تین بڑے فلسفی ایسے ہیں جنہوں نے عالم تصورمیں اگلے جہانوں کی سیرکی ہے اوراس سیرکے تجربے کے بعددنیا کوبہترین تخلیقات عطاکی ہیں،یہ تخلیقات ادب کاسرمایہ ہیں اور رہتی دنیا تک قائم رہنے والی ہیں۔سب سے پہلے ابن عربی نے فتوحات کلیہ لکھی اورعالم بالاکی سیرکااحوال تحریر کیا، پھردانتے نے ڈیوائن کامیڈی تحریرکی اورآخرمیں علامہ اقبالؒ کاجاوید نامہ، عالم بالاکے عذابوں اورثوابوں کے مناظرسے گزرتے ہوئے یہ لوگ بہت سے مشترک تجربوں سے گزرے۔ یوں لگتاہے کہ جیسے اس کائنات کے خالق نے انہیں خاص اشاروں کے ذریعے کچھ نہ کچھ سمجھانے کی کوشش کی تھی۔ان تینوں نے جہاں حق کاساتھ دینے والوں کوشاداں، فرحان دیکھاہے اورباطل کے ہم رکابوں کوعذاب مسلسل میں گرفتار ، وہاں یہ تینوں ایک خبر ضرورلے کرآئے ہیں کہ سب سے بدترین عذاب ان لوگوں کامقدربناجوحق وباطل کے معرکے میں یہ فیصلہ ہی نہ کرپائے کہ انہیں کس کاساتھ دیناہے اور خاموش بیٹھ گئے،غیرجانبدارہوگئے۔
کس قدرخوش قسمت ہوتی ہے وہ قوم جس کے سامنے اللہ تعالیٰ حق اورباطل دونوں کوواضح کر دیتا ہے۔ اس سے بھی زیادہ وہ قوم خوش قسمت ہے جس کے سامنے حق کاساتھ دینے والے بھی اپنے عمل سے واضح اور علیحدہ ہوجائیں اورباطل کی قوتیں بھی ایک ایک کرکے اپنے تیرکمانوں میں کس کرمقابل پرآجائیں۔ دو گروہوں میں واضح فرق نظرآنے لگے۔ ایک لکیرکھنچ جائے اوردونوں طرف کے چہرے صاف صاف نظر آنے لگیں۔کسی شک وشبے کی گنجائش باقی نہ رہے، کسی کوپہچاننے میں ذراسی غلطی بھی محسوس نہ ہوکہ کون ہے جوعدل وانصاف کاپرچم تھامے ہوئے ہے کہ دنیامیں حکومتیں کفرکی بنیاد پرتوقائم رہ سکتی ہیں مگربے انصافی کی بنیادپر قائم نہیں رہتیں(حضرت علیؓ)اوردوسری جانب کے لوگ بھی اپناپورا غصہ، نفرت اورغیض وغضب کا زہر آنکھوں، زبانوں اورہونٹوں پرلئے ہراس شخص پرحملہ آور ہونے کیلئے تیارہوں جولکیرکی دوسری جانب کھڑاہے۔ پاکستان کی قوم کس قدرخوش قسمت ہے کہ میرے اللہ نے ان کے لئے فیصلہ کرنے کے لئے اتنی آسانی پیدا کردی۔76سال سے شعبدہ بازیاں چل رہی ہیں۔ہرکوئی ملک کی خیرخواہی کا دعویٰ کرتاہے لیکن دودھ اورشہد کی نہریں بہنے کے وعدوں کاڈھول پیٹ کراقتدارتک پہنچنے والوں نے عوام کوبدحال کر دیاہے۔ چندسال پیشترارض وطن میں ہرغریب آدمی کوگھر کی دہلیز پر انصاف پہنچانے کی ملک گیر تحریک چلائی گئی۔ نعرے،تقریریں، تحریریں،جلسے جلوس، الیکشن،ووٹ، ممبری، وزارت، اسمبلی کی معطلی،ملک کوراہ راست پرلانے کے دعوے ،اس کومحفوظ اورعالمی طاقت بنانے کے لئے پہلی مرتبہ ارضِ وطن کے وزیرخزانہ نے اپنی بجٹ تقریرکاآغازہی اپنے لیڈرکی تعریف وتوصیف سے کیاجبکہ قوم مہنگائی کے جس عذاب میں مبتلا ہے اس کے مقدرمیں ان تمام مقتدرافرادکے ہرشہرمیں ان کے عظیم الشان محلات اورپلاٹوں کی ہوس کودیکھ کرآنسوبہاناہی رہ گیاہے۔76سال تقریباًبرابر تقسیم کرکے ان قوتوں کودے دئیے گئے جوہرطرح کے دعوؤں سے مسلح تھے۔قوم نے ڈکٹیٹروں کے روپ میں آکر سیاستدانوں کاعمل اختیارکرتے دیکھے، سیاستدانوں کے روپ میں جلوہ گرہوکرڈکٹیٹروں کی چال میں ڈھلتے دیکھے۔قوم اس بات پرعالم حیرت میں ہے کہ آخران وعدوں کی واضح ایماندار لکیر کیوں بن نہیں سکی جواپنے پاؤں لکیرکے ایک جانب رکھتے ہیں لیکن ان کاچہرہ دوسری جانب اور جن کا چہرہ ایک طرف ہے وہ پاؤں سرکاتے لکیرکی دوسری جانب لے جانے میں ایک لمحہ کی دیرنہیں لگاتے۔نہ حق کے ساتھیوں کی پہچان اورنہ باطل کے سپاہیوں کاعلم۔دونوں کے نقاب ایک جیسے، نعرے ایک جیسے،عمل ایک جیسا،قول وفعل میں تضادایک جیسا ۔ لیکن شائد یہ اس قوم کاآخری معرکہ ہے جس میں فیصلہ ہوناہے کہ اس قوم نے عدل وانصاف کاگہوارہ بنناہے یاظلم وجورکا تاریک زدہ مسکن۔اسی لیے اس آخری اورفیصلہ کن معرکے میں دونوں جانب کے کردارکھل کرسامنے آگئے ہیں۔اب تویوں لگتاہے معرکے کی گھڑی ہے۔ایک جانب وہ60سے زیادہ عدل وانصاف کی کرسیوں پربیٹھنے والے لوگ ہیں جن کی قیادت اعلیٰ عدلیہ کے قاضی القضاکے پاس ہے۔یہ لوگ اپنی آخری عمرکے انتظارتک عدالت کی کرسی پرنہیں بیٹھیں گے کہ بعد میں کوئی کتاب لکھ کر،کسی انٹرویومیں اپنی غلطیوں کااعتراف کرکے ضمیرکومطمئن کرلیں گے بلکہ وہ اس ایوان عدل سے باہرنکلتے ہی اپنے اعمال کی جوابدہی کایقیناسامناکرنے کے لئے تیار رہیں۔انہیں اس بات کاتسلی وتشفی جواب بہرحال دیناہوگاکہ جہاں وہ سمجھتے تھے کہ انصاف نہیں کرسکتے،عوام کی قربانیوں اورمستقل مزاجی نے دوبارہ اس محترم ومقدس ادارے کے ان تمام افرادکوعدل کی کرسیوں پر بٹھانے کے لئے قربانیاں محض اس لئے دیں کہ انہوں نے قوم سے جو انصاف کا وعدہ کیاتھا،اس کوپوراکریں گے،ان کی فہرست میں کوئی ایسامن پسندنہیں ہوگاکہ جس کے لئے انہیں انصاف کاخون کرناپڑے اورکسی درخواست گزارکوعدم اعتمادکااظہارکرناپڑے کہ قاضی القضااس بینچ کاحصہ نہ بنیں۔ دوسری جانب کے لوگ بھی واضح ہیں۔آپ ان کے لہجے کی تندی،ان کے غصے کی غضبناکی اوران کے طاقت پرگھمنڈ سے خوب اندازہ لگاسکتے ہیں کہ وہ لکیرکی کس جانب ہیں۔ جس کالہجہ جتناغصیلااورکسیلاہے وہ اتناہی بڑا اپنی جانب کا ہیرو،خواہ وزیرِقانون بابراعوان ہوجو بلاشبہ اپنے مفادات کے لئے اپنے ضمیرکا گلا دبانے میں ایک لمحہ تاخیرنہیں کرتے۔قوم کوابھی تک وہ تمام مناظریادہیں کہ کس طرح ذوالفقارعلی بھٹوکی پھانسی کے حکم پریہ رقص کرتے ہوئے مٹھائی تقسیم کر رہے تھے لیکن پیپلزپارٹی کے اقتدارسنبھالتے ہی زرداری کی قیادت میں وفاقی وزیرقانون کے منصب سے مالی فوائد کی بہتی گنگاسے فوائدسے جھولیاں بھرتے رہے اورپہلی مرتبہ وفاقی مالی جہازسے ملک بھرکی وکلابارکوکھلے عام خریدنے میں انہوں نے ایسانام کمایا،جس کے بعدانصاف دلانے والے بھی عوام کی نظروں میں مصلوب ہوگئے۔ موصوف نے اپناسیاسی سفرجاری رکھنے کے لئے فوری پینترہ بدلتے ہوئے اپنی چرب زبانی سے عمران خان کے ہاتھ پربیعت کرتے ہوئے اپنی تمام خدمات ان کے قدموں پرنچھاور کرتے ہوئے اپنی سرشت کاایک مرتبہ پھرایسااظہارکیاکہ اب ان کی نظر میں گویاان کی پیاسی روح کومنزل مل گئی ہو۔کوئی ایساموقع فروگزاشت نہیں کیاجہاں موصوف کے منہ سے وفاداریوں کی جھاگ ابلتی نظرنہ آئی ہولیکن مجھ جیسے کئی افراداپنے کالمز وآرٹیکلزمیں کئی مرتبہ اس بات کا اظہار کرچکے تھے کہ جونہی اس جماعت پرمشکل وقت آیاتویہ سب سے پہلے ہمیشہ کی طرح خاموشی سے اپنادامن جھاڑتے ہوئے اپنی بے گناہی کے ثبوت کی تیاریوں میں مصروف ہوجائیں گے۔(جاری ہے)