اہم خبریں

وہی ہم،وہی غم

(گزشتہ سے پیوستہ) پیارے پاکستان میں سیاستدان اقتدارکے بغیرنہیں رہ سکتے اوراسلام آبادان کے بغیرنہیں رہ سکتا۔ ہماری بربادی میں ان لوگوں کی آبادی کا سب سے بڑاہاتھ ہے۔ ارض وطن کی معاشی بدحالی اورسیاسی انتشارکافائدہ اٹھاتے ہوئی بیرونی دباؤکی وجہ سے استعمارسے جلددوستی کی بیماری اب وباکی شکل اختیارکرگئی ہے۔ہم نے اپنے اقتدارکے دوام کیلئے مظلوم کشمیریوں کے وکیل ہونےکا دعویٰ کرکے ان کے لاکھوں شہداکاسودا کرکے دھوکہ دیالیکن مظلوموں کی آہوں کوبھول گئے،اس کیلئےچاہےجتنے مرضی الفاظ جمع کرلیں ’’کاغذکورا‘‘ہی رہے گا۔ لوگ تویہ بھی کہتے ہیں کہ محبت صرف ایک بارہوتی ہے اور اس کے بعد سمجھوتے ہی چلتے ہیں، جب تک جان ہے،جہان داری تونبھانی ہی پڑے گی،جس میں ہارجیت چلتی رہتی ہے ۔ جیتنے والوں کویہ بات یادرکھنی چاہئے کہ قوم دکھوں سے ہاررہی ہے اورآپ مخالفین کو قابو کرنے کی تعریفیں سن کرنہال ہورہےتھے لیکن اچانک اس وقت آپ کے دل پرچھری چل گئی کہ جس کیک کو بڑی محنت سے تیارکیا تھا،اس کے ٹکڑے دوسرے لے اڑے بلکہ اپنی پلیٹ کاسوراخ بھی بڑھتاجا رہا ہے اورگھرکےکچھ اہم پنچھی بھی داغ مفارقت کیلئے پرتول رہے ہیں۔
دوسری طرف آئے دن بھوک کے ہاتھوں دلبرداشتہ ایک ماں نے اپنے معصوم بچوں سمیت خودکوٹرین سے کٹواکرہمارے سسٹم کو کاٹ کر رکھ دیاہے،اوروزیرخزانہ اعدادوشمارکے گورکھ دھندوں سے قوم کوتسلی دے رہے ہیں۔ ہمارے ہاں زندہ لوگوں کاحساب نہیں لیا جاتا تو مرے ہوئے کس کھاتے میں آئیں گے۔امیرشہر کا تواپنایہ حال ہے: امیر شہر غریبوں کا خیال کیا کرتا امیر شہرکی اپنی ضرورتیں تھیں بہت کیاایک لاکھ سے زائدجانوں کی قربانی اس بات کی روشن دلیل نہیں کہ جس رب نے ہر انسان کوآزادپیداکیاہے،وہ ہرحال میں حریت کیلئے اپنی جاں تک قربان کردینے کاعزم رکھتا ہے۔ مقبوضہ کشمیرمیں مردم شماری سے اگر سروں کی گنتی مقصودتھی توپھران مجبورومقہوربے گناہ سرفروشوں کی تعدادبھی سامنے آنی چاہئے تھی جو کشمیرکی آزادی کیلئے قلم کردیئے گئے۔ان اجتماعی قبروں میں دفن گمنام شہداکابھی حساب ہوناچاہئے تھاجن کی مائیں ابھی تک نوحہ کناں ہیں، جن کے معصوم بچے اپنے والدین کی صورت دیکھنے کوترس رہے ہیں ۔ ان معصوم جوان بچیوں کا بھی حساب ترتیب دیناہوگاجن کی عصمتیں لوٹ لی گئیں۔ سات دہائیاں پہلے اسی ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہرلال نہرونے خودپاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی کو ٹیلی گرام میں کشمیریوں کو حقِ خود ارادیت دینے کاوعدہ کیاتھا اور بعد میں بھارتی وفد نے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پرکشمیریوں کوحق خودارادیت دینے کاوعدہ کیا تھا اور آج تک وہ قراردادیں عمل درآمدکی منتظرہیں اور اس تمام عرصے میں کشمیریوں کوحق خوداردیت سے محروم رکھ کے بھارت نے خوداپنی شکست تسلیم کررہاہے اور ایک لاکھ سے زائد شہدا اورہزاروں بیٹیوں کی عصمت وعفت کی قربانی اور وقت نے کشمیر کا فیصلہ سنا دیا ہے کہ ریاست کشمیرکے باسی بھارت کے ساتھ رہنے کیلئے قطعاً تیار نہیں۔ اگربھارت کو اپنی کامیابی کا ایک فیصدبھی یقین ہوتا تواب تک وہ اس عمل سے گزر چکا ہوتا۔ کشمیریوں کی ثابت قدمی اوربے پناہ قربانیوں کے سامنے اس نے ہتھیارپھینک دیئے تھے اوراسی وجہ سے وہ ایسے حیلے بہانے ڈھونڈرہاتھاکہ کس طرح کشمیریوں کی تعداد کو کم دکھاکرعالمی فورم کے دباؤکوکم کیا جاسکے۔ جب ہندوبرہمن دنیاکواتنابڑادھوکہ دینے میں کامیاب نہیں ہوسکاتواس نے جی20 کانفرنس کی آڑمیں اپنے خونی پنجے گاڑنے کی ناکام کوشش کی۔یہ کیسے ممکن ہے کہ ہندوستان میں توپچھلے 70 سالوں میں مسلمانوں کی آبادی22فیصد سے زائد بڑھ جائے اورکشمیرمیں مسلمانوں کی تعدادمسلسل کم ہوتی جائے۔ جموں،کٹھوعہ اور اس کے گردونواح میں آبادی کے تناسب کوتبدیل کرنے کیلئے غیرریاستی باشندوں کوغیرقانونی طور پر آبادکرنے کی مکروہ سازش پر عملدرآمد جاری ہے جوکہ عالمی قوانین کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے۔ کشمیر کے مرد حر سیدعلی گیلانی مرحوم نے بروقت کشمیری قوم اور ساری دنیاکواس سازش سے خبردار کیا تھا کہ ’’حکومت مردم شماری کی مہم کے تحت نہ صرف یہاں تعینات فوج اورفورسزکی گنتی کررہی ہے بلکہ ان بھکاریوں کی بھی گنتی کی جارہی ہے جوپچھلے چھ مہینوں سے مقیم ہیں‘‘۔مزیداس حکومتی خطرناک چال سے آگاہ کرتے ہوئے جناب سیدعلی گیلانی مرحوم نے بالکل صحیح فرمایا تھا کہ دراصل ایک منظم سازش کے تحت بھارت کی ہندو شدت پسند تنظیموں کے ان عزائم کو پورا کرنے کی کوشش ہو رہی ہے جن کا مقصد جموں وکشمیرکے مسلمانوں کواقلیت میں تبدیل کرنا ہے‘‘۔ تاریخ کایہ عبرتناک عمل ہے کہ جب ظلم حدسے بڑھتاہے تومٹ جاتاہے۔کشمیریوں نے اپنے ایک لاکھ شہداسے زائدکی قربانیوں سے یہ ثابت کردیاکہ اگرروس اورامریکااپنی بے پناہ طاقت کے بل بوتے پرعراقیوں اورافغانیوں کونہ دباسکے توبھارت توان سے زیادہ طاقت ورنہیں ہے۔ مجھ سے ایک امریکی صحافی نے سوال کیا کہ ’’آخرنہتے کشمیری اورکتنی دیرلڑتے رہیں گے؟ ’’بہتر ہوتااگر تم یہ سوال بھارتی حکومت سے کرتے کہ وہ کتنی دیر اورکشمیریوں سے لڑنے کی ہمت رکھتے ہیں!‘‘ میرے دل سے اٹھنے والی یہ آواز شائدکشمیریوں کے ترجمانی کرسکی یانہیں لیکن اس امریکی صحافی نے فوری اس بات کااعتراف کیاکہ مظلوم کی طاقت کے سامنے کوئی نہیں ٹھہر سکا، یہی تاریخ کاعبرتناک سبق ہے جوبالآخران ظالموں کامقدربنے گا۔ مجھے چنددن پہلے ایک کشمیری نوجوان کی ایک طویل ای میل موصول ہوئی،اس نے اپنے طویل پیغام میں یہ تین سوال بھی پوچھے ہیں: 1۔بھارت دنیاکے کئی پلیٹ فارم پرسب سے بڑی جمہوریت کادعویٰ توکرتاہے لیکن اس نے آج تک کسی آزادپریس میڈیااورالیکٹرانک میڈیا کوکشمیرکی حالتِ زاردیکھنے اوران کی آزادانہ رائے کودنیاکے سامنے لانے کی اجازت کیوں نہیں دیتا؟ 2۔اگرچند لمحوں کیلئے(صرف سمجھانے کیلئے) فرض کرلیاجائے کہ کشمیربھارت کاحصہ ہے توبھارت کے آئین کی کون سی شق اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ وہ اپنے ہی ملک کے ایک لاکھ سے زائدکشمیریوں کوبے رحمی سے قتل کر دے؟ 3۔ اگربھارتی سیکورٹی فورسزکے افراد رات کی تاریکی میں حکومتی اندھی طاقت اوراسلحے کے زورپرایک گھرمیں داخل ہوکر ایک بوڑھی عورت سے لے کر ایک دس سالہ بچی کی عصمت دری کردے اورگھرکے تمام افراد کو گولیوں سے بھون کراپنے جرم کو چھپانے کیلئے اس گھر کو نذرِآتش کردے،بعدازاں اس بدنصیب گھر کا ایک زخمی بچ جائے اورانصاف نہ ملنے کی صورت میں وہ خود انتقام لینے کیلئے کوئی کوشش کرے تواسے آپ دہشت گردکہیں گے؟ آج توپہاڑوں کودیکھتاہے اورسمجھتاہے کہ خوب جمے ہوئے ہیں،مگراس وقت یہ بادلوں کی طرح اڑرہے ہوں گے۔رہے نام میرے رب کاجوچالوں کو خوب سمجھتاہے!

متعلقہ خبریں