کی موجودہ حکومت بی جے پی کا ظلم صر ف مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں تک محدود نہیں ہے بلکہ بھارت کے بڑے بڑے شہروں میں آر ایس ایس کے غنڈوں نے مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کیا ہوا ہے‘ یہاں تک کہ مسلمان نوجوانوں کو بھارتی پولیس کی موجودگی میں سخت ترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ بی بی سی کی حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیاہے کہ مسلمان نوجوان کو لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے پیٹاجاتاہے یہاں تک کہ ان کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ بساوقات زخمی مسلمان نوجوان اسپتالوں میں علاج کرانے سے منع کرتے ہیں کیونکہ انہیں خوف لاحق رہتاہے کہ ہندوتا ً فلسفہ سے متاثر ڈاکٹر انہیں زہر کاانجکشن دے کر انہیں ہلاک کردیں گے۔ نوجوان مسلمانوں پر بہیمانہ تشدد بھارت کے دارالحکومت دہلی میں اب روز مرہ کا معمول بن گیاہے‘ یہاں تک کہ مسلمان مساجد میں جانے سے بھی خوف زدہ محسوس کرتے ہیں۔
چنانچہ جب نریندر مودی واشنگٹن پہنچے گا‘ اس وقت امریکہ میں مقیم کشمیری اور سکھوں کی ایک کثیرتعداد ان کے خلاف مظاہرہ کریگی اور امریکی صدر سے التماس کریگی کہ ایک ایسے شخص کو وائٹ ہائوس نہ مدعو کیا جائے جس کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔یقیناکشمیری مسلمانوں کا امریکہ میں نریندر مودی کے خلاف اس مظاہرہ سے وائٹ ہائوس پر اثرپڑے گا۔ ویسے بھی امریکہ کی انسانی حقوق سے متعلق کونسل بھارت میں اقلیتوں خصوصیت کے ساتھ مسلمانوں اور عیسائیوں پر ہونے والے تشدد پر نہ صرف احتجاج کرتے ہیں بلکہ اپنی رپورٹ میں اس کا تفصیلی جائزہ لے کر دنیا کے تمام ممالک کو ارسال کرتے ہیں تاکہ بھارت میں ’’ہندوتاً‘‘ فلسفے کے تحت جواقلیتوں پر ظلم ہورہاہے ‘ اس کو نہ صرف بے نقاب کیاجائے بلکہ اس کی مزاحمت بھی کی جائے تاکہ بھارت اپنی اس ظالمانہ روش کو ترک کرکے اپنے ملک میں اقلیتوں پر ظلم وستم ختم کردے۔ تاہم اس ضمن میں ایک اہم بات کاتذکرہ بہت ضروری ہے کہ وہ یہ ہے کہ امریکہ پاکستان سے بھارت کے سلسلے اچھے تعلقات قائم کرنے پر زور دے رہاہے‘ ا س کی یہ بھی خواہش ہے کہ پاکستان چین سے اپنے روابط میں زیادہ گرمجوشی کامظاہرہ نہ کرے۔ پاکستان بھی بھارت کے ساتھ اچھے ہمسائیگی کے تعلقات قائم کرناچاہتاہے اور اکثر ماضی کی سیاسی جماعتوں نے اس پر اپنے خیالات کااظہار کیاہے بلکہ یہاں تک کہاہے کہ بھارت کے ساتھ تجارت کا آغاز کردیناچاہیے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا بھارت میں اقلیتوں خصوصیت کے ساتھ مسلمانوں کے ساتھ آر ایس ایس کے غنڈے (حکومتی پالیسی کے تحت) جو طریقہ کار اپنائے ہوئے ہیں‘ کیا اس کی روشنی میں ایسا ہوسکتاہے؟ میں نہیں سمجھتاکہ کوئی غیرت مند پاکستانی ان حالات میں بھارت کے ساتھ خوشگوار سیاسی تعلقات قائم کرنے کی حمایت کرے گا۔نیز پاکستانیوں کو یہ بھی معلوم ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں روز مرہ کی بنیاد پر نوجوانوں کو شہید کیاجارہاہے۔ ابھی حال ہی میں کپواڑہ ضلع میں پانچ نوجوانوں کو محض اس لئے شہید کردیاگیا کہ وہ اپنے علاقے میں بھارت کی سفاک فوج کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔ مقبوضہ کشمیر میں اس وقت بھارت کی 10لاکھ فوج مقیم ہے‘ تقریباً ہر چار کلومیٹر کے فاصلے پر بھارت کی مسلح فوج مسلمانو ں پر کھڑی نگاہ رکھے ہوئے ہے۔ دوسری طرف بھارت بڑی تیزی سے وہاں مسلمانوں کی آبادی کے تناسب کو ختم کرنے کیلئے باہر سے ہندوئوں کو مقبوضہ کشمیر میں بسایاجارہاہے۔ اب تک آٹھ لاکھ غیر کشمیری بھارتی مقبوضہ کشمیر میں آباد ہوچکے ہیں۔ انہیں مسلمانوں کے گھروں کو مسمار کرکے بسایاجارہاہے۔ encroachment کو ختم کرنے کے بہانے سے ۔ ظاہر ہے بھارت کے اس غیر انسانی ظالمانہ رویہ کی روشنی میںبھارت اور پاکستان کے درمیان دوستی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ امریکہ اس صورتحال کے پیش نظر اگر واقعہ پاکستان اور بھارت کے درمیان دوستی کرانے کا عزم رکھتاہے تو اس کو چاہیے کہ وہ بھارت کے طول وارض میں خصوصیت کے ساتھ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کو فی الفور بند کرائے اور مقبوضہ کشمیر میں آباد90لاکھ مسلمانوں کو باعزت جینے کا موقع فراہم کرے جوان کا اقوام متحدہ کے منشور کی روشنی ان کا حق بنتاہے۔ دوسری طرف نریندر مودی کے امریکہ یاترا سے متعلق اس سلسلے میں ایک اور اہم انکشاف کرنا ضروری سمجھتاہوں کہ وہ یہ ہے کہ امریکہ بھارت کو ناٹو پلس کا درجہ دے کر اس کو اپنے ساتھ شامل کرناچاہتاہے تاکہ دنیا کے دیگر ممالک میں امریکہ کااثر ورسوخ بڑھ سکے۔ باالفاظ دیگر چین کے بڑھتے ہوئے اثر کو روکاجاسکے۔ لیکن میرے خیال کے مطابق بھارت میں اتنی سکت نہیں ہے کہ وہ چین کے خلاف ایک محاذ بناسکے‘ ویسے بھی بھارت کی معیشت ترقی پذیر ہے‘ لیکن اس قابل نہیں ہے کہ وہ چین کی معاشی قوت کا مقابلہ کرسکے۔ چین میںقومی یکجہتی عروج پر ہے اور یہی اس کی معاشی وسماجی ترقی کا راز ہے۔ جبکہ بھارت اندر سے ایک منقسم ملک ہے۔ جہاں اقلیتوں کو کسی قسم کاتحفظ حاصل نہیں ہے بلکہ اقلیتوں کی بے چینی کی وجہ سے بھارت اندر سے ایک کمزور ملک بنتاجارہاہے۔بی جے پی کی ہندوتاً فلسفہ بھارت کو تباہی کی طرف لے جارہا ہے جس کامظاہرہ منی پور کے علاوہ بھارت کے دیگر علاقوں میں دیکھنے میں آتارہتاہے۔ چنانچہ امریکہ کو چاہیے کہ وہ بھارت کو مسلمانوں ‘ عیسائیوں اور سکھوں پر ہونے والے پرتشدد واقعات کو روکے‘ ان کی مذمت کرے اور ایسے حالات پیداکرے تاکہ بھارت میں اقلیتیں محفوظ رہ سکیں اور جنوبی ایشیاء میں امن کے امکانات پیدا ہوسکیں۔