اہم خبریں

عائشہ اونگ 

اونگ کا تعلق چین کی ایک بدھسٹ فیملی سے تھا مگر وہ اپنے مذہب کے بارے میں کچھ نہیں جانتی تھی سوائے اس کے کہ اسے ہر ماہ اپنے ماں باپ کے ساتھ کسی نہ کسی خدا کی سالگرہ منانے جانا ہوتا تھا ، یا کبھی کبھی گھر پر جنت کے خدا کی،کچن کے خدا کی یا Lounge کی عبادت وہ گھر والوں کے ساتھ مل کر کرتی تھی ۔اس کے علاوہ مذہب یا خدا کے بارے میں اس کا کوئی تصور نہیں تھا اور نہ ہی ان دونوں سے کوئی خاطرخواہ دلچسپی تھی ۔اسے اگر کچھ غرض تھی ،لگائو تھا یا دلچسپی تھی تو فطرت کے حسین مناظر سے ،جن کا پیچھا کرتی کرتی بعض دفعہ وہ اپنے گھر سے دور نکل جاتی تھی، اتنی دور کہ اس کے والدین کو جاکر اسے تلاش کرنا پڑتا تھا کہ راستہ بھول کر کسی گہرے جنگل کی اور نہ نکل گئی ہو۔ اسے ہوا سے بہت انس تھا ،ہوا کے ٹھنڈے ٹھنڈے جھونکے جو کبھی اس کے نازک جسم کو چھو کر گزر جاتے تو وہ اس کے نرم و ملائم ٹھنڈے دوش پر خود کو ہوا میں تیرتا ہوا م  پرلطف اورخوبصورت ہوا بنائی وہ خود کتنا دلکش اور حسین ہوگا۔
وہ چینی نژاد ملائیشین اور چینی لوگ ملائشیا میں اپنے آپ کو برتر سمجھتے ہیں ،ان میں کچھ عیسائی ہیں تو بہت تھوڑی تعداد میں مسلمان بھی ہیں جنہیں چائنیز لوگ اپنے سے کم تر گردانتے ہیں ،تاہم مالیز (Malays) سب کے سب مسلمان ہیں جنہیں چینی لوگ بے وقوف، کاہل اور سست سمجھتے ہیں ۔ چینیوں کی قدیم نسل کاخیال یہ ہے کہ اسلام فقط Malays کا مذہب ہے اور یہ کوئی ایسا مذہب نہیں کہ زیادہ اہمیت کا حامل ہو ، مسلمان چار چار شادیاں کر لیتے ہیں یہ بڑا عجیب رواج ہے ،جبکہ چینی بس ایک ہی عورت کو بیوی بناکر رکھتے ہیں۔مگر اونگ کو یہ بھی نہیں بھاتا تھا کہ چینی کئی کئی داشتائیں رکھتے ہیں ،وہ مذہبی ذہن نہ رکھنے کے باوجود بھی کچھ مختلف سوچنے میں منہمک رہتی ،اپنے ملک میں نسلی تنائو کی وجہ سے بھی وہ خوش نہیں تھی یوں وہ بہت سارے گنجلک سوالات دل و دماغ اورذہن میں سمائے وہ تعلیم کی غرض سے انگلینڈ چلی گئی۔وہاں اس کے مراسم جن جن سے قائم ہوئے وہ سب بھی مذہب بے زار لوگ تھے ،ناچ ،گانا ، مخلوط محافل اور ڈسکو ز وغیرہ جو اس کے ارد گرد ہورہا تھاو ہ بھی اسی میں گھل مل گئی۔اس نے بری سوسائیٹی کا حصہ بن جانے کی وجہ سے وہ خود کو گمراہ محسوس کرنے لگی ۔برطانیہ میں آئے اسے دوسالہ ہی ہوئے تھے اس نے وہاں ایک شادی بھی کر لی جو دیر پا نہیں ٹھہری ،یونہی ملیشیا کاایک لڑکا اس کا سہارا بن گیا جس نے اس کے برحالات میں اس کا ہاتھ پکڑلیا وہ بہت اچھے دوست بن گئے۔
وہ لڑکا مسلمان تھا مگر اس سے بہت خوش اسلوبی سے ملتا ،شائستہ تعلقات رکھے اور اسے اچھی اچھی کتب پڑھنے کو دیں ،اسے مخلوط محافل کا حصہ بننے کے نقصانات سے بہت پیار اور عمدگی کے ساتھ دور رہنے کی ترغیب دی۔وہ جو اسلام کو ایک عام سا مذہب سمجھتی تھی اب اس میں دلچسپی لینے لگی ،پھر ایک دن اس کا ملائیشین مسلمان دوست انگلینڈ  سے ملیشیا لے جانے میں کامیاب ہوگیا۔
اونگ کے دل میں رفتہ رفتہ اسلام نرم گوشہ پیدا ہو چکا تھا ،یہ بھانپتے ہوئے اس کے مسلمان دوست نے اس کی ملاقات ایک عالم دین سے کرائی  ،جنہوں نے اونگ کو ایک لیڈیز اسلامک حلقے سے متعارف کرایا تاکہ وہ جس کا جھکائو ہر آنے والے دن کی طرف اسلام کی طرف بڑھتا چلاجارہا تھا وہ اس حلقے سے اسلام کے بارے میں  مزید  معلومات حاصل کر سکے ۔اپنے مسلمان دوست کے ساتھ بھی اس کی قربت بڑھ گئی تھی جس کی وجہ سے ان کی آپس میں منگنی طے پاگئی۔ وہ اپنے منگیتر سے ہر وقت اسلام کے بارے میں آگہی کے لئے سوالات کرتی رہتی اور آس کامسلمان دوست اس کے ہر سوال کا جواب لاجک کے ساتھ دیتا ۔
پھر ایک دن اس کے دوست نے Islam on choice نام کی کتاب دی ۔اونگ نے اس کتاب کاانتہائی توجہ اور انہماک کے ساتھ مطالعہ کیا ،جس نے اسلام سے متعلق اس نے ایک نئی سوچ پیدا کی،ایک نیا احساس اس کے رگ پے میں سرایت کرگیا ،مذہب کے بارے میں اس کے دماغ میں ایک ایسی کھڑکی کھل گئی جس نے اسے اللہ پر اورمذہب اسلام پر یقین کی دولت سے ہمکنار کردیا  ۔وہی جو سرتاپا مغربی تہذیب کا چلتا پھرتا ایک ماڈل تھی ،اچانک اسے اپنے آپ سے اور اپنے طرز زندگی سے گھن آنے لگی،اسے مغربی طرز کے لباس سے نفرت ہوگئی ۔اس کے اندر یہ احساس گھر کر گیا کہ عورت کو اپنا آپ ڈھانپ کر رکھنا چاہیئے اس کا جسم صرف ایک مرد کی امانت ہے وہی اسے دیکھنے کا شرعی حقدار ہے۔اسے اسلام میں پائی جانے والی پاکیزگی اور طہارت پر ناز سا ہونے لگا۔
اس کے والدین کو جب اس کے خیالات کے بارے علم ہوا تو وہ بہت سیخ پا ہوئے، وہ چھ ماہ تک اپنے ماں باپ کے گھر میں ہی اسلام کا مطالعہ کرتی رہی اور جب اسلام کی حقانیت کا کامل یقین ہوگیا تو اس نے اسلام کو ہمیشہ ہمیشہ  کے لئے گلے لگا لیا ۔ اب وہ عائشہ اونگ بن چکی تھی ۔جس کا یہ ایمان بن گیا کہ اسلام ہی ہے جو عورت کے استحصال کی اپنے اندر کوئی گنجائش نہیں رکھتا ۔عورت جسے مغربی تہذیب نے ایک تجارتی اشتہار کا روپ دے دیا ہے اور اسے اپنی کاروباری سودمندی کا آلہ بنا دیا ہے اسے اسلام نے جو عزت اور احترام بخشا ہے وہ کسی اور مذہب ،کسی اور تہذیب نے عطا نہیں کیا۔اسلام نے عورت کو گھر ہستن کا درجہ دے کر اس کے پیکر وجود کی نازکی کا بھرم قائم کیا ہے۔  (ماخوذ)

متعلقہ خبریں