اسحق ڈار نے جو وفاقی بجٹ پیش کیاہے‘ اس میں تعلیم اور صحت کے شعبے میں انتہائی کم رقم مختص کی ہے۔ جس سے ظاہر ہوتاہے کہ انہیں نہ تو تعلیم کے فروغ سے دلچسپی ہے اور نہ ہی عوام کی صحت سے جوکم غذا کی وجہ سے ہرگزرتے دن کے ساتھ کمزور ہورہے ہیں اور محنت کے کام کرنے سے عاجز ہیں۔ اس کے علاوہ اسحاق ڈار نے پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی پہ بھی اپنی گہری تشویش کااظہار کیاہے اور برملا کہاہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی سارے وسائل ہڑپ کرجاتی ہے۔ مزید برآں انہوں نے کہا کہ ان کے پاس ’’ بی ‘‘ پلان بھی موجود ہے جس کی مدد سے بہت حدتک پاکستان کے معاشی مسائل حل ہوسکیں گے۔ حالانکہ انہوں نے کہا کہ وہ ’’ بی‘‘ پلان کو ابھی عیاں نہیں کریںگے۔ کیونکہ اگر اس کااظہار کردیا تو ملک میں خوامخواہ کا بحران پیدا ہوجائے گا۔ تاہم اسحاق ڈار ’’ بی ‘‘ پلان بتائیں نہ بتائیں لیکن ہم جیسے صحافیوں کو جو گزشتہ چالیس سالوں سے صحافت کررہے ہیں ہمیں معلوم ہے کہ ’’ بی ‘‘ پلان کے تحت اسحاق ڈار پاکستان کے باہرموجود assets کوفروخت کرکے ملک کی معیشت میں استحکام لانے کی کوشش کریں گے۔ حالانکہ یہ تجربہ ماضی میں ناکام ہوچکاہے۔ اس طرح پاکستان کی معیشت نہ توبحال ہوسکتی ہے اور نہ ہی عوام کی زندگیوںمیں کوئی معاشی انقلاب رونماپذیر ہوسکتاہے۔ ابھی حال ہی میں اسحق ڈار کی اجازت سے خواجہ سعد رفیق نے امریکہ میں روز ویلٹ ہوٹل فروخت کیاہے‘ جس کی شفافیت پر باخبر افراد کو سخت اعتراض ہے‘ بلکہ اس سے متعلق جو سوالات اٹھ رہے ہیں ان سے متعلق کوئی معقول جواب نہیں آرہاہے۔چنانچہ ارباب اختیار کو چاہیے کہ وہ فی الفور’’بی ‘‘ پلان کو روکیں کیونکہ یہ طریقہ کار آئندہ پاکستان کے لئے بہت مہنگا پڑیگا ۔
پاکستان صرف صنعتی ‘ زرعی‘ آئی ٹی اور سروس سیکٹر کے ذریعے مضبوط ہوسکتاہے۔ جس کے لئے حکومت کو واضع پالیسیوں بنانی ہوں گی۔ لیکن حکومت کے پاس کوئی روڈ میپ نہیں ہے اور نہ ہی انہیں اس بارے میں دلچسپی ہے کہ ملک میں معاشی حالات کو سدھارنے کے لئے نہ صرف حکومتی اخراجات کم کرنے ہوں گے۔ بلکہ کرپشن کو بھی جڑ سے ختم کرناہوگا‘ کیونکہ میری معلومات کے مطابق اس وقت بھی حکومت کے بعض شعبوں میں کرپشن جاری ہے ‘ روکا نہیں گیا ہے بلکہ بعض عناصر کی نگاہ میں کرپشن پاکستان کاکوئی مسئلہ نہیں ہے‘ حالانکہ پاکستان معاشی طور پر جو نڈھال ہوا ہے وہ صرف بے لاگ کرپشن کی وجہ سے ہوا ہے جس کو ابھی تک ارباب اختیا ر رکوانے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ وفاقی بجٹ کے سلسلے میں دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس وقت پاکستان میں دس کروڑ افراد خط افلاس کے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں‘ جبکہ ڈھائی کروڑ افراد (پڑھے لکھے) کے پاس کوئی نوکری نہیں ہے ۔ ملازمت نہ ہونے کی وجہ سے ملک میں کرائم بڑھ رہے ہیں‘ خصوصیت کے ساتھ کراچی میں اسٹریٹ کرائم میں بے پناہ اضافہ ہواہے جبکہ پی پی پی کی حکومت اس لعنت کو ختم کرنے میں ناکام نظرآرہی ہے۔ حالانکہ پی پی پی گزشتہ پندرہ سالوں سے اس صوبے میں حکومت کررہی ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ بجٹ میں ترقیاتی امور کے لئے جورقم مختص کی گئی ہے وہ بھی ناکافی ہے۔ بلکہ ا س سے نہ تو ملک میں کوئی سرمایہ کاری ہوسکے گی اور نہ ہی روزگار کے ذرائع پیدا ہوسکیں گے۔ نیز بڑھتی ہوئی آبادی کوروکنے کے سلسلے میں ان کے پاس کوئی واضح پلان بھی موجود نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے محدود وسائل بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں۔ اس لئے اس شعبے میں جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بڑھتی ہوئی آبادی کو روکیں تاکہ ملک کے وسائل میں اضافہ ہوسکے۔ چنانچہ وفاقی بجٹ کو پڑھ کر یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ کچھ دنوں کے بعد ایک اور منی بجٹ پیش کئے جانے کاامکان ہے کیونکہ موجودہ بجٹ میں معیشت کو سنبھالنے کے لئے کوئی ٹھوس تجاویز نہیں ہیں۔اثاثے فروخت کرکے نہ تو ملک میں معاشی وسیاسی استحکام آسکتاہے اور نہ ہی مہنگائی کا عفریت ختم ہوسکتاہے۔ اس طرح عوام کی معاشرتی حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آسکے گی اور نہ ہی روزگار کے ذرائع پیدا ہوسکیں گے۔ چنانچہ کیا پاکستان اسی ہی طرح چلتارہے گا؟ یا پھر کوئی عوامی انقلاب کے ذریعے تبدیلی رونما پذیر ہوسکے گی۔؟ ذراسوچیئے۔!