ویسے تو صوبہ پنجاب، کے پی کے، بلوچستان اور کشمیر کی جیلوں کی صورتحال میں کوئی بہتر نہیں ہے، مگر سندھ کی جیلوں کی صورتحال کے حوالے سے ایک گھر کے بھیدی نے جو لنکا ڈھائی ہے، اسے دیکھ کر اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں ہے کہ جن کو خود قیدیوں کی بیرکوں میں بند ہونا چاہیے تھا وہ جیلوں کے پردھان بنے بیٹھے ہیں، پہلی بات ملک بھر کی جیلوں میں جس طرح سے گنجائش سے زائد قیدیوں کو ٹھونسا جاتا ہے اور پھر جیلوں میں قیدیوں کے ساتھ جس طرح سے ظالمانہ اور ہتک آمیز رویہ اپنایا جاتا ہے، وہ قیدیوں کی اصلاح کی بجائے مزید بگاڑ کا سبب بنتا ہے، پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور ان کے جیالے بڑے فخر سے دعوے کرتے ہیں کہ زرداری نے چودہ سال جیلیں بھگتیں، یہ بات ہے بھی ٹھیک، سوال مگر یہ ہے کہ ان کے چودہ سال جیلیں بھگتنے کے باوجود اگر سندھ کی جیلوں کی صورتحال تباہ کن ہے تو اس کی ذمہ داری بھی کیا عمران نیازی پر عائد ہوتی ہے؟
جناب زرداری اپنے ایک انٹرویو میں فرماتے ہیں کہ وہ چودہ سال جیلوں میں رہ کر معیشت پر کتابیں پڑھتے رہے۔ ’’سبحان اللہ‘‘ شائد اسی لئے سندھ کی جیلوں کی صورتحال دگرگوں ہیں، اگر وہ جیلوں میں رہ کر قیدیوں کے اسلامی اور انسانی حقوق پر کتابیں پڑھ لیتے، جیلوں کے ملازمین اور افسران کی بدترین رشوت خوری اور قیدیوں کے انسانی حقوق کو پامال کرنے والوں کے علاج پر مشتمل کتابیں پڑھ لیتے تو ممکن ہے کہ ان کی ’’توجہات‘‘ کے سورج کی کوئی ’’کرن‘‘ سندھ کی جیلوں پر بھی پڑ جاتی، مجھے یہ لکھنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے کہ بعض جیلیں منشیات کے اڈوں کی ذمہ داری بھی ادا کرتی ہیں، منشیات کا کاروبار جتنے محفوظ انداز میں جیلوں سے کیا جاسکتا ہے اتنا کہیں اور نہیں، جیلوں میں قید بھگتنے والے قیدی وہاں نہ صرف منشیات کے عادی بلکہ دیگر قبیح قسم کی اخلاقی اور نفسیاتی بیماریوں کا شکار بھی ہو جاتے ہیں، اب بڑھتے ہیں ملیر جیل میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کے عہدے پر تعینات رہنے والے کامران احمد شیخ کی اس درخواست کی طرف کہ جو انہوں نے چیف جسٹس سپریم کورٹ، چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ، کور کمانڈر سندھ، ڈی جی رینجرز سمیت دیگر اعلیٰ حکام کو دی ہے، اس درخواست کے مطابق ’’بااثر مافیا کی مرضی سے سندھ کی جیلوں میں سپاہی سے لے کر اعلیٰ افسر تک کی تعیناتی ہوتی ہے، چار جیلوں میں اسسٹنٹ سپرٹنڈنٹس کو سپرٹنڈنٹس بنایا ہوا ہے گزشتہ 3سالوں سے محکمہ کی سینارٹی لسٹ بھی نہیں بنائی جاسکی۔‘‘ گھر کے اس بھیدی کی درخواست بہت طویل ہے جس پر ایک معاصر اخبار نے رپورٹ بھی شائع کی ہے مگر میں درخواست کے بقیہ مندرجات کو چھوڑتے ہوئے سندھ اور پاکستان کے اعلیٰ حکام کے سامنے یہ سوال اٹھانا اپنی صحافتی ذمہ داری سمجھتا ہوں کہ آخر جیلوں کی اس قدر خراب صورتحال کو سدھارے گا کون؟ کیا اس لولے لنگڑے، اندھے، بہرے، کن ٹٹے جمہوری نظام میں جیلوں اور جیل حکام کی اصلاح بھی ممکن ہے؟ مجھے تو اس حوالے سے ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا نظر آتا ہے، ملک کے مختلف حصوں میں قائم جیلوں کے اندرونی متعفن بگاڑ کے حوالے سے پہلے بھی بہت سی رپورٹیں شائع ہوتی رہیں، وہاں قیدیوں کے ساتھ جیل افسران اور ملازمین کا بدترین سلوک، ناقص خوراک، قیدیوں کے حقوق کی پامالی کے قصے، کہانیاں بھی منظر عام پر آتے رہے، حکمرانی کے مزے لوٹنے والے حکمران بھی جیلیں بھگتتے رہے، دوران قید دوسرے قیدیوں سے وہ جیل اور جیل حکام کی اصلاح کے لئے قانون سازی کے وعدے بھی کرتے رہے مگر رہائی ملنے کے بعد (ہنوز دلی دوراست‘‘ ہماری عدلیہ کا سسٹم ہی اگر اسلامی ہوتا تو ممکن ہے کہ حکمرانوں سے مطالبے کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی، مگر افسوس کہ وہاں صورتحال بھی کچھ زیادہ بہتر نظر نہیں آرہی، عدلیہ سیاسی معاملات دیکھے، بے چارے عمران خان کی ضمانت پہ ضمانت دے، ’’ضمانت پہ ضمانت‘‘ ویسے ہی ہے کہ جیسے جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے ایک اجتماع سے خطاب کے دوران نعرہ لگوایا تھا کہ ’’ٹھپے پہ ٹھپہ‘‘ نہ عدلیہ، نہ پارلیمنٹ ہے کوئی مرد ’’حر‘‘ کا جیالا کہ جو یہ بتا سکے کہ کم ازکم سندھ کی جیلوں میں جیل، حکام کو انسانی حقوق کا ضامن کیسے بنایا جاسکتا ہے؟ جیلوں میں موجود قیدیوں کو جرائم سے توبہ، تائب کروا کر معاشرے کے لئے مفید کیسے بنایاجاسکتا ہے؟ ’’قیدیوں‘‘ کی بلاتفریق خدمت کے حوالے سے نائن الیون کے بعد سے اس خاکسار کا جیلوں سے کچھ تعلق قائم ہے، اس لئے میں ذاتی طور پر بھی جیلوں کے اندرونی حالات سے کچھ تھوڑی بہت واقفیت رکھتا ہوں، دکھ کی بات یہ ہے کہ اس جدید دور میں بھی جیلوں کے اندر جس طرح سے ’’انسانیت‘‘ کو رسوا کیا جاتا ہے، وہ انتہائی عبرتناک ہے، پرویز مشرف کے دور میں شبرغان، جبل السراج اور افغانستان کے دیگر صوبوں کی سرکاری جیلوں اور وار لارڈز کی نجی جیلوں میں قید سینکڑوں پاکستانیوں کو واپس لا کر راولپنڈی کی اڈیالا جیل، لاہور کوٹ لکھپت جیل، پشاور، ہری پور، گوجرانوالہ کی جیلوں میں بند کر دیا گیا، میانوالی جیل میں افغانستان سے واپس لا کر بند کئے جانے والے قیدیوں نے اوصاف اسلام آباد کے ایڈریس پر جیل سے ایک تفصیلی خط لکھ کر بھجوایا، جس میں ناقص خوراک یا تشدد کی شکایتوں کی بجائے اس وقت کے جیل سپرنٹنڈنٹ کے حوالے سے یہ شکایات درج تھیں کہ وہ ہمیں قرآن پاک کی تلاوت نہیں کرنے دیتا، نماز پڑھنے کے لئے وضو کی اجازت نہیں دیتا، نماز باجماعت ادا کرنے پہ تشدد کرواتا ہے، اس خاکسار نے اس وقت کے اپنے ایک سینئر جرنلسٹ اور معروف اینکر دوست اور لال مسجد کے اس وقت کے نائب خطیب علامہ عبدالرشید غازی شہید کو وہ خط دکھا کر مشورہ طلب کیا، دونوں کی رائے یہ تھی کہ ہمیں میانوالی جیل کا وزٹ کرکے سپر نٹنڈنٹ جیل اور خط لکھنے والے قیدیوں سے بھی ملاقات کرنی چاہیے چنانچہ اس خاکسار نے علامہ عبدالرشید غازی شہید کی معیت میں میانوالی جیل کا دورہ کرکے جیل سپرنٹنڈنٹ اور قیدیوں سے بھی ملاقاتیں کیں ’’ جس پر تفصیلی کالم پھر کبھی سہی‘‘ ان شاء اللہ